چانچہ عہد نبوی کی تمام اہم جگہوں میں کہیں نہ کہیں یہودیا ان کے آلہ کار منافقین کا ہاتھ ضرور نظر آتا ہے، غزوہ بدر سے پہلے یہودی مکہ مکرمہ جاتے تھے، اور مشرکین مکہ کو حملہ کے لئے ورغلاتے تھے، غزوہ اُحد میں بھی منافقین عین میدان جنگ سے اپنے ساتھیوں کے ساتھ میدان چھوڑ کر واپس آگئے، یہ وہ لوگ تھے جن کا یہودیوں کے ساتھ اندرونی تعلق تھااور اس غزوہ میں صحابہؓ کی شہادت پر یہودیوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا تھا، غزوہ خندق میں تو یہودیوں کا کردار اس قدر معاندانہ رہا اور انہوں نے کھلے طور پرمعاہدہ کی خلاف ورزی کی کہ اگر اللہ تعالیٰ کی نصرت خاص شامل نہیں ہوتی تو پورا مدینہ ویران ہو کر رہ جاتا، پھر ان منافقین نے خود مہاجرین و انصار کو آپس میں لڑانے کی تھوڑی کوشش نہیں کی؛ اس لئے نفاق کو پرکھنے کا پیمانہ نام نہاد مسلمانوں کی اعداء اسلام بالخصوص یہودیوں سے دوستی ہے۔
پورے عالم عرب میں اگر کوئی ایسی حکومت تھی، جس سے مسلمانوں کی تسکین ہوتی تھی، تو وہ تھی مملکت سعودی عرب، اگرچہ اس کا قیام بھی انگریزوں ہی کے تعاون سے ہوا تھاکیوں کہ جب خلافت عثمانیہ کے خلاف مکہ مکرمہ کے والی شریف مکہ حسین بن علی نے بغاوت کا جھنڈا بلند کیا تو اسے برطانیہ نے وعدہ کیاتھا کہ وہ اس بغاوت کے انعام کے طور پر اس کو نجدو حجازکے پورے خطہ کا حکمراں بنا دے گا لیکن جب ترک فوجیں شکست سے دو چار ہوئیں اور اس غدار لیڈر نے فتح حاصل کی تو انگریزوں نے دریائے اردن کے کنارے ایک پٹی پر اسے بادشاہ بنا دیا، ’’جو مملکت ہاشمیہ اردن‘‘ کے نام سے موسوم ہے۔ادھر ۱۵۹۱ء میں کویت میں برطانوی نمائندہ نے شاہ عبد العزیز سے معاہدہ کیا اور ان کو بھر پور وفاداری کے وعدہ کی بناء پر’’ ستارۂ ہند‘‘ کے اعزاز سے نواز ا گیا، اس معاہدہ کے مطابق نجد، احساء،قطیف اور جبیل وغیرہ پر ملک سعود کی حکمرانی تسلیم کی گئی، اس کے عوض یہ عہد لیا گیا کہ وہ بہر صورت برطانیہ کے وفادار ہوں گے، اور اپنے ورثہ میں سے ایسے ہی شخص کا انتخاب کیا کریں گے جو سلطنت برطانیہ کا ذرا بھی مخالف نہ ہو، اس طرح موجودہ سعودی عرب کے ایک حصہ پر شریف مکہ کی اور دوسرے حصہ پر ملک عبد العزیز کی حکومت قائم ہونی تھی لیکن ترکوں کی شکست کا مقصد پورا ہونے کے بعد حکومت برطانیہ کی نظر میں شریف مکہ کی کوئی افادیت نہیں رہی اس لئے جب ملک عبد العزیز نے حجاز پر حملہ کیا تو برطانیہ نے شریف مکہ کی مدد نہیں کی اور گویا بالواسطہ طور پر ملک عبد العزیز کی حمایت کی ۔ موجودہ پوری سعودی مملکت آل سعود کے زیر اقتدار آگئی، اس حکومت کے قائم ہونے میں چوں کہ شیخ محمد بن عبد الوہاب ؒکا بھی ایک رول رہا ہے، اس کی وجہ سے ایک اچھا پہلو یہ پیدا ہوا کہ اگرچہ حکومت نے بعض چیزوں میں غلو اور افراط سے کام لیالیکن یہ بات طے کر دی کہ یہاں بننے والے تمام قوانین کتاب وسنت پر مبنی ہوں گے ۔اگرچہ سیاسی اور معاشی نظام کو کبھی بھی حکومت نے قانون شریعت کے سانچہ میں ڈھانے کی کوشش نہیں کی پھر بھی زندگی کے دوسرے شعبوں میں یہاں تک کہ حدود وقصاص میں بھی قانون شریعت کو نافذ کیا گیا، یہ دوسرے مسلم ملکوں کے مقابلہ ایک غنیمت صورت حال تھی۔
سعودی حکومت نے حجاج اور معتمرین کی بھی دل کھول کر خدمت کی اور ان کی راحت رسانی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونے دی۔ اسی کا اثر ہے کہ برصغیر بلکہ پورے عالم کے اہل ایمان اس حکومت سے محبت کرتے رہے ہیں، حرمین شریفین کی تولیت کا اعزاز، حجاج وزائرین کی خدمت، دوسرے مسلم ملکوں کی بہ نسبت شریعت اسلامی کے زیادہ حصہ کا نفاذاورپٹرول کی قدرتی دولت کے حاصل ہونے کے بعد روزگار کے مواقع، ان سب چیزوں نے مل جل کر اس حکومت کو مسلمانوںکے درمیان کافی قبولیت عطاکی ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ شاہ فیصل شہید نے مغربی طاقتوں کے بالمقابل جس جرأت اور ایمانی حمیت کا ثبوت دیا، ان کے بعد ان کے جانشینوں میں کوئی بھی اس جرأت ایمانی کاوارث نہیں ہو سکا۔ پھر بھی شاہ خالد مرحوم ایک نیک صفت باشاہ تھے، شاہ فہد مرحوم کو مغرب کی طرف مائل حکمراں سمجھا جاتا تھالیکن بعد کو اندازہ ہوا کہ انہوں نے حکمت کے ساتھ مغرب کے دباؤکو تھام رکھا تھا، ان کے بعد شاہ عبداللہ مرحوم آئے جو بہت کم تعلیم یافتہ حکمراں تھے، اور لوگوں میں تاثر تھا کہ یہ زیادہ دینی رجحان کی حامل شخصیت ہیں مگر افسوس کہ جب تخت اقتدار پر متمکن ہوئے تو لوگوں کی ساری توقعات خاکستر ہوگئیںاور ان کے گرد ایسے لوگوں کا ہالہ بن گیاجو پوری طرح مغرب کے پرستار تھے اور جن کے عہد حکومت میں وہ کچھ ہوا جو مغرب نواز سمجھے جانے والے حکمراں شاہ فہد کے دور میں بھی نہیں ہوا۔
شاہ عبداللہ کی وفات کے بعد موجودہ بادشاہ ملک سلمان نے اقتدار کی باگ ڈور سنبھالی، اگرچہ ان کی دماغی صحت کے بارے میں مغرب کے ایک حلقہ کی طرف سے سوالات کھڑے کئے جا رہے تھے لیکن عمومی طور پر یہ رائے تھی کہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان ہیں، انہوں نے حکومت میں آتے ہی نہایت تیز رفتاری سے بہت سے فرمان جاری کئے جن میں بعض بہتر بھی تھے، اور لوگوں کی امید بڑھی کہ اب گزشتہ کوتاہیوں کی تلافی ہوگی لیکن اے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ بنو امیہ کے دور میں ہر نئے حکمراں کے آنے پر لوگ خوشی مناتے اور پچھلے حکمراں سے نجات پانے کا احساس رکھتے لیکن جب نیا حکمراں آتا تو کہتے کہ اس سے بہتر تو پہلا ہی شخص تھا، وہی صورت حال اس وقت قریب قریب سبھی مسلم ملکوں کی ہوگئی ہے۔
عالمی سطح پر تمام مسلمان بجاطوراس وقت سب سے زیادہ تشویش اپنے مقامات مقدسہ کے بارے میں ظاہر کرتے ہیں، سعودی عرب میں کم سے کم ظاہری طور پر جو دینی رکھ رکھاؤ تھا، اب وہ بھی بہت تیز رفتاری سے ختم ہو رہا ہے، مخلوط تعلیم کی اجازت کا باب تو سابقہ حکومت کے دور میں کھل گیا تھا، اب مردوں اور عورتوں کے مخلوط تفریحی اجتماعات کی اجازت بھی دے دی گئی ہے، مملکت کی راجدھانی ریاض میں بڑے دھوم دھام سے اسلامی اور سعودی روایات کے برخلاف سنیما ہالوں کا افتتاح کیا گیا ہے اور حکومت کی طرف سے اعلان ہو چکا ہے کہ پوری مملکت میں سنیما ہال کھولے جائیں گے۔ محمد بن سلمان نے خود بیان دیا ہے کہ’’ وہابیت‘‘ کو کسی مذہبی جذبے کے تحت نہیں بلکہ امریکہ کے اشارہ پر قبول کیا گیا تھا، اور’’ وہابیت‘‘ نے سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچایاہے، مملکت کے گزشتہ بادشاہوں نے بڑی غلطیاں کی ہیں، اور سعودی عرب کی تاریخ ایسی تاریخ نہیں ہے جس پر فخر کیا جا سکے بلکہ میرے لئے شرمندگی کا عث ہے۔انہوں نے ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے صحافی تھامسن فریڈسن کو انٹریو دیتے ہوئے کہا کہ وہ اصل اسلام کی ترویج چاہتے ہیں ۔ بقول سوعدی ولی عہد کے( خاکم بدہن )نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں موسیقی کی محفلیں ہوتی تھیں، مردوں اور عورتوں کے درمیان اختلاط کا بھی معمول تھا اور جزیرۃ العرب میں یہودو نصاریٰ کا احترام تھا ۔ان خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ولی ٔعہد کس قسم کے اسلام کی ترویج چاہتے ہیں ؟
مملکت میں متعدد تفریحی شہر ریاض کے مضافات اور شامی سرحد کے قریب بنائے جارہے ہیں، جو ہر طرح کی اخلاقی پابندیوں سے آزاد ہوں گے، ایک خبر یہ بھی آچکی ہے کہ فرانس کے دورے میں ۲۶اپریل ۲۰۱۸ء کو انہوں نے پوپ فرانسس کے ساتھ ایک ایسے معاہدہ پر دستخط کیاہے جس کے تحت پورے سعودی عرب میں چرچ کھولنے کی بات طے پائی ہے۔یہاں تک کہ اس معاہدہ میں حرمین شریفین کا بھی استثناء نہیں ہے۔ سعودیہ کی طرف سے تو غالباً اب تک اس کی تردید نہیں کی گئی ہے مگر ویٹکن سیٹی کی طرف سے (۷اپریل ۲۰۱۸ء)کو ایک وضاحت آئی ہے کہ سعودی ولی عہد سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا ہے، خدا کرے یہ وضاحت سچا ئی پر مبنی ہو۔ غرض کہ مصر اور بیشتر عرب ممالک تو پہلے ہی سے مغرب کی آغوشِ شفقت میں بیٹھ چکے ہیں، سعودی عرب نے بھی پہلے ہی سے اپنا پورا دفاعی نظام امریکہ کے حوالہ کر رکھا ہے اور پٹرول کے کنویں پر کویت، عراق جنگ کے موقع پر ہی امریکہ نے اپنا پنجہ گاڑ دیا تھا، اب فکری اور تہذیبی اعتبار سے بھی مملکت اپنے آپ کو مغرب کے حوالہ کر رہی ہے۔
اس پوری صورت حال میں سب سے نازک مسئلہ بیت المقدس کا ہے، مسجد اقصیٰ یہودیوں کے حوالہ کر دی جائے، اس کے لئے حالیہ برسوں میں مغربی طاقتوں کی شہ پر بہت تیز رفتار قدم اْٹھائے گئے ہیں، سب سے پہلے ایک ظالم وجابر آمر نے ۔۔۔کہ اگر وہ اپنے ملک میں سچائی کے ساتھ انتخاب کرائے تو دس فیصد ووٹ بھی حاصل نہ کر پائے۔۔۔مصر میں عوام کی منتخب حکومت جو’’ الاخوان المسلمون‘‘کے زیر انتظام تھی، کو طاقت اور پیسے کے بل پر معزول کیاتاکہ فلسطینیوں کا کوئی پُرسان حال باقی نہیں رہے اور اسرائیل کے پڑوس میں کوئی ایسا ملک نہیں رہ پائے جو اسرائیل کے مذموم عزائم میں رکاوٹ بن سکے، پھر نہایت بے شرمی اور ڈھٹائی کے ساتھ’’ حماس ‘‘کو ۔۔۔جو اسرائیل کے سخت مظالم کا شکار ہے اور جو اپنے ارض وطن کی آزادی کی جدوجہد کر رہا ہے۔۔۔’’ دہشت گرد ‘‘قرار دے دیا گیا، پھر ’’ الاخوان المسلمون‘‘ کو جس نے ہمیشہ قانون وآئین کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلامی اصولوں پر حکومت کے قیام کی کوشش کی ہے ، بھی’’ دہشت گرد‘‘ قرار دے دیا گیا۔ عجیب بات ہے کہ اسرائیل ۱۹۴۸ء سے دہشت گردی کا مسلسل مرتکب ہو رہا ہے اور اس نے بار بار اقوام متحدہ کے فیصلے کی دھجیاں اڑائیں، وہ تو دہشت گرد نہیں ہے، اور جس تنظیم نے کبھی دہشت گردی کا کوئی عمل نہیں کیا اور جمہوری طریقہ کار کو اختیار کیا، وہ دہشت گرد ہوگئی، حالاں کہ اصل مسئلہ اس آمرانہ سرکاری دہشت گردی کا ہے جس کے زیر سایہ عرب ممالک کے عوام مظلومیت اور مقہوریت کی زندگی گزار رہے ہیں۔
اس وقت ’’ بیت المقدس‘‘ کا مسئلہ ایک دوراہے پرہے، بجائے اس کے کہ خلیجی ممالک بالخصوص خادم حرمین شریفین مطالبہ کرتے کہ اسرائیل ۱۹۶۷ء کی سرحدوں پر واپس جائے، صورت حال یہ ہے کہ امریکہ کے صدر ٹرمپ نے بیت المقدس میں اپنا سفارت خانہ منتقل کرنے کا اعلان کیا اور باضابطہ مغربی اخبارات میں ٹرمپ کی طرف سے وضاحت کی گئی کہ ہم نے اس مسئلہ پر سعودی عرب ، مصر اوربعض دیگر خلیجی ملکوں سے گفتگو کر لی ہے، افسوس کہ ہمارے ان حکمرانوں کو یہ بھی توفیق نہیں ہو سکی کہ وہ اس اعلان کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے اور دو ٹوک انداز پر ٹرمپ کی تردید کرتے۔۴؍اپریل ۲۰۱۸ء کو سعودی عرب کے ولی عہد نے بیان دیا کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر قابض رہنے کا حق حاصل ہے۔ کاش !یہی بیان فلسطینیوں کے بارے میں آتا، یہاں تک کہ اب سعودیہ کی طرف سے فلسطینیوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ٹرمپ کے فارمولے کو قبول کر لیںورنہ انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ جب سعودی عرب نے ٹرمپ کی آمد پر مسلم ممالک کے سربراہان کو دعوت دی تو یہ اس طرح گرتے پڑتے ریاض پہنچے کہ گویا نہیں پہنچے تو دنیا و آخرت تباہ ہو جائے گی لیکن ۱۴دسمبر ۲۰۱۷ ء کوجب ترکی نے بیت المقدس کے مسئلہ پر ورلڈ مسلم لیگ کا اجلاس طلب کیا تو سعودی عرب ، مصر اور عرب امارات وغیرہ نے اعلیٰ سطحی نمائندگی سے بھی گریز کیا اور کم درجے کے نمائندہ کو بھیجا۔گویا ارادی طور پر مسجد اقصیٰ کے مسئلہ کی اہمیت کم کرنے کی کوشش کی گئی، قرآن نے تویہودکو مسلمانوں کا سب سے بڑا دشمن قرار دیا ہے اور اس دشمنی کو آج ہم شب وروز سر کی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں، مگران ہی سے بعض عرب ملکوں کی ’’دوستی‘‘ عروج پر ہے اور اس کے برخلاف اپنے مسلمان ترک بھائیوں سے نفرت ہے، جنہوں نے پانچ سو سال سے زیادہ بیت المقدس کو بچا کر رکھا اور آخری خلیفہ نے یہودیوں کے فلسطین میں آباد ہونے کے مقابلہ اپنی معزولی کو ترجیح دی، محمد بن نائف کو بلا وجہ معزول کرنے کے بعد اخبارات میں خبریں آئیں کہ اسرائیل کے پندرہ جنگی جہاز ریاض میں اُتر چکے ہیںاور سعودیہ کی طرف سے اس کی کوئی تردید نہیں کی گئی اور اب خبر آئی ہے کہ سعودیہ حج کے سارے انتظامات اسرائیلی کمپنی کے حوالہ کر رہا ہے۔ افسوس ؎
میرؔ کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے بیٹے سے دوا لیتے ہیں
حالات بتا رہے ہیں کہ مسجد اقصیٰ کا مسئلہ اس وقت نہایت نازک مرحلہ میں داخل ہو چکا ہے،افسوس کہ ۱۴؍ مئی ۲۰۱۸ء کو فرعونِ وقت ٹرمپ کے فیصلہ کے مطابق امریکہ کا سفارت خانہ بیت المقدس میں منتقل ہوا، اور اس کے خلاف احتجاج کے دوران بڑی تعداد میں فلسطینی شہید ہوئے لیکن سوائے ترکی کے کسی مسلم ملک کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ امریکہ کے اس ایک طرفہ اور ظالمانہ اقدام پر امریکہ سے اپنے سفیر کو واپس طلب کر لے، ترکی نے اسرائیل سے تو اپنا سفیر واپس بلایا ہی امریکہ سے بھی اپنے سفیر کو واپس طلب کرلیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ طیب اردگان کو جس قدر خراج محبت پیش کیا جائے کم ہے اور عالم اسلام کی بزدلی ،بے حمیتی اور غیرت اسلامی سے محرومی پر جس قدر رویا جائے کم ہے۔
افسوس صد افسوس کہ فلسطین کے پڑوسی مسلم ممالک نہ صرف یہ کہ مسجد اقصیٰ کے تحفظ کے لئے کچھ نہیں چاہتے بلکہ جو فلسطینی مزاحمت کر رہے ہیں، ان پر بھی دبا ؤ ڈال رہے ہیں ، کچھ عرصہ پہلے ایک خفیہ پلان بھی منظر عام پر آچکا ہے، معلوم نہیں اس کی حقیقت کیا ہے کہ اسرائیل حماس پر حملہ آور ہوگا اور جب ان کو غزہ چھوڑنا پڑے گاتو مصری فوج ان کو بھگا کر سینا کے بے آب وگیاہ صحراء میں دھکیلے گی، وہاں ان کو آباد کیا جائے گااور ان کی آباد کاری کے لئے سعودی عرب اور بعض خلیجی ممالک فائنانس کریں گے تاکہ فلسطین کا مسئلہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے اور اسرائیل پورے خطہ پر قابض ہو جائے۔ ظاہر ہے اس کے بعد کی منزل مسجد اقصیٰ کا العیاذباللہ انہدام ہے، جس میں اسرائیل کے لئے کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہے گی، خدا نہ کرے کہ یہ سازش کبھی پایہ ٔتکمیل کو پہنچے اور ملت اسلامیہ کی آنکھیں ایسا برا وقت دیکھنے پر مجبور ہو جائیں۔
اب یہ بات تو ظاہر ہے کہ عالم اسلام میں سوائے ترکی کے ،نیز عالم عر ب اور خلیج میں سوائے قطر کے اکثر ممالک اس بڑی منافقانہ سازش کو قبول کر چکے ہیں اور مسلم حکمراں ایک ایسے نفاق میں مبتلا ہیں جو کوئی خفیہ راز نہیں رہا، حکمرانوں کے علاوہ اگر کوئی اس کے خلاف آواز اْٹھا سکتا تھا تو وہ علماء تھے لیکن ان میں چیدہ چیدہ علمائے ربانیین کی ایک بڑی جماعت کو جیل کی کوٹھری میں ڈال دیا گیا ہے اور وہ ناقابل بیان مظالم کے شکار ہیں، کچھ وہ اہل علم ہیں جو اس صورت حال سے اپنے دل میں ضرور کسک محسوس کرتے ہیں اور ان کا ضمیر ان کو ملامت کرتا ہے لیکن وہ واقعی مجبور ہیں، اس لیے انہوں نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے ، بہر حال انہیں معذور سمجھنا چاہئے، لیکن علماء وائمہ مساجد کا ایک گروہ ایسا بھی ہے جنہیں پیسوں کے ذریعہ حکومتوں نے خرید لیا ہے، اگر وہ سکوت اختیار کرتے تب بھی سمجھا جاتا کہ یہ ان کی مجبوری ہے لیکن اس سے آگے بڑھ کر وہ حکومت کے ہر خلافِ شریعت عمل پر مہر تصویب ثبت کرتے جارہے ہیں، مصر کے سابق اور موجودہ مفتی اعظم کا حال پوری دنیا کے مسلمانوں نے دیکھا کہ انہوں نے کس طرح الاخوان المسلمون کے غیرت مند اور با حمیت مسلمانوں کی خون ریزی کو جائز ٹھہرایا اور مصر کے دستور سے اس دفعہ کے حذف کرنے کو قبول کر لیا جس کی رُو سے دستور کی بنیاد کتاب وسنت کو قرار دیا گیا تھا۔
(بقیہ اگلے جمعہ ایڈیشن میں ملاحظہ فرمائیں)