اب جبکہ 2025ء کے ماہِ ستمبر میںاسرائیل، فلسطین دو ریاستی حل کیلئے اقوام متحدہ میں قرارداد بھاری اکثریت سے منظور ہوئی ہے، جس کے بعد عوامی تاثریہی ہے کہ اب مسئلہ فلسطین حل ہوجائے گا مگر حقائق واضح نظر نہیں آرہے ہیں کیونکہ آج تک بیان کردہ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کی صورت حال سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ اسرائیل نے ہمیشہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کو نظرانداز کیاہے۔اسرائیل کی اس کی ہٹ دھرمی کو تقویت دینے والی سب سے بڑی حقیقت امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی سیاسی و عسکری پشت پناہی ہے۔ امریکہ نے کئی مرتبہ سلامتی کونسل میں فلسطین کے حق میں پیش ہونے والی قراردادوں کو ویٹو کیا۔
اس دوہرے معیار نے اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے دی کہ وہ بین الاقوامی قوانین کو پامال کرتا رہے۔جس سے یہ سوال پھر اُبھر رہا ہے کہ کیا اسرائیل اور اس کے پشت پناہ ممالک اس عالمی فیصلے پر عملدرآمد ہونے دیں گے یا یہ قرارداد بھی ماضی کی طرح محض سفارتی کاغذوں تک محدود رہے گی؟ اسرائیل کی تاریخ ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ اس نے اقوام متحدہ کی بیشتر قراردادوں کو نظرانداز کیا اور طاقت کے بل پرفلسطین پر اپنے قبضے کو بڑھاتا گیاہے۔حالانکہ دنیا کا یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو گذشتہ قریباًآٹھ دہائیوں سے اب تک حل نہیں ہوا ہے۔لاکھوں بے گناہ لوگ مارے گئے ہیں۔
بے شمار گھرانوں کے آباد گلشن ویران ہوگئے ہیں۔ گھنی آبادیاں کھنڈروں میں تبدیل ہوچکی ہیںاور نہ جانے کتنے معصوم بچوں کی جانیں فلک بوس عمارتوں کے ملبے تلے دب کے رہ گئیں ہیں۔پُرشکوہ عمارتیں زمین بوس ہوگئی ہیں، مسجدوں سے لیکر اسپتالوں تک کو تاخت وتاراج کردیا گیا ہے،تعلیم گاہیں تہس نہس کردی گئی ہیں، فلسطینیوں کی زمینیں و جائیدادیں ہڑپ کرلی گئیں ہیں،ہزاروں گھروں کو پامال کرکے ،معصوم بچوں اور انکے پریواروں کو بے بس وبے کس بنا کر سڑکوں پر کھلے آسمان کے تلے لا کھڑا کر دیاگیا ہے۔حد تو یہ ہے کہ غزہ کے بے شمار نونہال بچے بھکمری اور تشنۂ پیاس سے موت کے آغوش میں چلے گئے ہیں۔اس وقت بھی ایک طرف جہاں غزہ کے بچے بھوک وپیاس میں تڑپ رہے ہیں وہیں دوسری طرف اُن پر بمباری کا سلسلہ جاری ہےاور روزانہ درجنوں معصوموں کا قتل ِ عام کیا جارہا ہے۔ایک اندازے کے مطابق قریباً دو لاکھ فلسطینی اسرائیلی جارحیت میں مارے گئے ہیں۔تعجب ہے اس دوران بھی ہمارے اسلامی ممالک کے حکمران خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہےاور امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اربوں درہم کے تحفے پیش کر رہے ہیں۔اگرچہ مسلم ممالک اقوامِ متحدہ میں اکثریت رکھتے ہیں، مگر باہمی اختلافات اور مفادات کی سیاست نے انہیں کمزور کر رکھا ہے۔اُن کی طرف سے فلسطین کے مسئلے پر وقتی احتجاج تو کیا جاتا ہے، لیکن طویل المدتی اور موثر حکمت عملی اختیار نہیں کی جاتی۔
یہی وجہ ہے کہ اسرائیل ہر بار مضبوط مؤقف اختیار کرتا ہے اور مسلم دنیا کمزور نظر آتی ہے۔بظاہر اس وقت پوری دنیا اسرائیل کی جارحیت اور بربریت کے خلاف کھڑی نظر آرہی ہے ،لیکن امریکی صدر کی طرف سے اسرائیل کی جے جے کاری میں اسرائیل کو مہلک سے مہلک ہتھیاروں کے انبار فراہم ہورہے ہیں۔ گویا اب غزہ کی کوئی جغرافیائی حقیقت نہیں رہی بلکہ یہ اب ایک اجتماعی قبر ہے۔ جہاں ہر دن نئی قبریں کھودی جارہی ہیں،مگرکوئی کتبہ نہیں لگتا۔ نہ نام، نہ تاریخ پیدائش، نہ تاریخِ وفات۔ بس ایک ہجوم ہے جو ماضی حال اور مستقبل کو اپنی آنکھوں کے سامنے دفن کرتا جا رہا ہے۔ایک طرف اسرائیلی بمبار طیارے ہیں اور دوسری طرف فلسطینی بچوں کی وہ خونچکاں تصویریں جو اُمت ِمسلمہ کو شرمسار کررہی ہیںاور اقوام متحدہ کی قراردادیں انسانی حقوق کے عالمی منشور انصاف کے دعوے دار بین الاقوامی ادارے سب غزہ میں ہونے والے ظلم کو روکنے سے قاصر ہیں۔جبکہ یہ حقیقت واضح ہے کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادیں صرف اُسی وقت مؤثر ہو سکتی ہیں جب بڑی طاقتیں اپنے دوہرے معیار سے دستبردار ہو کر انصاف پر مبنی پالیسی اپنائیں اورمسلم ممالک مشترکہ مؤقف اختیار کر کے اسرائیل پر سیاسی و معاشی دباؤ ڈالیں،ورنہ محض الفاظ اور اعلانات پر اکتفا کرنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔