سرینگر //مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ مزاحمتی قیادت کبھی بھی پائیدار اور جامع مذاکرات کی مخالف نہیں ہے لیکن جہاں یہ عمل بھی کشمیری مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے جاری ملٹری آپریشن آل اوٹ کا حصہ ہو وہاں نام نہاد بات چیت کو ایک ڈرامہ اور مفروضہ کے سوا کوئی اور نام نہیں دیا جاسکتا۔مزاحمتی قیادت نے وزیر اعلیٰ کے اس بیان پر رد عمل کا اظہار کیا ہے جس میں موصوف نے کہا تھا کہ علیحدگی پسند بات چیت سے راہ فرار اختیار کررہے ہیں۔انہوںنے کہا کہ ریاستی وزیراعلیٰ کو اگر کشمیری عوام اور ان کے وسیع تر مفادات اور سیاسی مستقبل سے واقعی دلچسپی ہے تو وہ عملاً ایسے حالات اور فضا بنانے کی کوشش کریں جن سے مسئلہ کشمیر کے حل ہونے کی راہ ہموار ہو اور یہاں جاری قتل و غارت ، خون خرابہ اور عدم تحفظ کا ماحول ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو سکے ۔ قائدین نے کہا کہ بھارت، پاکستان اور بنیادی فریق کشمیری عوام کے ساتھ نتیجہ خیز اور ثمر آور مذاکرات کی اہمیت، ضرورت اور افادیت سے ہرگز انکار نہیں ہے۔قائدین نے کہا کہ وزیراعلیٰ کے ذہن اور سوچ میں تضاد ہے کیونکہ ایک طرف وہ فرسودہ الحاق کو تاریخ ساز اور درست فیصلہ قرار دیکر اسے حتمی تسلیم کرتی ہے اور دوسری طرف مزاحمتی قیادت کومسئلہ کشمیر کے حل کے تعلق سے بات چیت کی حامی ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں۔قائدین نے کہا کہ کشمیربین الاقوامی سطح پر ایک متنازعہ خطہ ہے اور اگر بات چیت ہوتی ہے تو وہ حق خودارادیت کی بنیاد پر تمام فریقوں کے مابین ایسا جامع مذاکرات ناگزیر ہے جس سے اسکا حتمی اور دیرپا حل تلاش کیا جاسکے۔انہوں نے یہ بات زور دیکر کہی کہ حکومت ہند اور ریاستی سرکار کی جانب سے نام نہاد بات چیت کا شوشہ کھڑا کرنا دراصل کشمیری مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے جاری ملٹری آپریشن آل اوٹ کا ایک حصہ ہے ۔مشترکہ قیادت نے وزیراعلیٰ کو یاد دلایا کہ وہ قیادت کو نصیحت کرنے کے بجائے آپریشن آل اوٹ پر دھیان دیں جس کے تحت ان کے احکامات پر معصوم کشمیریوں کا لہو بے دریغ بہایا جارہا ہے، کشمیری مائوں ، بہنوں، بزرگوں، بچوں اور جوانوںکو کریک ڈائون کرکے تعذیب اور ترہیب کے مراحل سے گزارا جارہا ہے ، ہزاروں پیر و جوان جیلوں میں ڈال دئے گئے ہیں ، NIA اور ED جیسے بھارتی اداروں کو استعمال کرتے ہوئے درجنوں کشمیری رہنمائوں کو تہاڑ جیل دلی میں قید رکھا گیا ہے ، ہزاروں معصومین جن میں کمسن بچیاں بھی شامل ہیں کی بینائی سلب کرلی گئی ہے ، مزاحمتی قیادت کی جملہ پر امن سیاسی سرگرمیوں پر مکمل پابندی عائدہے، اور جس کے تحت اب کشمیر کی مساجد اور تعلیمی اداروں پر بھی نشانہ سادھا جارہا ہے۔