تھیریس لوتھی
موسمیاتی تبدیلی کے باعث جیسے جیسے ہیٹ ویوز یعنی گرمی کی لہریں شدید تر ہوتی جا رہی ہیں ویسے ویسے سائنس دان یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شدید گرمی ہمارے دماغ پر کیا اثرات ڈالتی ہے۔یونیورسٹی کالج لندن کے سنجے سیسودیا دماغ پر موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پر تحقیق کے سرخیل اور ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ڈراویٹ سنڈروم محض ایک مثال ہے۔ اس کے علاوہ کئی ایسی اعصابی بیماریاں ہیں جو گرمی میں بگڑ جاتی ہیں۔ مرگی کے مرض کے ماہر سیسودیا کہتے ہیں کہ انھیں اکثر مریضوں کے گھر والوں سے سننے کو ملا کہ گرمیوں میں ان کے مسائل بڑھ جاتے ہیں۔
دماغ پر گرمی کے اثرات :
جب سیسودیا نے سائنسی تحقیق کا جائزہ لیا تو انھیں پتا چلا کہ بڑھتی ہوئی گرمی اور نمی سے مرگی، فالج، دماغی سوزش (انسفیلائٹس)، ملٹیپل سکلروسیس، مائیگرین اور دیگر کئی دماغی بیماریاں بدتر ہو جاتی ہیں۔انھیں یہ بھی معلوم ہوا کہ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات ہمارے دماغوں پر پہلے سے ہی ظاہر ہو رہے ہیں۔مثال کے طور پر، سنہ 2003 کی یورپی ہیٹ ویو کے دوران اضافی اموات میں سے تقریباً سات فیصد براہ راست دماغی مسائل سے جڑی ہوئی تھیں۔ سنہ 2022 کے برطانیہ میں آنے والی ہیٹ ویو میں بھی ایسے ہی اعداد و شمار سامنے آئے۔لیکن گرمی دماغ کے دیگر افعال کو بھی متاثر کرتی ہے۔ مثال کے طور پر یہ ہمیں زیادہ چڑچڑا، پرتشدد اور افسردہ بنا سکتی ہے۔اب جبکہ دنیا موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے مزید گرم ہو رہی ہے، تو ہم دماغ پر اس کے اثرات کے متعلق کیا توقع کر سکتے ہیں؟انسانی دماغ کا درجہ حرارت عام طور پر ہمارے جسم کے اندرونی درجہ حرارت سے صرف ایک ڈگری سینٹی گریڈ زیادہ ہوتا ہے۔ لیکن دماغ چونکہ جسم کا ایک توانائی خرچ کرنے والا عضو ہے، اس لیے یہ سوچنے، یاد کرنے اور ردِعمل دینے کے دوران خود بھی حرارت پیدا کرتا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ جسم کو اسے ٹھنڈا رکھنے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔ خون کی گردش کے ذریعے حرارت دور کی جاتی ہے تاکہ دماغ کا درجہ حرارت قابو میں رہے۔یہ ضروری ہے کیونکہ ہمارے دماغی خلیہ گرمی کے لیے بہت حساس ہوتے ہیں اور وہ کیمیائی مادے جو خلیوں کے درمیان پیغامات منتقل کرتے ہیں، وہ بھی درجہ حرارت پر انحصار کرتے ہیں۔ ایسے میں اگر دماغ بہت گرم یا سرد ہو جائے تو یہ مادے مؤثر طریقے سے کام نہیں کرتے۔سیسودیا کہتے ہیں: ’’ہم پوری طرح نہیں جانتے کہ اس پیچیدہ نظام کے مختلف حصے کس طرح متاثر ہوتے ہیں لیکن ہم اسے ایک گھڑی کی طرح تصور کر سکتے ہیں، جس کے پرزے اب باہمی ہم آہنگی سے کام نہیں کر رہے۔‘‘اگرچہ شدید گرمی ہر کسی کے دماغ کو متاثر کرتی ہے، جیسے فیصلے لینے کی صلاحیت کا متاثر ہونا یا غیرضروری خطرے مول لینا، لیکن اعصابی امراض میں مبتلا افراد پر اس کے اثرات زیادہ شدید ہوتے ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ مثلاً کچھ بیماریوں میں پسینہ آنا کم ہو جاتا ہے۔
سیسودیا کے مطابق ‘تھرمو ریگولیشن یا جسم کا درجہ حرارت کنٹرول کرنا خود ایک دماغی عمل ہے اور اگر دماغ کے مخصوص حصے صحیح طریقے سے کام نہ کر رہے ہوں، تو یہ عمل متاثر ہو جاتا ہے۔مثلاً کچھ اقسام کی ملٹیپل سکلروسیس میں جسم کا بنیادی درجہ حرارت ہی بدلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، کچھ دوائیں جو اعصابی یا ذہنی بیماریوں جیسے شیزوفرینیا کے علاج میں استعمال ہوتی ہیں، جسم کی حرارت کنٹرول کرنے کی صلاحیت کو متاثر کرتی ہیں، جس سے مریضوں کو ہیٹ سٹروک (یا طبی زبان میں ہائپر تھرمیا) اور گرمی سے موت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ہیٹ ویوز اور بطور خاص رات کے وقت بڑھا ہوا درجہ حرارت انسان کی نیند کو متاثر کرتے ہیں۔ یہ ہمارے مزاج پر اثر انداز ہوتے ہیں اور بعض بیماریوں میں مزید اضافہ کر سکتے ہیں۔ ‘بہت سے مرگی کے مریضوں کے لیے کم یا ناقص نیند دوروں کے خطرے کو بڑھا سکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ عمر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد کے لیے جسم کا درجہ حرارت قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن ان کی ذہنی کمزوری بھی شدید گرمی میں خود کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کھونے لگتی ہے۔برطانیہ میں یونیورسٹی ہاسپیٹلز سسیکس کی بزرگ افراد کی ماہر ڈاکٹر بیتھن ڈیوس کہتی ہیں: ‘شاید یہ تعداد کم لگے، لیکن چونکہ دنیا بھر میں سالانہ 70 لاکھ افراد فالج سے مرتے ہیں، گرمی اس میں سالانہ 10 ہزار سے زائد اضافی اموات کا باعث بن سکتی ہے۔وہ اور ان کے ساتھی محققین خبردار کرتے ہیں کہ موسمیاتی تبدیلی آئندہ برسوں میں اس مسئلے کو اور بھی سنگین بنا سکتی ہے۔
ہیٹ ویوز سے فالج کے زیادہ تر اثرات درمیانی اور کم آمدنی والے ممالک پر پڑیں گے، جو پہلے ہی موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں اور جہاں فالج کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔
‘بڑھتا ہوا درجہ حرارت ممالک اور معاشرتی طبقات کے درمیان صحت کے فرق کو مزید بڑھا دے گا۔ بڑھتے ہوئے شواہد سے پتا چلتا ہے کہ معمر افراد اور کم آمدنی والے طبقات کے لوگ گرمی سے ہونے والی اموات کے زیادہ خطرات سے دوچار ہوتے ہیں۔ایک تحقیق میں پتا چلا ہے کہ گرم ہوتی ہوئی دنیا، نومولود بچوں کے دماغی ارتقاء کو بھی متاثر کر رہی ہے۔ حالیہ سائنسی جائزے میں یہ بات سامنے آئی کہ ہیٹ ویوز کی موجودگی میں قبل از وقت پیدائش کا امکان 26 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، جو بچوں میں دماغی ارتقائی تاخیر اور سیکھنے کی صلاحیت پر اثر ڈال سکتا ہے۔شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ ہیٹ ویوز کے دوران ڈیمنشیا (یادداشت کی کمزوری) کے مریضوں کے ہسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ عمر بھی ہو سکتی ہے کیونکہ بڑی عمر کے افراد کے لیے جسم کا درجہ حرارت قابو میں رکھنا مشکل ہوتا ہے، لیکن ان کی ذہنی کمزوری بھی شدید گرمی میں خود کو محفوظ رکھنے کی صلاحیت کھونے لگتی ہے۔
��������������������