کیا وہ زندہ تھیں بھیڑیوں کی خوف ناک آوازوں کو سننے کے بعد بھی ؟
حکمرانی کی شاہراہ پر منڈلاتے وحشی بھیڑئیے
بیٹیوں کے مردہ جسم کو روندتے ہوئے
ثقافت کے نئے باب میں
عصمت دری کو وکاس کا نام دے کربرہنہ قہقہے اچھال رہے تھے
وہ تعداد میں چالیس تھیں یا اس سے کہیں زیادہ یا اس سے کم
تعلیمی اداروں کے باہر ہر بار
انھیں پھینک دیا جاتا تھا
کسی بھوکے ، ہونٹ لپلپاتے بھیڑئیے کے سامنے
مردہ جسم میں ان بھیڑیوں کو پالتے ہوئے
ہر بار ایک یہی دوزخ کا سامنا کرتے ہوئے
وہ ڈھونے پر مجبور تھیں ، اپنی ہی بدبو دیتی ہوئی لاشیں ، ہر بار
وقت کے بے رحم صفحات پر آوارہ ناچتی ہوئی موت
یہ ایک خوف ناک سانحہ ہے
ان بیٹیوں کے لئے ، جن کے اندر
مردہ جسم میں ٹھہاکے لگاتا بھیڑیا اب تک زندہ رہ گیا ہے
ان کے مرنے کے بعد بھی
سلطنتیں نہیں سنیں گی
سلطنتیں خاموش رہیں گی
مہابھارت کال اور اس سے بھی قدیم زمانے کے دستاویز کو نکال کر
عصمت دری سے وابستہ ہر سانحے کو جائز ٹھہرائیں گی
چیل ،کوؤں ،گدھ اور بھیڑیوں کے سواگت لئے
جشن کا اہتمام کریں گی
بیٹیوں کے مردہ جسم میں
کچھ نئے بھیڑیوں کو جگہ دینے کا قانون بنائیں گی
نوٹ : یہ بہار کے شیلٹرہوم جنسی اسکنڈل سے متاثر ہوکر لکھی گئی آزاد نظم ہے۔۔۔مدیر