یہ سال 1963ء کی بات ہے کہ موئے مقدس کی تحریک میں میر واعظ خاندان کے چشم و چراغ ایک مرد حق،بے باک وبہادر، صاحب بصیرت اور اہل علم جناب میر واعظ کشمیر مولانا محمد فاروق صاحب مرحوم نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا ۔ کشمیر ی عوام سے تازہ دم قائد کو کم سنی میں ہی زبردست حوصلہ افزائی اور محبتیں ملیں ۔ مرحوم میر واعظ کشمیر مولانا محمد فاروق صاحب نے اپنی ایک سیاسی تنظیم عوامی ایکشن کمیٹی کے نام سے وجود میںلائی۔ اگست 1965میں مولانا مرحوم گرفتار ہوئے اور ڈھائی سال طویل ابتلاء و آزمائش گزار کرر ہا کئے گئے ۔ موصوف نے عزم و ایثار اور عالی ہمتی کا مظاہرہ کر کے اسیری کی زندگی خندہ پیشانی کے ساتھ گذار ی اور رہائی کے بعد تحریک آزادی جاری و ساری رکھنے کا عزم بالجزم کیا۔ ان دنوں شیخ عبداﷲ کی قیادت میں محاذ رائے شماری تحریک جموں کشمیر میں جاری و ساری تھی۔ بر صغیر کی سیاست کے چکر میں 1971ء میں
سقوطہ ڈھاکہ کے سانحہ نے آرپار کی سیاست کا نقشہ ہی بدل دیا۔ شیخ عبداﷲ نے حالات تاڑ کر روایتی سیاسی قلا بازی دکھاتے ہوئے بیگ پارتھا سارتھی خفیہ بات چیت چلوادی ۔اس سیاسی قلا بازی کے خلاف میرواعظ مرحوم نے 12؍ جولائی 1974ء کو شیخ عبداﷲ کے ہزیمت پسندانہ کردار کو ننگا کر نے کے لئے لاکھوں لوگوں پر مشتمل ایک جلوس کی قیادت کر کے لال چوک میں حق خودارادیت کے حق میں آواز بلند کی اور ببانگ دل کہا کہ ہم اپنے موقف پر چٹان کی طرح قائم ہیں ۔ 12؍ جولائی 1974ء کا تاریخی جلوس بھارتی قیادت اور شیخ عبداﷲ کو وارننگ تھی کہ اندرا عبداﷲ ایکاڑ کرنے سے رائے شماری اور تنازعہ کشمیر پر کوئی اثر نہیں پڑے گامگر شیخ عبداﷲنے ہوس اقتدار کی تشفی کے لئے فروری 1975میں محاذ رائے شماری کو توڑ کر نیشنل کانفرنس کا احیاء کر کے وزیر اعلیٰ کی کرسی سنبھالی۔ محاذ رائے شماری کے با شعور قائدین جیسے صوفی محمد اکبر کے ساتھ ساتھ ہزاروں محاذ شماری کے کار کنان شیخ عبداﷲ سے متنفر ہوکرا ن سے الگ ہو گئے۔ تحریک آزادی کو جاری و ساری رکھتے ہوئے حریت پسند جماعتوں پیپلز لیگ ، سٹوڈنٹس فیڈریشن ، اسلامک آرگنازیشن ، جماعتِ اسلامی اور دیگر سیاسی تحریک پسند نوجوانوں نے ایک منظم انداز میں کشمیر کا ز کا سفر جوں توں جاری رکھا ۔ 1988میں جب یہاں عسکری تحریک شروع ہوئی تو مولانا فاروق بھی اپنے حریت پسندانہ عزائم کو جلّا بخشنے کے لئے غور و فکر میں مصروف ہوئے۔ وہ 1990ء میں تحریک آزادی کی بالائے زمین سیاسی سر گرمیوں کا مرکز بنانے میں ایک منصوبہ بند حکمت عملی وضع کر نے میں اپنا کلیدی رول ادا کرنا چاہتے تھے مگر قوم کی انتہائی بد قسمتی تھی کہ میر واعظ کشمیر مولانا محمد فاروق صاحب کو ایک سازش کے تحت 21؍ مئی 1990 ء کو شہید کیا گیا۔ آخر یہ شر پسند کون تھا جس نے کشمیریوں کے دشمن کا آلۂ کار بن کر مولا ناکو جان بحق کیاَ؟ یہ ابھی تک ا یک لاینحل معمہ ہے۔ میرواعظ کے جسد خاکی کوصورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ سے ایک جلوس کی صورت میں ہزاروں لوگوں کی منظم جمعیت میرواعظ منزل شہر خاص راجویری کدل لا رہے تھے کہ حول مشعلی محلہ کے نزدیک بھارتی افواج نے جلوس پر بے تحاشا فائرنگ کر کے موقع پر ہی سوگواروں اور محبوں میں سے لگ بھگ 60 نہتے افراد کو بے دردی سے ابدی نیند سلادیااور سینکڑوں لوگ کو زخمی کر دیا ۔ یہ قتل عام بھارتی جمہوریت پر ایک بد نما داغ ہے جس پروقت کے وزیر اعظم چندر شیکھر نے اپنے بیان میں اعترافاً کہا ہندوستان کے مہذب عوام کا سر دُنیا کے سامنے شرم سے جھک گیا کیونکہ بھارتی افواجنے جلوس جنازہ پر فائرنگ کر کے انسانی حقوق کی بد ترین پا مالی کاا رتکاب کیا۔ ابھی یہ زخم ہرا ہی تھا کہ 21؍مئی 2002ء کو عید گاہ سرینگر میں جب میر واعظ کشمیر مولانا محمد فاروق کی بارہویں برسی کے موقع پر عقیدت کے پھول نچھاور کئے جا رہے تھے کہ عید گاہ کو مقتل کدہ میں تبدیل کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے چوٹی کے رہنما ،پیپلز کانفرنس کے سربراہ کشمیر اور آزادیٔ کشمیر کے نڈر نقیب عبدالغنی لون صاحب کو جلسہ گاہ میں گولیوں کی بوچھاڑ میں ہمیشہ کے لئے خاموش کیا گیا۔ آپ میرواعظ مرحوم کی برسی میں شرکت کی غرض سے اپنا امریکی دورہ ادھورا چھوڑ کر صرف ایک دن پہلے وطن واپس آئے تھے مگر خود اسی دِن جام شہادت نوش کر گئے ۔ قبل ازیں عید گاہ کے جلسے میں عقیدت مندوں کا جمع غفیر نہایت ربط وضبط کے ساتھ قائدین کی باتیں سن رہا تھا ۔ سٹیچ پر تعزیتی تقریروں کا سلسلہ جاری تھا اور دیگرحریت قایدین کے بیچ خواجہ عبدالغنی لون اطمینان سے وہاں بیٹھے تھے ۔ چند منٹ بعد حریت قائدین کی تقاریر ختم ہوتے ہی جب لون صاحب سٹیج سے نیچے آئے تو قاتل نے اپنا کام کیا اور عید گاہ کے شہید مزار اس مرد حُرکے خون سے لالہ زار ہو گیا۔
خواجہ عبدالغنی لون کپواڑہ کے ایک دور افتادہ گائوں لون ہرے میں ایک متوسط گھرانے میں 1932ء میں پیدا ہوئے ،ان کے والد کا نام خواجہ احمد لون تھا۔ ابتدائی تعلیم ترہگام اور ہندوارہ میںحاصل کی جب کہ میٹرک سوپور کے ہائی سکول سے پاس کیا اور بی اے کی ڈگری 1955ء میں ایس پی کالیس سرینگر میں حاصل کی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے منصف کورٹ ہندوارہ میں وکالت شروع کی ۔یہاں لوگوں کی سیاسی سماجی اور معاشرت زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرنے اور ان کے مسائل سمجھنے کا موقع ملا ۔ غربت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں پلنے والے ایک درد مند غریب پرور انسان ہونے کے ناطے آپ نے عوامی مسائل سلجھانے اورغریبوں کے دکھوں کا مداوا کر نے کی راہیں تلاش کرنی شروع کر دیں اور رفتہ رفتہ عبدالغنی لون عوام کے قریب ہوتے گئے ا ور انہوں نے سیاسی زندگی میں قدم رکھا 1967ء کو سب سے پہلے پنچایت الیکشن لڑا مگر نا کام ہوئے اور یہاں سے کامیابی کی سیڑھیاں پانے کے لئے کمر ہمت باندھ لی۔بہر حال 1967تا 1987وہ قانون ساز اسمبلی کے ممبر رہے۔ اپنی روایت شکن سیاست میں انہوں نے کئی اُتار چڑھائو بھی دیکھے ۔1970ء میں سید میر قاسم کے سر براہی میں وہ کانگریسی حکومت میں پہلے نائب وزیر تعلیم بنائے گئے اور ایک سال بعد اپنی ذہانت اور قابلیت کی بنیاد پر تعلیم کے صحت اور سیاحت کے کابینی وزیر بنائے گئے لیکن 1973 میں وہی کانگریس سے مستعفی ہو گئے ۔ 1978ء میں اپنی علاقائی پارٹی جموں کشمیر پیپلز کانفرنس کا وجود عمل میں لایا۔ اس نئی پارٹی کی بنیاد ڈالنے میں کشمیر کی سیاست کے زیرک اور تر دماغ رہنمائوں نے ان کا بھر پور ساتھ دیا۔ جناب لون صاحب نے اپنی ذاتی محنت و جدو جہد اور قابلیت سے ہی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ وہ تحریک آزادی سے وابستہ لبریشن فرنٹ، پیپلز لیگ اور دوسری تحریکی تنظیموں کے کارکنوں اور قایدین کی بے حد عزت کرتے تھے۔ محمد مقبول بٹ کا کیس لڑنے میں بھی مقدور بھر مدد کی اور بھارتی حکمرانوں کو بار بار خبردار کیا کہ محمد مقبول بٹ کو پھانسی دی گئی تواس کے خطرنا نتائج بر آمد ہوں گے۔ مرحوم لون صاحب ریاست کو کانگریس اور نیشنل کانفرنس اور اُن کی کشمیر دشمن پالیسیوں سے نجات دلانا چاہتے تھے ۔ 1988ء میں مرحوم نے رواں عسکری جدو جہد میں بھی قائد انہ رول ادا کیا ۔ شروع شروع میں JKLF کے کئی کمانڈروں کو کئی بار گرفتاری سے بچانے کے لئے انہیں اپنی گاڑی میں ایک جگہ سے دوری جگہ پہنچا تے تھے ۔ JKLF کے حاجی گروپ سے خاصے مراسم تھے۔ 1993 میں زبردست کاوشوں کے نتیجے میں کل جماعتی حریت کانفرنس کا قیام عمل میں لانے میں پیپلز لیگ کے مرحوم ایس حمید صاحب اور مرحوم لون صاحب نے کلیدی رول ادا کیا۔ سات جماعتوں کی نمایند گی پر مشتمل حریت کے سات رُکنی ایگزیکٹو کمیٹی کے وہ بھی ایک سرکردہ ممبر تھے۔ وہ تنازعۂ جموں کشمیر کے حل میں پہلے فریق کی حیثیت سے کشمیریوں کو اولیت دئے جانے کے حامی تھے تاکہ بر صغیر میں منصفانہ کشمیر حل سے پائیدادر دیرپا امن قائم ہو جائے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی اہل کشمیر کو ان دو حریت نواز قائدین میرواعظ مولانا فاروق اور خواجہ عبدالغنی لون جیسی مرد آہن شخصیات کی کمی دل وجان سے کھٹکتی ہے۔
رابطہ :ریشن ہار نواکدل 9906574007