عذرا حکاک،سرینگر
ڈاکٹر فرید پربتی دبستانِ جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک ایسے شاعر ہیں جواپنی منفردادبی سرگرمیوں کی بدولت کشمیر کے عظیم شعرا ء کی صف میں گردانے جاتے ہیں۔وہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے ۔ اُن کے اندر ایک معتبر شاعر ،معززدانشور،اعلیٰ نقاد اور ایک رفیق و شفیق اُستادہونے کی تمام صلا حیتیں موجود تھی۔۴،اگست ۱۹۶۱ء کوسنگین دروازہ ،حول سرینگر میں اُردو ادب کے اِس انمول گوہر کی ولا دت ہوئی جس کا اصل نام غلام نبی بٹ تھالیکن فرید پربتی کے نام سے مقبول ہوئے۔ فریدؔ تخلص استعمال کرتے جبکہ اپنے علاقے میں واقعہ قلعہ ہاری پربت کے قدرتی مناظر سے بے حد متاثر نظر آتے ہیں اور اِسی مناسبت سے اپنے نام کے ساتھ پربتی لکھتے ۔
فرید پربتی فطرتاً ایک شریف النفس اور ملنسار شخص تھے۔اُن کی خوش اخلاقی اوردوستانہ طبیعت کا اعتراف اُن سے منسلک رہا ہر شخص کرتاہے۔اُن کے بچپن اور جوانی کے قریب ترین دوست ، کشمیر کے جانے مانے صحافی و قلمکا رمحترم جاوید آذرؔ کے مطابق فرید صاحب کی طبیعت میںبچپن سے ہی بے باکی اور دلیر ی کا رنگ جھلکتا تھا۔ خطرناک سے خطرناک قسم کے حالات و واقعات سے نپٹنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتے اورکسی بھی شخص کے ساتھ یا کسی بھی معاملے میں ہو رہی نا انصافیوںیازیادتیوں کوہر گز قابلِ برداشت نہ سمجھتے ۔اُن کی یہی عادت ادبی میدان میںمستقل طور پر قدم جمانے کے بعد بھی برقرار رہی ۔ علم و ادب کے حوالے سے کسی بھی قسم کا سمجھوتاکرنے کو قابلِ قبول نہ سمجھتے، جس وجہ سے اُن کے کئی مخالفین بھی پیداہوئے ۔یوں تو فرید صاحب طالب علمی کے زمانے سے ہی شعر و ادب کے دلدادہ تھے لیکن اُن میں شعر و شاعری کا شوق و ذوق دراصل اسلامیہ کالج میں ہو رہی ’بزمِ ادب‘ کی نشستوں کی دین ہے۔بقولِ محترم جاوید آذرـ’’اُنہوں نے فارسی کے پروفیسرمحمد عبداللہ شیداسے فارسی زبان و ادب سیکھنے کا سلسلہ شروع کردیا۔یہی وہ دورتھا جب فرید صاحب نے شعر وادب اور ادبی قواعد کا بغور مطالعہ کیا جس کی وجہ سے اُن کے فکر و فن میںسنجید گی اورپختگی پیدا ہوئی۔ ‘‘ فریدپر بتی اُردو زبان و ادب کی نہایت ممتاز ، بر گزیدہ اور محترم شخصیت ہیں۔اُردو زبان و ادب کے طالب ِ علموں اور نوجوان قلم کاروں کی بھر پور حوصلہ افزائی کر نے کے ساتھ ساتھ اُن کی رہنمائی کرنے میںبھی ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے۔ پروفیسرمجید بیداد اس ضمن میں اپنی کتاب ’’خوش خُلقی کا پیکر۔فرید پربتی ‘‘ میںیوں رقم طراز ہوتے ہیں:ـ’’فرید پر بتی کی خوش اَخلاقی اور خوش خُلقی اُردو والوں کے دلوں میں اِس قدر گھر کر چکی ہیں کہ ہمیشہ فرید پربتی کے اُردو زبان و ادب کے احسانات کی یاد اُسے جاوداں رکھے گی۔‘‘
فرید پربتی ایک قادرالکلام شاعر تھے۔اُن کا تخلیقی سفراُن کے آٹھ شعری مجموعوںپر مشتمل ہے جن میں غزلیں ،نظمیں اور رباعیاں بکثرت شامل ہے جن میں’’ابرِ تر (۱۹۸۷ء)‘‘،’’آبِ نیساں (۱۹۹۲ء)‘‘،’’فریدنامہ(۲۰۰۳ء)‘‘،’’ہزارمکاں (۲۰۰۶ء)‘‘ ،خبرِتحیر (۲۰۰۸ء)‘‘وغیرہ جدید شاعری کا عمدہ نمونہ ہے۔ عروض و آہنگ پرقدرت حاصل ہونے کے سبب اُن کے دل آویز کلام میں شگفتگی و نغمگی کا حسن بدرجہ اتم موجود ہے۔اُن کے منفردلب و لہجہ اور اسلوب کی بے ساختگی وبرجستگی کااندازہ اُن کے اِن اشعار سے لگا یا جاسکتا ہے ؎
بطرزِ خاص ستم جو حِنا حِنا سا لگا
اُسی سے درد کا ر،شتہ سجا سجا سا لگا
سُلگتے خواب خریدے ہیں نید کے بدلے
یہ کاروبار پرانا نیا نیا سا لگا
فرید پر بتی کی شاعری میں کلاسکیت کا رنگ نمایاں ہے۔ان کی فکر میںجمالیاتی عناصر کے ساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ خواب پوشیدہ نظر آتے ہیں۔پروفیسر قدوس جاوید اپنے مضمون’’کوئی دیوار گری ہو جیسے ۔فرید پر بتی ‘‘میں اُن کی شعری امتیازات کو مدِ نظر رکھ کر لکھتے ہیں:’’ویسے جو تجربات اور محسوسات(شاعری میں) فرید پربتی نے بیان کئے ہیں انہیں فن کارانہ استعارہ سازی اور ابہام سے کام لئے کر اور زیادہ معنی خیز،حسین اور پُر کشش بنایا جاسکتاتھا۔پھر بھی کہا جاسکتا ہے کہ فرید پربتی کی شاعری بحیثیت مجموعی ایک طرف تو کلاسکی اردو شاعری کے لسانی و اظہاری امتیازات کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھتی ہیں دوسری جانب فکر و خیال کے حوالے سے جدید اُردو شعرا ء کے رحجانات اور رویوںسے
بھی مماثلت پیدا کرتی ہے۔‘‘ یہی وجہ ہے کہ اُن کی شاعری وقت کی گرد میں دب کر معدوم ہونے کے بجائے ہر دور میں صبحِ درخشاںکی مانندسالم ہے اور ہمیشہ رہے گی۔اُنہوں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بِنا پر قدیم تشبیہات، استعارات،لفظیات اورعلامات کو نئے مفہوم عطا کئے۔ وہ وادی کشمیر کی قدرتی نظاروں سے کافی متاثر نظر آتے ہیں جس کی نمایاں تصویر اُن کی شعر و شاعری میں دیکھنے کو ملتی ہے۔لکھتے ہیں ؎
چھٹنے کو ہے ابرِ کرم بسم اللہ
مٹنے کو ہے ہر کہنہ علم بسم اللہ
جذبات کی برف کو پگھلتے ہی بنی
پھر چلتے لگا میرا قلم بسم اللہ
فرید پر بتی کی شاعری عمیق نکتے اوردقیق فلسفے سے ہی تعلق نہیں رکھتی بلکہ احساسات و جذبات اور مسائل و مشاہدات کے پر خلوص بیان کی بھی منظر کشی ہے۔وہ خود کہتے ہیں کہ صنفِ رباعی کی جانب ان کی طبعیت کومائل کرنے میں غلام رسول نازکی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چونکہ انہوں نے صوفیانہ ماحول میں پرورش پائی تھی ،اِس وجہ سے ان کی شعر و شاعری میںبھی صویانہ افکار کا اثر واضع طور پر نظر آتا ہے ۔اُنہوں نے اپنی کتاب’’ ہجومِ آئینہ‘‘ کے دیباچے میںلکھا ہے: ’’میری تربیت صوفیانہ ماحول میں ہوئی ۔جس شخص نے میرے کان میں اذان دی وہ صوفی تھا۔میرے منھ میں پہلا چمچہ ڈالنے والا بھی صوفی تھا۔میرے والد صوفیت کے ذبردست دلدادہ تھے مگر میں نے اپنے اوپر صوفیت کو حاوی ہونے نہیں دیا۔تصوف کے سات دروازے ہیں ،میں چھ سے گذر چکا ہوں۔اگر ساتواں عبور کیا ہوتا تو میں اپنے مریدوں کے درمیاں ہوتایا کسی گوشئہ عزلت میں۔‘‘
موضوعات کے اعتبار سے اُن کی رباعیوں میں تصوف کا اچھا خاصہ رنگ ملتا ہے اوراس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ وہ تصوف کے رموز و نکات سے آشنا ہی نہیں بلکہ اس کے متعلق مخصوص و منفر انداز میں غور و فکر بھی کیا کرتے تھے۔لکھتے ہیں ؎
عاشق ہوں مہ محبوب ہوں آخر یہ کیا
راغب ہوں نہ مرغوب ہوں آخر یہ کیا
طاری ہے عجب طرح کا ایک مجھ پہ جمود
طالب ہوں نہ مطلوب ہوں آخر یہ کیا
مختصر یہ کہ فرید پربتی اُردو زبان و ادب کا ایک تابندہ ستارہ ہے جو روزِ آخر تک اپنے لازوال ادبی کارناموں کی بدولت زندہ و جاوید رہے گا۔اُن کی شعر و شاعری کا بغور جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ عصری احساس اور فلسفیانہ بصیرت کے شاعر تھے۔وہ اُردو ادب کے ایسے تخلیقی شہسوار ہیں جنہوں نے میدانِ ادب میںاپنا سکا جماکر تخلیق کاری کا وقار ومعیار بڑھا دیا ۔کشمیر کی ادبی تاریخ کے صفوں میں اُن کا نام اوران کے احسانات کو سنہرے الفاظ میں لکھا جائے گا۔