امریکی وزیرخاجہ کے دورہ ٔجنوبی ایشیاکے عین موقع پر وزیراعظم مودی نے ایک چال چلائی ، اوراعلان کردیاکہ انہوں نے کشمیریوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے لئے ایک مذاکرات کار نامزدکردیاتاکہ امریکی وزیرخارجہ کوبتایاجاسکے کہ’’ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں‘‘۔چونکہ امریکی وزیرخاجہ کاپہلاپڑائو پاکستان تھااوراس نے پاکستانی حکام سے علاقے کی صورت حال بہتر بنانے کے حوالے ترغیب وتحریص سے کام لیناتھالیکن اسے یہ جواب ضرورملناتھاکہ کشمیرمیں نئی دلی انسانی حقوق کی کھلم کھلاخلاف ورزی کی مرتکب ہورہی ہے ، کشمیریوں پرمظالم رکنے کانام نہیں لے رہے ،اس پس منظرمیں علاقے کی صورتحال کیسے بہترہوسکتی ہے اورپاکستان ایسی صورتحال میںکیسے بھارت کی جانب دوستی کاہاتھ بڑھاسکتاہے ؟ یقیناایساہی ہوا،پاکستان کی اعلیٰ سول اورملٹری قیادت نے امریکی وزیرخارجہ سے دوٹوک لفظوں میں کہہ دیاکہ جب تک کشمیری عوام بدترین صورتحال سے دوچارہیں ۔پوراخطہ نامساعد حالات کے گرداب میں پیچ وتاب کھاتارہے گا۔بہرصورت بھارت کی سخت گیر بی جے پی سرکار نے ساڑھے تین سال کے بعد بھارتی انٹیلی جنس بیورو ’’آئی بی‘‘کے سابق سربراہ دنیشور شرما کو باضابطہ طور مذاکرات کار مقرر کیا ہے۔ 2002کے بعد دینیشور شرما دہلی کی جانب سے اب تک کے چوتھے مذاکرات کار ہیں جنہیں کشمیر حل کے لئے نہیں بلکہ کشمیر کو ’’نارمل‘‘ بنانے کے لئے نامزد کیا گیا ہے۔سب سے پہلے کے سی پنتھ کو نامزد کیا گیا تھا،اس کے بعد ریاست جموںوکشمیرکے موجودہ گورنر این این ووہرا بھارت کی طرف سے مذاکرات کارنامزدہوئے تھے،جب کہ ان کے بعدسرکردہ اسکالر ایم ایم انصاری، رادھاکمار اور دلیپ پڈگائونکر پر مشتمل سہ رکنی رابطہ کار کمیٹی کو معرض وجود میں لایا گیا تھا۔
23اکتوبر2017سوموار کوبھارت کے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے نئی دلی میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ دہلی نے کشمیر پر جامع مذاکرات شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر دنیشور شرما کو مرکزی سرکار کا نمائندہ مقرر کیا گیا ہے اوروہ حکومت ہند کا ایک نمائندہ ہونے کی حیثیت سے سابق ڈائریکٹر آئی بی کا عہدہ کابینہ سیکریٹری درجے کا ہوگا۔بھارتی وزیر داخلہ سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا دنیشور شرما حریت قیادت کے ساتھ بھی مذاکرات کریں گے؟تو انہوں نے کہا کہ انہیں کسی کے ساتھ بھی تبادلہ خیال کرنے کا اختیار حاصل ہوگا جس کا فیصلہ وہ خود کریں گے۔نامزد مذاکرات کار دینشور شرما کاکہناتھا کہ کشمیر جانا ان کے لئے جیسے گھر واپسی ہے۔ان کاکہناتھاکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے، میں کوشش کروں گا کہ اعتماد پر پورا اُتروں، کشمیر میں امن قائم کرنا ہی بہت بڑا کام ہے۔شرما کاکہناتھاکہ آیندہ آٹھ یا دس روز تک وہ سرینگر جائیںگے،جس کے بعدوہ اپنا کام شروع کرے گااور وادی کا دورہ کرنے کے دوران صورت حال کا جائزہ لے کروہ ایک منصوبہ تیارکریں گے جس پر آگے چل کر عمل ہوگا۔ یہ سطور شائع ہونے تک وہ واردِ کشمیر ہوچکے ہوں گے ان کا کہنا تھا کہ توجہ امن کے قیام اور مستقل حل پر مرکوز ہوگی اور رکشہ والے سے بھی ملیں گے۔
مودی سرکار کے نامزدکردہ مذاکرات کاردنیشور شرما1976بیچ کے کیرلا کیڈر سے وابستہ آئی پی ایس آفیسر ہیں جو قریب دو دہائیوں تک دہلی میںبھارتی انٹیلی جنس بیورو ’’آئی بی‘‘کیساتھ وابستہ رہے۔ وہ1991میں آئی بی کے ساتھ منسلک ہوئے اور اس دوران انہوں نے کشمیر کے علاوہ شمال مشرقی ریاستوں اور لکھنو میں بھی ڈیوٹی نجام دی۔بھارتی اینٹلی جنس کے اس آفیسرنے نوے کی دہائی میں رضاکارانہ طور کشمیر میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی اور 1999کی کرگل جنگ کے بعد تشکیل دئے گئے انٹیلی جنس کے مشترکہ ٹاسک فورس کے سربراہ بن گئے۔ دنیشور شرما یکم جنوری2014کو آئی بی چیف بننے سے قبل ادارے میں کئی اہم عہدوں پر رہے اور 31دسمبر 2016کو ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے۔ انہیں بھارت کے اندرونی سلامتی سے جڑے معاملات کا ماہر سمجھا جاتا ہے۔
حفظ ماتقدم کے طورپرمودی کے نامزدکردہ مذاکرات کارکے ساتھ کسی بھی طرح کی کوئی اچھی امید نہیں لگا سکتی کیونکہ ماضی میں کئی مذاکرات کار نامزد کئے گئے، مذاکرات کاروں کے کئی گروپ بھی بنائے گئے، لیکن مسئلہ کشمیرکے حل کے تئیں ان سے کچھ نہیںہوسکا۔انکی تمام سفارشات ردی کی ٹوکری کی نذر کردی گئیں۔ اس لئے بھارت کی طرف سے مذاکرات کاروں کی نامزدگی کشمیریوں کیلئے ایک تلخ تجربہ رہا ہے ، اس لئے ضرورت امر کی تھی کہ ماضی کی سفارشات کو لاگو کیا جاتا پھر نئے مذاکرات کار کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔کشمیر میں صورتحال دن بدن ابترہوتی چلی جارہی ہے ،کشمیری عوام فورسزکے ظلم وبربریت اورریاستی دہشت گردی سے دوچار ہیں اور اب آئین ہند میں ریاست کو حاصل رہی سہی اٹونامی کا ڈھانچہ بھی عدالت عظمیٰ میں چلنج ہورہاہے ۔ اس ساری تیز رفتار ڈیلوپمنٹ کو دیکھ کر اخذ ہوتا ہے کہ شاید پی ڈی پی کی ہیلنگ ٹچ پالیسی کا مطلب یہی ہے کہ کشمیر کی ساری شناختیں اور انفرادتیں تحلیل کر کے کشمیر سے انڈیا کو ہندوراشٹر بنانے کی شروع کیا جائے اور اس کے لئے ایک خفیہ پولیس آفسر کی خدمات اور تجربات سے استفادہ کیا جائے ۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کشمیرمیں 2010کی ایجی ٹیشن کے بعد کانگریس کی سربراہی والی یو پی اے سرکار نے ریاست جموں کشمیر میں زندگی کے مختلف شعبوں سے وابستہ لوگوں کے ساتھ بات چیت کیلئے دلیپ پڈگائونکر کی سربراہی میں تین مذاکرات کاروں کی تقرری عمل میں لائی تھی ۔ انہوں نے ریاست کے درجنوں دورے کئے اور اپنی ایک مفصل رپورٹ بھارتی وزارت داخلہ کو پیش کی لیکن اس رپورٹ کو عملی جامہ پہنانے کے حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا۔ان مذاکرات کاروں کی رپورٹ کا کیا ہوا اس بارے میں سب کو معلوم ہے اور تو اور خود اس وقت کے بھارتی وزیر داخلہ پی چدم بھرم نے کہاتھا کہ تینوں مذاکرات کاروں کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ وزارت داخلہ کی کسی الماری میںدھول چاٹ رہی ہوگی۔ دلیپ پڈگائونکر نے بعد میں کہا کہ انہوں نے جو رپورٹ پیش کی ہے اس کو کانگریس نے قابل مطالعہ تک نہیں سمجھا اور اب بی جے پی سرکار نے بالکل اسی طرز پر مذاکرات کار کی تقرری عمل میں لائی۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت مذاکرات کاربھارت کی انٹیلی جنس کے آدمی نہ تھے اوران کی تعدادایک سے زائدتھی مگراب کی بار مذاکرات کار ایک سابق آئی بی چیف ہیںاوراکیلے اسے ذمہ داری سونپی گئی۔ حفظ ماتقدم کے طورپربات کی جائے تویہ کہنے میں کم ازکم ہمیں کوئی ہچکچاہٹ نہیں کہ یہ کشمیریوں کے ساتھ محض ایک مذاق ہے اور ان کا وقت ضایع کرنے کے مترادف ہے جس کے بطن سے کنفیوژن ہی حاصل ہوگا ۔
تازہ مذاکرات کارکی نامزدگی کا ایک پہلو بین السطورضروریہ ہے کہ مودی سرکار نے کشمیرسے متعلق اپنے جارحانہ اپروچ کی ہارتسلیم کرلی ہے اور بالآخر مودی حکومت نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ جموں و کشمیر میں طاقت کا اپروچ ناکام ہوگیا ہے۔ یہ حقیقت کانگریس کے سابق وزیرخزانہ اور وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی کہہ چکے ہیں جنہوں نے پارلیمنٹ میں ایک موقع پر کہاتھا کہ بقول ان کے کشمیر کا الحاق منفرد ہے جو منفرد حالات میں ہو ا۔ یہ اعتراف خود میں ایک بڑا معاملہ ہے ۔ بہرحال مودی سرکاراب اسی ڈگرپرآگئی کہ کشمیر مسئلے کوپرامن طورہی حل کیاجاسکتاہے نہ کہ فوجی جمائواورمتشددانہ طرعمل سے ۔ قبل ازیں انہوں نے لال قلعے کی فصیل سے اپنی قوم کے نام ۱۵ ِ اگست کی مناسبت سے خطاب میں تسلیم کیا تھا کہ کشمیر کا قضیہ گولی سے نہ گالی سے حل ہوگا نہ گولی سے بلکہ یہ اہل کشمیر کو گلے لگانے سے حتمی طور حل ہوگا ۔ ابھی اس بیان کی دھو م ہی مچ رہی تھی اور لوگ ابھی منتظر ہی تھے کہ دیکھئے ’اس بحر کی موجوںسے اچھلتا ہے کیا ‘کہ کشمیر میں خواتین کی چوٹیاں کاٹنے کا نیا ڈراؤنا اور ہتک آمیز خفیہ آپریشن شروعکیا گیا۔ اس کے فوراًبعد مودی حکومت کی طرف سے کشمیریوں کے ساتھ مذکرات کاسلسلہ شروع کرنے کے لئے مذاکرات کارکی نامزدگی سے ایک چیزواضح ہوچکی ہے کہ مودی سرکارکو آخر کارکشمیر مسئلے کی حساس نوعیت کااعتراف کرناپڑا۔یہ اعتراف مودی اور سنگھ پریوارکی واضح تبدیلیٔ ذہن ہے یا معاملہ یہ ہے کہ دلی صرف اورصرف طاقت کے استعمال کوواحدذریعہ ٔ ریزولیوشن مانتی ہے ، یہ بھی بہت جلد دنیا پر آشکارا ہوگا، البتہ یہ امر بڑی دلچسپی سے دیکھاجائے گا کہ نئے مذاکرات کار کس نوعیت کی بات چیت کا آغاز کریں گے اور کیا بولیں گے،کیا سنیں گے ۔
مودی حکومت کی طرف سے مذاکرات کارکی نامزدگی کوالبتہ تمام کشمیری عوام ایک دھوکہ اورفریب کاایک جال سمجھتے ہیں۔کشمیری عوام کاخیال ہے کہ بھارت عالمی رائے عامہ کو گمراہ کر رہا ہے کہ اسی لئے ایک سابق انٹیلی جنس چیف کوکشمیر بھیج رہاہے۔یہاں آکروہ کشمیر کے اپنے حاشیہ برادروںسے ملاقاتیںکرکے بیرون دنیاکو یہ باور کرانے کی کوشش کر یںگے کہ کشمیرمیں موجودان کے حاشیہ بردار ہی کشمیر کی اصل اور حقیقی لیڈر شپ ہیںجب کہ کشمیر کا بھارت نواز ٹولہ بیرونِ دنیا کو یہ باور کراتا ہے کہ وہ کشمیر میں نام نہاد قیام امن کے لئے تن ، من ، دھن مصروف جدوجہد ہیں۔دلی سے سری نگرتک یہ سب مل کردنیا کویہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کے مشکل حالات کو سنبھالا دینے میں ان بھارت نوازوں کی خدمات اور سرگرمیاں قابل قدر ہیں ۔ یہ ایک بڑی بد قسمتی ہے کہ حالات کے جبر اور مفادات کے دباؤ کے سبب تادیر مغربی دنیا مسئلہ کشمیر کے حل کے بجائے کشمیر میں نام نہاد امن قائم کرنے کی خواہشمند بنے رہی اور دہلی میں بیٹھے دنیا بھر کے سفراء کشمیر کے بھارت نوازوں کو امن کی فاختائیں سمجھتے رہے لیکن اب صورت حال یکسربدل چکی ہے اور کشمیرکی موجودہ غیر یقینی صورت حال نے اس طرح کے راگ الاپنے والوں کی ہوااکھیڑ دی ہے ۔
کشمیرعظمیٰ کے قارئین کویادہوگاچند ماہ قبل بھارتی وزیرداخلہ بھارت راج ناتھ سنگھ کی قیادت میں بھارتی پارلیمانی وفد کوسری نگرسے کیوں بے نیل ومرام واپس لوٹناپڑا؟کیوں اس وفدسے سری نگرمیںکوئی نہیں ملا؟کیوں ان کے لئے کشمیری قیادت کے دروازے مقفل پڑے تھے ؟ ان تمام سوالات کاایک ہی جواب ہے کہ کشمیری بھارتی حکومت کی وقتاً فوقتاًشوشہ آرائی، ،وعدہ خلافی ،مکروفریب اورجھوٹے مواعید سے بخوبی واقف ہیں اور وہ مزید دجل وفریب نہیں چاہتے۔لال چوک سری نگر میں کشمیریوں کے ساتھ کئے گئے نہروکے وعدوں اور معاہدوں کا بے دردی اور نہایت بہیمانہ طریقے سے خون کیا جانا اس کی زندہ و جاوید حقیقت ہے ۔
سوال یہ ہے کہ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے ادارے، ایشیا واچ ،ایمنسٹی انٹرنیشنل اور بھارت کے بعض انسانیت دوست ادارے اور سر کردہ وعادلانہ شخصیات یہ نشاندہی کرتی رہیں کہ کشمیر میں بھارتی فورسز انسانیت سوز مظالم ڈھا رہی ہے لیکن اس کے باوجودیہ ظلم اس قدر بڑھا کہ تھک ہار کرعالمی طاقتوں کو اپنی بے حسی کم کرنا پڑی اور عالمی فورموں پر مسئلہ کشمیر اور کشمیر حل کی باتیں ہونے لگیں ۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاسوں اور او آئی سی کی کانفرنسوں سے کشمیر کی صدائے باز گشت اس کی مثالیں ہیں ۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے اس انداز سے عالمی سطح پر اجاگر ہونے سے پریشان تھا۔ کشمیر میں بھارت کا ہرطاقتی حربہ نا کامی سے دو چار تھا۔ جگ موہن ، گریش چندر سکسینہ، کے وی کرشنا رائو اور ایس کے سہنا نے اپنے تمام دائوآزمائے اورترکش سے تمام تیرپھینکے لیکن کشمیریوں کے قتل عام سمیت کوئی کوشش کشمیری مسلمانوںکو تحریکِ مزاحمت ترک کرنے پر آمادہ نہیں کر سکی ۔ دہلی کے ایوانوں میں بیٹھے دماغ اس صورت حال سے سخت پریشان تھے اور وہ اس صورت حال سے نکلنے کا حل تلاش کر ہی رہے تھے کہ مودی نے اقتدار کی گدی سنبھال لی اور نہ صرف ووٹ بنک سیاست کے پیش نظر کشمیر میں ظلم وتشدد کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت ہی کیا بلکہ پاکستان کے ساتھ روز تعلقات کو بگاڑ کر اپنا مطلب نکالا مگر اب یہ سب کچھ کونٹرپروڈیکٹیو ظاہر ہورہاہے ۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ گزشتہ سال اہل کشمیرکا غیر معمولی ایثار اور استقامت دیکھ کرایک بارپھردلی کے منصوبہ ساز اپنے عزائم کی نوک پلک درست کر کے مذاکراتی جال ساتھ لائے ہیں لیکن آج اہل کشمیر بفضل تعالیٰ پہلے سے زیادہ یک جان،یک آواز،یکسواوریکجاہیں ۔آج اہل کشمیر پر کوئی دجل وفریب اور سنہار سپنا چل سکتاہے اورنہ ہی کوئی مکاری اورعیاری جڑ پکڑ سکتی ہے۔قوموں کی زندگی میں سب سے نازک موقع وہ ہوتا ہے کہ جب مخالف سمت سے دانہ ڈالنے کی کوششیں ہورہی ہوں،چوری کھلانے والے جب ڈھیروں دانہ ڈال دیں ایسے میںاس قوم کے قدم ہرگزنہیں ڈگمگاتے جن کی بستیوں کو مقبروں میں تبدیل کردیاگیاہو،جن کے معصوم بچوں کی بینائی چھینی گئی ہو،جن کے پیروجواں خوردوکلاںکولہولہاں کردیاگیا ہواور سب سے بڑھ کرجن کے سامنے ایک عظیم نصب العین ہو ، وہ شاطروں،لیپاپوتی کرنے والوں،چوماچاٹی کرنے والوں، مکاروں اورعیاروں کی تلبیس کے سامنے کیا جھکیں یا بکیں؟ عام طور پر لوگوں کا اپنے نفس پر قابو رکھنا اور ضبط سے کام لینا اگرچہ بہت مشکل ہوتا ہے لیکن بے پناہ قربانیاں پیش کرنے والی قوموں کاضبط نفس کامل درجے کاہوتاہے ۔ کشمیر کو اس حوالے سے داد ملنی چاہیے ۔یہی وہ موقع ہوتا ہے کہ جب قوموںمیں سنجیدگی متانت ، وقار اور (Character) کی مضبوطی پیدا ہوتی ہے ۔ اس لئے کشمیرکازاور عظیم نصب العین کے ساتھ دل وجان سے جڑے ہوئے کشمیری قوم کی دل سوزی اور بے کلی کا حجم اور گہرائی اور وسعت کے پیش نظرآج خداکے فضل وکرم سے ہماری قوم میں صبر وثبات بدرجہ اتم پایاجاتاہے۔بڑے مقصد اور نصب العین کی تکمیل کیلئے صبر کی اہمیت محتاج بیان نہیں ۔ تاریخ گواہ ہے کہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کیلئے صبر و استقلال لازمی اسباب ہیں ۔سید سلیمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اپنے نفس کو اضطراب اور گھبراہٹ سے روکنا اور دل کی مضبوطی ، یا مردی اور ثابت قدمی ہی در اصل صبر کہلاتا ہے۔ المختصر یہ اب آنے والے دن بتائیں گے کہ انڈیا کے نامی گرامی جاسوس جو اب مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے پر تول رہے ہیں ،ان کے ساتھ کون گفت وشنید کرتا ہے اور کون نہیں کرتاہے ۔ فی ا لحال متحدہ مزاحمتی قیادت نے دلی کی مذاکرات کارکو مسترد کرکے ہو اکے رُخ کا پتہ بتادیا ہے ۔