مکرم قار ئین آپ شاید اس بات سے واقف ہونگے کہ گزشتہ مہینے میں حکومت ہند کی وزارت داخلہ کی طرف سے ایک ایسی رپورٹ جاری کی گئی جس میں مساجد، مدارس اورمیڈیا یعنی فارمولہ 3M کو اپنا کر ان پر کڑی نگاہ رکھنے کی تجویز پیش کی گئی ۔ اب حال ہی میں انیسویں ایشیائی سکورٹی کانفرنس، نئی دہلی میں مدعوع کئے گئے فوجی و نیم فوجی افسران نے کشمیر میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی (Radicalism)پر اپنے تجاویز پیش کر کے مدارسِ اسلامیہ اورمساجد سے مسلمانوں کا توجہ ہٹا کر اس کے برعکس زیارت گاہوں کا وسیع پیمانے پرپھیلائو کے ساتھ ساتھ صوفیت(Sufism) کی طرف توجہ مبذول کرانے کی جیسی تجاویز پیش کی گئیں۔ حد تو یہ ہے کہ اس کانفرنس میں دینی مدرسوں اور مسجدوں کو دہشت گردی کے تربیت گاہیں اور دہشت گردی کے اڈوں سے تعبیر کیا گیا ہے۔ ایسی تجویز برائے تنقیدہندوستان کے مسلمانوں کے لیے عموما ًاور کشمیر کے مسلمانوں کے لئے خصوصاً دشمنانِ اسلام کی سازشوں سے ہوشیار رہنے اور قبل از وقت جگانے کے لئے کافی ہیں اور ایسی سوچ رکھنے والوںکے خلاف تحریری اور عملی طور پر ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے اُبھارتی ہیں۔ اب ہر ذہن میں یہی سوال پیدا ہواہوگا کہ مدارس کا قیام عمل میںکیوں لایا گیا تھااور اس کے کیا مقاصد تھے؟
مدارسِ اسلامیہ عالم اسلام کا مرکز و محور کے مانند ہے جہاں سے نہ صرف اسلامی آبادی بلکہ انسانی آبادی میںعلم تقسیم کیاجاتاہے۔ یہاں ذہن و دماغ ہی نہیں قلب و نگاہ بھی ڈھلتے ہیں۔اِن کا تعلق کسی عہد، تمدن، کلچر، تہذہب، زبان و ادب سے نہیں بلکہ اِن کا تعلق براہِ راست نبوتِ محمدیؐ سے ہے جو عالمگیر(Universal) بھی ہے ،زندہ جاوید اور ہدایت یافتہ بھی ہے۔جس علم سے اﷲ کی معرفت حاصل ہو اور خلقِ خدا کو فائدہ پہنچے وہی علم محمود و مطلوب ہے اور جو علم انسان کو گمراہی اور فسق و فجور میں مبتلا کر دے اور خلق ِ خداکے لئے ضرر رساں ہو وہ مذموم اور غیر مطلوب ہے۔
دینی مدارس کی سرگرمیوں پر قدغن لگانے کا کام دراصل کئی صدیاں پرانی سازش ہے جو موجودہ وقت میں موجودہ اسلام دشمن قوتوں کے زریعے انجام دی جارہی ہیں۔ یہ سلسلہ دراصل عہدِ نبویﷺ کے مبارک زمانے سے شروع ہوا تھا جب اﷲ کے نبی آخر زماںﷺ نے دینی تعلیم کے اہتمام کا باضابطہ منظم طریقہ کار سے شروع کیا۔جس کے واضح ثبوت دارِارقم، درسگاہ ِمسجد قبا، مسجد نبویﷺ اور اصحاب ِصفحہؓ کے چبوترہ میںتعلیم و تربیت کی مصروفیات سے بخوبی ملتی ہیں۔ اس کے بعدحضرت معاز ابن جبلؓ کے زریعے یمن کے لوگوں کے لئے باضابطہ دینی درسگاہ میں تعلیم وتربیت دینا اس کی تواریخ میں اور زیادہ تقویت بخشتا ہیں۔ چوتھی و پانچویں صدی ہجری کی معروف درسگاہوں میں جامعہ الازہر مصر، اصفہان کا مدرسہ ابوبکر الاصفہانی، نیشاپور کا مدرسہ ابو الاسحق الاسفرائینی اور مدرسہ نظامیہ بغداد اسی کڑی میں شامل ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ جب بھی اسلام دشمن قوتوں نے دینی مدارس جو اسلامی قلعے، نورِ نبوت کے چشمے اور چراغ ِحق کو گل کرنے، اس پر رکاوٹ ڈالنے اور قدغن لگانے کی ناپاک کوششیں کرتے ہیں تو اس کو اور زیادہ تقویت ملی، نورِ حق زیادہ سے زیادہ پھیلنے لگا اور اس چراغ ِحق کی ضیاپاشیوں اور ضوفشانیوں میں پہلے سے زیادہ بانکپن پیدا ہوا۔ اس طرح علماء ِحق و مشائخِ دین کی سرگرمیوں اور ان کے جذبے کے عمل میں مزید شوق و جوش ملا۔ برصغیر ہند میں انگریزی حکومت کے عہد میںبے پناہ صعوبتوں اور طرح طرح کی رکاوٹوں کے باوجود علماء ِحق و مشائخِ دینِ اسلام نے دینی مدارس جیسے اسلامی قلعے کے اندر دینِ حق کا چراغ روشن رکھ کر مسلمانوں کے ایمان و عقیدہ کی حفاظت اور دینی ترویج و اشاعت کے لئے جس شانِ جرائت و استقلال کے ساتھ نبرد آزما ہوئے، وہ تاریخ کے اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے جس میں ہم عصر مسلمان آج گزر رہے ہیں۔ آئے روز دشمنانِ دین ،دینی مدارس کو کبھی دہشت گردی کااڑہ، کبھی جہادی فیکٹریاں تو کبھی انتہا پسندی کو فروغ دینے والے اِدارے اور کبھی بنیاد پرستی کے اِداروں کا نام دے کراس کی اصل ساخت،اس کا قیام،اس کے مقاصداور اس کے نصابِ تعلیم کو بدنام کر کے نقصان پہچانے کی منظم کوشش کرتے ہیں ۔ جب کہ ان مدارسِ اسلامیہ کی تاریخ و تاسیس کی کڑی عہدِرسالتِ مآبﷺ سے جاکر ملتی ہیں اور یہاں پڑھائی جانی والی کتبِ حدیث کی سند کا سلسلہ ختم رسل خیر الانامﷺ تک پہنچتا ہے۔ اس طرح سے دشمنان ِاسلام کی ان دست بردار مذموم کاوشیں نہ صرف اسلام کیلئے باعثِ ترویج و اشاعت کا کام کرتی ہے بلکہ غیر مسلم اقوام میں اسلام کی بے داری ہو کراس بے لوث دولت سے سیراب ہو کر اپنا دین ود نیا آباد کرتے ہیں۔ ایسی سازشیں ماضی بعید میں بھی ، حال میں بھی اوروقت کے ہر مخالف ماحول میں اس نورِ حق کے چراغ کوبجھانے کی ناکام کوششیں مستقبل میں بھی انجام دی جاتی رہے گی، مگر پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔
دراصل دشمنانِ اسلام کو ہر سال ہزاروں حفاظ کرام کا فارغ التحصیل ہونا پسند نہیں آرہا ہے، رمضان المبارک کے مہینے میں ہر مساجد سے ختم قرآن انجام دینا انہیں گوار ا نہیں ہوتا، مسلمانوں کا اپنے دین و مذہب پر ایمان و یقین اور اس کے ساتھ مضبوط وابستگی ہو جانا انہیں کہاں پسند ہوگا۔ اسی لئے مدارسِ اسلامیہ، مساجد اور میڈیا پر کڑی نظر رکھنے کے لئے احکامات صادر کئے جارہے ہیں۔ حال ہی میںآر ایس ایس کے کارکن اور ریاست اتر پردیش کے نو منتخب وزیر اعلیٰ نے دارالعلوم دیو بند جیسے اسلامی تواریخی قلعے کا نام تبدیل کرنے کی کارستانی کی جو ِاسی کڑی کا ایک حصہ ہے۔ انگریزوں نے بھی اپنے دورِ اقتدار میں مدارس ِاسلامیہ پر قدغن لگانے کے لئے مختلف تدابیر اورحربے اختیار کیے تھے۔ جنہوں نے عام مسلمانوں کو عموماً اور علمائِ حق کو خصوصاً ظلم و ستم، قتل و غارت گری کا متشد دانہ طریقئہ واردات انجام دینا، سیاسی غلامی کے ساتھ ساتھ ذہنی غلام بنانے کے لئے نصابِ تعلیم مرتب کر کے، اپنی طرح ہم خیالی قوم بنانا جیسے سازشیں رچا ئی جو کبھی بھی کارگر ثابت نہ ہوئی کیونکہ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ کے فضل و کرم سے اکابریںِ دین نے ہر محاز پر ان سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
ایسے دین شکن اور کٹھن حالات میں دینِ اسلام سے وابستگی کو قائم و دائم رکھنے کے لئے، دینی علوم و دینی ذہنیت کی حفاظت کے لئے دارالعلوم دیوبند کا قیام ۱۸۶۶ء میں گھپ اندھرے میں چمکتے ہوئے تارہ کی طرح ثابت ہوا۔جس نے ذہنی غلامی کے شکنجے سے باہر نکالنے کی جدوجہد سب سے پہلے شروع کیں۔اس کے علاوہ ہندوستان اور ہندوستانیوں کو انگریز کے ظالمانہ، جارحانہ بربریت اور ذہنی و علمی غلامی سے آزاد کرانے ، لوگوں کی گردنوں سے غلامی اور محکومی کا طوق اُتارنے کے لئے سب سے پہلی آواز علمائِ دیوبند نے ہی بلند کیں، جس میں مولانا رشید احمد گنگوئیؒ، مولانا قاسم نانا تویؒ اور حاجی امداد اﷲ مہاجر مکیؒ نے نیزوں اور تلواروں سے مسلح ہو کر انگریز کے خلاف میدان ِ جہاد میں نکل کر آمادئہ جنگ و پیکار ہوئے۔ ۱۹۱۳ء میں مولانا قاسم ناناتویؒ کے شاگردِ خاص مولانا محمود الحسن ؒ ہندوستان کی تحریک ِآزادی کے بانی تھے جس نے اپنی قائدانہ صلاحیت کی بنیاد پر ایک انقلاب برپا کیا جس سے بعد میں رولاٹ کمیٹی (Rowlatt Committee)نے سِلکن لیٹرس (Silken Letters)کا نام دے دیا۔
دیوبند کے بعد اِسی نہج پردوسری بڑی درسگاہ مظاہر العلوم سہارنپور یوپی کا قیام بارثِ وجود میں آیا۔اور اب رفتہ رفتہ برصغیر کے طول و عرض میں دینِ اسلامیہ کے درسگاہوں کا ایک بڑا کہکشاں(Galaxy) بنتا گیا۔ اِس اخلاص و ایثار، جوش و جذبے سے بھرے مبارک اقدام کو مسلمان معاشرے نے والہانہ اسقبال کیا۔ اس طرح قرآن و حدیث کی حفاظت کا ایسا مضبوط و مستحکم نظامِ تعلیم قائم ہوگیا کہ مسلسل سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے باوجود دشمنانِ دین اس نظامِ تعلیم کے خد وخال کو اپنی منشا کے مطابق تبدیل نہیں کرسکے۔ دینِ اسلام کو نقصان پہنچانے اور مسلمانوں کو عقیدہ اور نظریہ کے لحاظ سے کمزور اور گمراہ کرنے کے لئے انفرادی یا اجتماعی سطح پر جس قدر بھی فتنے اُٹھے، اُ ن کی سرکوبی کے لئے دینی مدارس ہی سب سے پہلے میدان میں اُترے اور ہر زمانہ میں پیدا شدہ فتنہ کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اس فتنہ کو نیست و نابود کر دیا۔
ہندوستان کی جنگ ِآزادی میں علمائِ دین نے بے شمار قربانیاں دی، کئیں شہید کردئے گئے، کیئں پابندِ سلاسل کئے گئے، شیخ الہند مولانا محمود الحسینؒ، شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنیؒ اور مولانا عزیز گلؒ کو طویل عرصہ تک اُس وقت کے گوانتا موابو ’مالٹا‘ کی جیل میں قید و بند کی اذیت ناک تکلیفوں میں مبتلا کیا گیا۔ الغرض ہندوستان کی آزادی کے حوالے سے دینی مدارس کا ایک اہم کردار سامنے آتا ہے۔ ا نگریزوں سے آزادی حاصل کرنے میں جن مسلمانوں نے نمایاں کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک بڑی تعدادمدارس کے فضلاء کی تھی۔ اسی طرح اِن کے جانشین اور حقیقی الانبیاء الوارثین آج بھی ایسے حالات سے نبرد آزما ہونے کیلئے اپنی ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ مدارس اسلامیہ سے نفرت برتنے والے فتنہ پرور یہ پروپگنڈہ کرتے ہوئے بھی شرم محسوس نہیں کرتے کہ دینی مدارس کی طرف زیادہ رجحان افلاس اور غربت میں رہنے والے لوگوں ہی کا ہے جو غربت کے سبب تعلیم کے اخراجات کا تحمل نہ کر سکنے کی وجہ سے اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں اپنی تعلیم حاصل نہیں کرپاتے۔ درحقیقت یہ اِن مدارس پر ایک من گھڑت، سراسر جھوٹ، الزام تراشی اور بہتان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہاں بھی دونوں طرح کے طلبا امیر اور غریب ، دینی شوق و جذبہ محض اخلاص و ایثار کی بنیاد پر اپنا رُخ ان مدارس کی طرف کرتے ہیں۔
مدارس کے معلمیں قلیل تنخواہ پر اکتفا کرکے اپنی خدمات بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ یہاں کے معلمیں اور شاگرد ایک دوسرے کے لئے عظمت، محبت، احترام و یگانیت کے جذبات سے سرشار ہوتے ہیں اور وہ دن رات شاگردوں کی تعلیم و تربیت پر اپنی توجہات مرکوز رکھے ہوئے ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میںایسی بے لوث جھلکیاں دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ یہاں کے طلبا دورانِ تعلیم اور تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد اپنا معاش حاصل کرنے کیلئے دردر کی ٹھوکریں کھا کر جلسے جلوس اور احتجاجی ریلیاں کرتے رہتے ہیں۔جب کہ دینی مدارس کے فارغ التحصیل طلبا اپنا معاش حلال طریقہ سے بہ آسانی حاصل کر کے معاشرے کو اپنی حاصل شدہ تعلیم سے معاونت بھی کرتے ہیں۔دینی مدارس نے نہ صرف مسلمانوں کو پورے عالم میں اسلامی تہذیب و تمدن کی شناخت عطا کیں بلکہ عملاً اس کو محفوظ رکھنے اور قائم رہنے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج عالمی سطح پر دشمنانِ اسلام ایسی سازشوں میں لگے ہوئے ہیں کہ اسلامی تہذیب کو ختم کر کے مسلمانوں پر اپنی تہذیب کیسے تھوپی جائیں۔ اسی لئے مدارس اسلامیہ کو آئے روز بدنام کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔
مدارس کے چلانے والے مخلصین امتِ مسلمہ سے تنکے تنکے جمع کرکے اس ماحول میں جہاں تعلیم مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہے، طلبا کے لئے نہ صرف مفت تعلیم کا انتظام کرتے ہیں بلکہ کھانے کا بھی انتظام تمام طلبا کیلئے کرتے ہیں۔یہاں طلبا کو اعلیٰ اقدار، انسانیت، سچائی، اخوت، انصاف، حق پرستی، توحید و سنت، ایثار و ہمدردی، سخاوت و بندگی اور رحم و کرم جیسے اوصاف سے بھرا سبق پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے۔یہی طلبا فارغ التحصیل ہو کر اپنے علاقہ کی بنجر زمین میں عقیدئہ توحید اور دین و ایمان کا بیچ بو کر قرآن کے سر چشمے سے محلہ محلہ، گلی گلی، کوچہ کوچہ مکاتیب کی شکل میں شوق و ذوق رکھنے والوں کی پیاس بجھا دیتے ہیں۔ ایسے ہی نصابِ تعلیم سے بھرے مدارس کے بارے میں آئے روز پروپگنڈہ کر کے سماج میں غلط فہمیاں پیدا کرکے انہیں بدنام کرنے کی ایک منظم کوشش کی جاتی ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ اخلاقی انارکی اور دہشت و بربریت کرنے والے اِنہی مدارس کو دہشت گردی کی تربیت گاہ اور جہادی فیکٹریاں قرار دیتے ہیں۔ انہی حقائق کے پیش نظر شاعر مشرق علامہ اقبالؒ (۹۳۸ا-۱۸۷۷) نے اپنے اشعار میں اہلِ مدارس و موجودہ دانشوروں کی طرح مشورہ دینے اور ان میں مزید زندگی پیدا کرنے اور زور دینے کے باوجود ایک مرحلہ پر یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ ـ’’ان مدارس کو کچھ نہ کہو، اگر یہ مدارس نہ ہوتے تو ہندوستان اندلس بن چکا ہوتا۔‘‘ آج دنیا کے دیگر خطوں میں بھی لاکھوں مدارس اسلامیہ پر مشتمل ایک وسیع جال علمی، فکری اور تہذیبی دائروں میں پورے عزم و استقلال کے ساتھ مصروف کار ہے۔اور تاریخ ان مدارس کے اس عظیم کردار کا اعتراف کرنے کیلئے مجبور ہے کہ ان دینی درسگاہوں نے ہندوستان کو اسپین (اندلس) بننے سے بچالیا جس کا ذکر مفکراسلام شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے اسپین کے اپنے دورے سے واپسی پر ان الفاظ میں کیا’’ اِن مدارس کو اسی حالت میں رہنے دو اور انہیں اسی طرح اپنا کام کرنے دو۔ یہ مدارس اگر خدانخواستہ باقی نہ رہے تو اس کا نتیجہ کیا ہوگا؟ وہ میں اپنی آنکھوں سے اسپین میں دیکھ آیا ہوں۔‘‘ جہاں آپؒ بے ساختہ درد بھری آواز میں یہی کچھ کہہ گئے ع
آہ! کہ صدیوں سے ہے تیری زمیں بے اذاںــ
مدارس ِ دینیہ پر ایک سر سری نظر ڈالی جائے تو دینی مدارس کا اصل میدان، مسلمانوں کی علمی و فکری قیادت ضرور نظر آتی ہے۔ انہی مدارس سے مولانا شبلی نعمانیؒ، سید سلیمان ندوی ؒ جیسے مورخ و عالم پیدا ہوئے۔ شاہ عبدالحق محدث ؒ، مولانا ثنااﷲ امرتسریؒ جیسے متکلم ،شاہ ولی اﷲؒ محدث دہلوی جیسے فقیہ عالم، مولانا الیاس زکریاؒ جیسے داعیانِ دین پیدا ہوئے۔
اگراصل مقصد دہشت گردی ((Terrorism کا خاتمہ ہے تو وہ مدارس ِاسلامیہ یا مساجد کے نظام کو درہم برہم کر کے، ان پر قدغن لگا کے، ان پر کڑی نظر رکھ کے یا ان پر دیگر قسم کی سازشیں رچاکے حل نہیں ہوگا۔ کیوں کہ یہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ مدارس میں دہشت گردی، ظلم ، جبر بربریت، فتنہ و فساد، بغض و حسد، نفرت و عداوت، قتل و غارت، بغاوت، فسق و فجور، عیاشی و فضول خرچی، فحاشی و بدکاری، انتہا پسندی اور شدت پسندی جیسے برے اوصاف کے بجائے امن و آشتی، اخوت و محبت، اخلاص و ایثار، انصاف، حق پرستی، توحید و سنت،ایمان و عقیدئہ کا درس دیا جارہا ہے۔ ہندوستان میں جس نوعیت سے اسلام کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں، موقع بے موقع پروپگنڈے کئے جارہے ہیں،بے موقعہ و بے مناسبت اسلام اور شرعی احکام پر یلغار کیا جارہاہے، عدم رواداری، مذہبی منافرت و جنون کو فروغ دیاجارہا ہے۔ ایسے ماحول میں مدارس اسلامیہ ہی کا رول زیادہ اہم بنتاہے۔آج بھی امت مسلمہ کے ساتھ ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کا تعلق قرآن سے جتنا قریب تر ہوگا اس میں اخوت، محبت،ایثار، ہمددردی، امن اور صلح کی صفات اسی قدر زیادہ پیداہوں گی۔لہٰذا قرآن کی تمام تعلیمات بشمول اعلائے کلمتہ الحق اوردعوت و نصیحت ہی تمام مسائل کا حل کر سکتی ہے۔
کالم نویس کو اس پر رابطہ کیا جاسکتاہے [email protected]
(9858109109)