دنیا کی تاریخ میں بالعموم اورتحاریک آزادی کی تواریخ میں بالخصوص کچھ ایسے رجل عظیم پیداہوئے جن کی نسبت یہ کہنا چنداں مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ وہ اپنی سوچ، فکر اور عمل کے اعتبار سے وقت کے حصار سے صدیاں آگے ہوتے ہیں۔ اُن کے یہاں بے مقصد زندگی موت کے مترادف ہوتی ہے اور مقاصدجلیلہ کا ایک ٹھوس خواب اُن کی زندگی کا ماحصل ہوتا ہے ۔ یہ لوگ نتائج سے بے پرواہ ہوکر مقصد کے حصول کیلئے جان کی بازی بھی لگاتے ہیں۔ وہ اِس حقیقت سے ناواقف بھی نہیں ہوتے ہیں کہ جس راستے کا اُنہوں نے انتخاب کیا ہوتا ہے اُس راہ میں غیروں کے تیر دیکھنے ہیں اور اپنوں کے خنجرو نشتر کے سامنے اپنا جگر پیش کرنا ہوتاہے ،لیکن حیف صد حیف! بعض قومیں ایسے صاحب عزیمت رجال کو بمشکل دیر سے سمجھ پاتی ہیں۔ ایسی ہی عظیم شخصیات کے زمرے میں حیاتِ جاوداں پانے والے محمد مقبول بٹ کا نام بھی آتا ہے۔ اُنہوں نے کشمیر حل پر ایک موقف اختیار کیا۔۔۔ایک ایسا موقف جسے اُس وقت رائج بیانئے کے مقابلے میں بس اجنبی اور نامانوس موقف ہی تصور کیا جاسکتا ۔ اس موقف کو برحق جانتے ہوئے، انہوں نے اس کا پرچار تقریری ، تحریری اور انفرادی ملاقاتوں کے ذریعے سے لوگوں میں ضرور کیا لیکن افسوس کہ لوگوں کو اسے سمجھنے بوجھنے میں کئی دہائیاں لگیں۔
محمد مقبول بٹ کشمیر کے دور دراز علاقے ترہگام کپواڑہ میں 18 فروری 1938 ء کو ایک کسان گھرانے میں پیداہوئے۔ اتنے دور دراز علاقے میں پیدا ہونے کے باوجوداور کوئی Exposure نہ ہونے کے باوجود ان کے افکار اور کارناموں کو دیکھ کرمحسوس ہوتا ہے کہ ربِ کریم نے انہیں خاص طور اپنے کام کیلئے منتخب کیا تھا۔محمد مقبول بٹ کی ابتدائی تعلیم کپواڑہ میں ہوئی۔ گریجویشن کیلئے انہوں نے بارہمولہ کے سینٹ جوزف اسکول کا رُخ کیا۔ بارہمولہ میں ان کا قیام ایک رشتہ دار کے ہاں تھا جو کہ محلہ توحید گنج میں رہتے تھے۔ محلہ توحید گنج صلاحیتوں سے مالا مال محلہ ہے۔ لہٰذا ان کی تربیت میں اس محلہ کا بھی کماحقہ حصہ رہاہے۔محمد مقبول بٹ بچپن سے ہی ظلم وجبرسے نفرت کرتے تھے اور مظلوم کی حمایت میں کھڑا ہوتے تھے۔ تقریری صلاحیتں بھی اللہ نے بھر پور عطا کی تھی ۔ یوٹیوب (YouTube) پر ان کی تقاریر موجود ہیں۔ ان کی شخصیت سمجھنے کی غرض سے ہفت روز ہـ’ ’زندگی‘ ‘میں دئے گئے ایک انٹرویومیں وہ کیا کہتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے:
’’میں ایک اچھا مقرر تھا۔ ہڑتالیں بہت کراتا تھا۔ بہت سے دوسرے کشمیری شہریوں کی طرح ہمیں بھی محاذرائے شماری میں خاصی دلچسپی تھی ۔‘‘سینٹ جوزف کے اس وقت کے پرنسپل جارج تقسی مقبول بٹ کے بارے میں کہتے ہیں: ’’یہ نوجوان اگر راستے کی سختیوں کوسہہ گیا تو ایک بڑا آدمی بنے گا مگر اس کے جیسے لوگ عام طور پر شدید مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں، کیونکہ جس طرح کی آزادی کا خواب وہ دیکھتے ہیں اس کو حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے ،اس لئے وہ اکثر آزادی کی راہ پر قربان ہوجاتے ہیں‘‘۔
محاذ رائے شماری کی طلبہ ونگ میں محمد مقبول بٹ بہت زیادہ فعال تھے۔ جب شیخ محمد عبداللہ 27 اپریل 1958 ء کو گرفتار کئے گئے، اس موقع پر بہت سے اور لوگوں کو بھی گرفتار کیا گیا۔ مقبول بٹ چونکہ بہت زیادہ فعال تھے، لہٰذا ان کا گرفتار ہونا یقینی تھا۔ گرفتاری سے بچنے کیلئے وہ زیر زمین چلے گئے اور کچھ ماہ بعد جب ان کے B.Aکا Result آیا تو وہ خونی لکیر پار کر تے ہیں۔ وہاں بھی وہ تعلیم جاری رکھتے ہیں اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرتے ہیں، ساتھ ہی روزگار کیلئے ہفت روزہ انجام میں سب ایڈیٹر ہوجاتے ہیں،کیونکہ رب نے تحریری صلاحیتوں سے بھی نوازا تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ کشمیر کی آزادی کیلئے پھر سے سرگرم ہوجاتے ہیں۔ یہ وہ دور تھا جب دنیا میں قومی آزادی کی تحریکیں بہت جگہ برپا تھیں اور قومی آزادی کیلئے مسلح جدوجہد کرنا غلام و محکوم قوموں کا حق سمجھا جاتا تھا۔ محمد مقبول بٹ بھی اپنے مقصد کی آبیاری کیلئے مسلح جدوجہد شروع کرتے ہیںاور اسی مقصد سے اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ کشمیر کا رُخ کرتے ہیں لیکن جلد ان کا مقابلہ پولیس سے ہوجاتا ہے اور ایک جھڑپ میں CID کا ایک اہلکارمارا جاتا ہے جس کے بعد محمد مقبول بٹ گرفتار ہوجاتے ہیں۔ گرفتار ی سے پہلے کشمیریوں کو آزادی کی طرف مائل کرنے کیلئے وہ بہت سارے افراد سے ملاقاتیں کرتے ہیں۔ محمد مقبول بٹ گرفتار ہونے کے بعد سرینگر جیل میں قیدکئے جاتے ہیں لیکن آزادی کا یہ دیوانہ کہاں رُکتا؟؟؟ انہوں نے جیل سے فرار کی کوششیںکی اور بالآخر جیل میں ایک سرنگ بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ دوبارہ خونی لکیر قدموں تلے روند کر پار آجاتے ہیں ۔ وہاں کے حکمرانوں نے بھی انہیں بوجوہ مختلف انٹراگیشن سنٹرس میں رکھابلکہ دشمن کا آلۂ کار سمجھ کر ان پر تشدد کیا گیا۔ آزادی کے اس متوالے کیلئے کسی کی محبت یا نفرت اہم نہ تھی، ہمیشہ ایک ہی دُھن ذہن پرسوار تھی کہ کس طرح اپنی قوم کو آزادی دلائی جائے۔ جیل سے رہا ہوجانے کے بعد ان کی سیاسی سرگرمیاں جاری رہیں ۔ اس دوران وہ پاکستان میں بااثر لوگوں سے ملاقی ہوجاتے ہیںاور اپنے مشن کے ساتھ انہیں وابستہ کرنے کی سیرحاصل کوشش کرتے ہیں۔ 1976ء میں وہ دوبارہ سرحدپار کرکے کشمیر وارد ہوجاتے ہیں تاکہ کشمیر کے لوگوں کو اپنا ہم نوا بناسکیں۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے تنظیم سے جوڑنے کی کوشش میں وہ دوبارہ قید ہوجاتے ہیں۔ اس بارا نہیں دہلی کے مشہور زمانہ تہاڑجیل میں رکھا جاتا ہے اور 11 فروری 1984 کو تہاڑ جیل میں ہی انہیں پھانسی دی جاتی ہے۔ وہیں پر آپ سپرد خاک بھی کئے جاتے ہیں ۔ ہندوستان کی جمہوریت پر ایک بدنما داغ یہ بھی ہے کہ مقبول بٹ کا جسد خاکی ان کے لواحقین کو نہیں سونپا گیا، نہ صلیب سے قبل انہیں اپنے عزیز سے ملاقات کا موقع دیا گیا ۔ ان کی ہمشیرہ کہتی ہیں: ’’ہم دہلی جانے کیلئے سرینگر ائیرپورٹ گئے مگر پولیس نے ہمیں جانے نہ دیا‘‘۔ان کی بھتیجی کہتی ہیں :’’انہوں نے تہاڑ جیل سے ان کی کوئی چیز ہمیں نہ دی ،میری خواہش ہے کہ جیل میں ان کی قبر کی تھوڑی سی خاک ہی ہمیں دے دیتے‘‘۔
مقبول بٹ کی صلیب پر کشمیر میں کوئی خاص ہنگامہ نہیں ہوا۔ اس وقت مقبولؔ ،اپنی جان دینے کے باوجود ’’مقبول‘ ‘نہ ہوئے ۔ کشمیری پاکستان کے سحرا ور ہندوستان کی نفرت میں اپنی شناخت کہیں گم کرچکے تھے۔ عام لوگ تو دور خواص کی بھی یہی حالت تھی بہت کم جگہوں پر احتجاج ہوا۔ بارہمولہ میں تو اس واقعہ پر احتجاج کرنے کی پاداش میں اُس وقت کی سرکردہ مزاحمتی شخصیت اور معروف وکیل کو تنظیمی تادیبی کارروائی کا شکار ہونا پڑا۔ اسے عصبیت کہیں ، مغائرت سمجھیں یا ناعاقبت اندیشی مانیںکہ اپنے ہی ایک عظیم سپوت کی عظمت کا اعتراف ایک وقت تک قوم کی غالب اکثریت سے نہ ہوسکا۔ تاریخ کا الٹ پھیر اور گردش زمانہ دیکھئے کہ وطن کے اسی سپوت کے ساتھ نسبت جوڑنے میں آج ہر شخص فخر محسوس کرتا ہے۔
مقبول بٹ خود مختار کشمیر کا نظریاتی ہم نوا تھا،ان کا ماننا تھا کہ الحاق کا زمانہ اب نہ رہا، اب کیوں کوئی کسی اور ملک کیلئے لڑائی لڑے۔ اس کے برعکس قومی تحریکیں بہت جگہوں پر چل رہی تھیںاور یہی قومی تحریک کشمیر میں بھی چلانے کی ضرورت تھی ۔مقبول کو یقین تھا کہ دنیا ہماری قومی تحریک کی حمایت کرے گی۔ ان کے ساتھی اور معروف قلم کار خالق پرویز ؔ(بارہمولہ)جو کہ خود بھی کشمیر سے جلاوطن کئے گئے تھے اور آج کل صاحبِ فراش ہیں، کو جب مقبول بٹ اپنے سیاسی نظریات سے واقف کررہا تھا تو خالق پرویزؔ ان سے بر محل پوچھتے ہیں کہ پاکستا ن کی حمایت کے بغیر ہماری لڑائی کیسے آگے بڑھ سکتی ہے؟ اس کے جواب میں مقبول بٹ کہتے ہیں: ’’میرے بھائی! جب تک کشمیر ی عوام ایک قوم کی حیثیت سے اپنی آزادی کا حق نہیں مانگیں گے دنیاکی بڑی طاقتیں ان کی مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گی۔ یہ طاقتور ملک الحاق یا مذہب کے نام پر ہماری مدد کرنے پر آمادہ نہیں ہوں گی۔ امریکہ ، برطانیہ ، روس ،چین کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ ہمیں پاکستان سے اس لئے الحاق کرائیں کہ ہم مسلمان ہیں۔‘‘ (جلاوطن حصہ دوم صفہ61)
مرحوم مقبول صاحب نماز روزہ کے سخت پابند تھے۔ دین ان کی رَگ رَگ میں بسا تھا۔ بقول خالق پرویز کے مقبول مومنانہ طبیعت کے مالک تھے۔ مقبول بٹ کے خطوط سے بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ بار بار قرآن کی آیات کا حوالہ دیتے اوراپنے ساتھیوں کو ’’وتواصو بالحق وتواصو بالصبر‘‘ کی تلقین کرتے ۔اس کے باوجود ان کا ماننا تھا کہ آزادی کی تحریک کو سیاسی ہونا چاہئے۔ اس طرح انسانی بنیاد پر ہمیں دنیا کا سپورٹ مل سکتا ہے۔ ان کی اس فکر پر ان پر طرح طرح کے الزامات لگائے گئے لیکن وہ تو اس خمیر کے بنے ہوئے تھے جنہیں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔بقول خالق پرویز اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کے مقابلہ میں کشمیر میں اسلام کیلئے فضا ہموار اور سازگارہے۔ لہٰذا آزادی کے بعد کشمیر کو اسلام کے رنگ میں ڈالنا مشکل نہیں۔
کشمیریوں کے جداگانہ تشخص کیلئے وہ ہر لمحہ فکر مند رہتے تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اگر کشمیر کی قیادت کسی ملک کی آلۂ کار بن جائے تو یہ مسلٔہ کشمیر کیلئے سم قاتل ثابت ہوگا ۔ ایک کورٹ کیس میں جب انہیں دشمن کا ایجنٹ کہا گیا تو ان کا جواب تھا ’’مجھے خود پر لگایا گیا الزام تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں ،ہاں مگر ایک ترمیم کے ساتھ کہ میں دشمن کا ایجنٹ نہیں ہوں بلکہ میں ہی دشمن ہوں۔مجھے اچھی طرح پہچان لیا جائے میں ہی کشمیر میں آپ کے غیر قانونی قبضے کا دشمن ہوں۔‘‘پاکستان نے ان کاساتھ نہ دیا ،اس کے باوجود وہ پاکستان کے خیر خواہ تھے ایک انٹرویو میں کہتے ہیں:’’ایوب خان کو نہ پاکستان کے لوگوں کی فلاح سے کوئی دلچسپی ہے نہ کشمیریوں سے، اس کی حکومت نے ہمارے ساتھ ظالمانہ رویہ اپنایا۔ مجھ پر انتہائی تشدد کیا گیا۔ تشدد کا درد یہ سوچ کر مزید بڑھ جاتا تھا کہ یہ ہمارے اپنے کررہے تھے ۔‘‘ خالق پرویز سے مزید کہا۔ ’’پاکستان کی حکومت ہمیں بار بار گرفتار کرتی رہی لیکن اس کے باوجود ہم پاکستان کے خیر خواہ ہیں اور اس کی سلامتی ہمیں دل و جان سے عزیز ہے۔‘‘بلند وغیر متزلزل عزائم کے حامل اس شخص کو جب پاکستانی انٹیلی جنس آفسر کے سامنے بلایا گیا اور اس موقع پر ان کو لالچ اور خوش آمد کی گئی۔ اس وقت مرحوم کے ساتھ خالق پرویز بھی تھے۔ وہ لکھتے ہیں کہ مقبول بٹ نے میجر یوسف کو یہ جواب دیا: ’’ہمیں اپنی آزادی کی جنگ خود لڑنا ہوگی۔یہی ایک صورت ہے جس کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جائے گا۔ آپ اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ ہندوستان آپ کو ’’وہ ‘‘ کشمیر سونے کی طشتری میں پیش نہیں کرے گا۔ اور آپ یہ کشمیر ہندوستان کو تحفے میں نہیں دے سکتے۔ الحاق کی اصطلاح نے کشمیر کے مسئلے کو دونوں ملکوں کی زندگی اور موت کا مسئلہ بنا دیا ہے۔ ایک اسے اپنے ملک کا تاج کہتا ہے، دوسرا اسے اپنی شہ رنگ قرار دیتا ہے۔ ‘‘ پھر آپ بتا دیجئے کہ مسلٔہ کشمیر کیسے حل ہوگا۔ ۔۔۔؟’’میرا موقف یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان آپس میں دو ہمسایوں کی طرح رہیں۔ ایک دوسرے پر بھروسہ کریں۔ دونوں ملک مسئلہ کشمیر کو اپنی انا اور غیرت کا مسئلہ نہ بنائیں۔ دونوں ریاست جموں و کشمیر سے دست بردار ہوجائیں۔ ۔۔۔۔۔دونوں ملک ریاست کی سا لمیت اور خودمختارحیثیت کو تسلیم کریں۔ ۔۔۔دونوں ملک اس ریاست کو تحفظ دیں۔ ۔۔۔دونوں ملک کشمیر کو مغرب کا سویزرلینڈسمجھ کر اسے امن کا گہوارہ بنا دیں۔ دونوں ملک ریاست جموں وکشمیر کے ساتھ برادرانہ تعلقات قائم رکھیں اور دونوں ملک یہ باور کرنے میں مدد دیں کہ ہندوستان اسے مسلمانوں کا ملک نہ جان لیں اور مسلمان اسے ہندوئوں کا ملک نہ سمجھ سکیں۔ یہیں وہ معروضی حل ہے جو برصغیر میں امن و امان قائم کرسکتا ہے اور جس سے نفرتوں کی خلیج بھی پاٹی جاسکتی ہے۔ ۔۔میجر صاحب! میرا نظریہ کسی ایک ملک کے خلاف ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی میں یہ نظریہ اپنے کسی ضرورت کے پیش نظر اختیار کرچکا ہوں۔ روزی اور روزگار تو صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے وہی ملے گا جو اس نے میرے مقدر میں لکھا ہوگا۔‘‘(جلاوطن حصہ اول ص 306)
اس طویل اقتباس سے جو کہ مقبول بٹ کے پاکستان کی خفیہ پولیس آفسر کے ساتھ گفتگو پر مشتمل ہے، سے بین السطور مقبول بٹ کی بالغ نظری، سیاسی تدبر ، عالی حوصلگی،، بلند نگاہی ، دور اندیشی اور ذہانت وفطانت کا پتہ چلتا ہے ۔ مقبول بٹ کی زندگی کا جب ہم خالی ا لذہن ہوکر مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ کس طرح مردان ِکار وقت کے غالب بیانئے کے برعکس دوسرے بیانئے کا راستہ اختیار کر تے ہیں اور اس کا اپنے دم خم پرپرچار بھی کر گزرتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ زمانے کا اَن تھک سفر ، حالات کی عدم موافقت اور مخالفتوں کا طوفان ایسے جیالوں کے بیانئے کو گردآلودہ کر تاہے نہ ان کی شہادت یا طبعی موت کی قبا انہیں نگاہ ِ دہر سے اوجھل ہونے دیتی ہے ۔ ایسے شخص میں اللہ پر کامل بھروسہ ہو ، موقف کی صداقت پر شرح صدر ہو ، نیت میں اخلاص ہو، قوم کے ساتھ غیر مشروط محبت ہو، وفا کا جذبہ رگ وپے میں موجزن ہو تو ا یسا فردواحد تنہا قرنوں پر بھاری پڑسکتا ہے بلکہ تاریخ ایک نہ ایک دن طوعاًوکرہاً اس کے نظریاتی موقف کی پذیرائی کر کے ہی رہتی ہے۔ لہٰذاکسی معتبر سیاسی اور اصلاحی کاز کے حوالے سے اس کی قیادت کا ظرف اتنا وسیع وعریض ہو نا چاہیے کہ اس حوالے سے کسی دوسرے کے موقف اور رائے کو معروضی انداز سے جانچنے پرکھنے کی اہلیت وصلاحیت ہو۔ اور اگر اپنے موقف میں جہاں کہیں واقعتاًکسی ترمیم وتنسیخ کی حاجت محسوس ہو توبلا جھجک کرے، شک وشبہ میں پناہ نہ لے بلکہ چھتری بن کر ہر کس وناکس کو مشترکہ کاز کے تعلق سے اپنے ساتھ اکوموڈیٹ کرے۔ بہر حال حالات کی یہ کروٹیں قابل دید ہیں کہ محمد مقبول بٹ کو جنہیں اُس وقت کی قیادت نے جس کا اثر غالب اکثریت پر تھا ،نے رد کیا مگر آج ہر سال 11؍ فروری کو اس عظیم شخصیت کو یاد کرکے اس کی شان میں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔میں اس مضمون کو اُس خراج عقیدت پر سمیٹتا ہوں جو وقت کے شاعر احمد فراز نے محمد مقبول بٹ کے حضور میں شعر کے قالب میں یوںڈھالا تھا ؎
گو آنکھ سے دور جاچکا تُو
روشن مگر چراغ ساتُو
محروم لبوں کا حرف زندہ
مظلوم دلوں کا ہم نوا تُو
میں بھی ترا ہم سفر تھا لیکن
میں آبلہ پاتھا برق پاتُو
زنداں کے عذاب تک رہا میں
اور منزل ِدارتک گیا تُو
دشمن کے حصار میں اکیلا
لشکر کے مقابلے پہ تھا تُو
کب قتل ہوئی ہے سچ کی آواز
خوشبو کی طرح جابجا تُو
اے جانِ جہانِ سرفروشاں
لیلائے وطن کا دلربا تُو
تھا تذکرہ مسیح و منصور
بے ساختہ یاد آگیا تُو
اے کشتہ شب فرازؔ کو بھی
مرنے کا ہنر سکھا گیا تُو