سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد اپنے سابقہ سیاسی حلیف بی جے پی کی حمایت واپس لینے پر فوری طور کوئی شدید ردعمل نہ دکھایا بلکہ کافی ضبط و احتیاط سے کام لیا مگر جوں جوں پی ڈی پی کے بعض ممبران ا سمبلی اور ایک ایم ایل سی نے محبوبہ مفتی پر تنقیدوں کی نشتر زنیاں شروع کیں اور اس بارے میں یہ ہوائیاں اُڑانے لگیں کہ پی ڈی پی کا ناراض گروپ دلی بدلی کر نے کے لئے پرتول رہاہے، یہ ٹولہ درپردہ بھاجپا کے ساتھ حکومت سازی میں ساز باز کررہاہے تو محبوبہ مفتی کا لب ولہجہ یکایک بدل گیا۔ انہوں نے مرکزپر الزام دھرا کہ اُن کی پارٹی کوتوڑا جارہا ہے اور اگر ایسا کیا گیا تو کشمیر میں مزید سید صلاح الدین اور یاسین ملک پیدا ہوں گے۔
موصوفہ نے نئی دہلی کو دھمکی آمیز لہجے میں جوپیغام دینا چاہا ، آیا دلی اسے سمجھ گئی کہ نہیں ، اس نکتے پر بحث ٹالتے ہوئے یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ ’’میری بلی مجھ ہی سے میاؤں‘‘ کے مصداق مرکز نے محبوبہ مفتی کی لن ترانیاں نظرانداز کیں ۔ البتہ اس موضوع پر یہ سوالات سوچنے والے ذہنوں میں ضرورکلبلاتے ہیں کہ آیا دلی کے ہاتھوں پی ڈی پی کی مبینہ ’’توڑ پھوڑ‘‘ نئے جنگجوؤں کو جنم دے گی ؟ کیا پی ڈی پی کو اقتدار سے برطرفی سے جوشیلے نو جوان جنگجوؤں کی صف میں شامل ہوں گے ؟ کیا اقتداری پارٹیوں کو کرسی سے بے دخل کر نے سے ہی یہاں جنگجوئیت پیدا ہوتی ہے؟ ان سوالات کے جوابات ہمیں تاریخ کی ورق گردانی کی طرف لے جاتی ہیں ۔ تاریخ ِکشمیر کے پنوں کو جھانک کر دیکھئے تو پتہ چلے گا کہ اقتداری پارٹیاں جب تک مرکز کی مہربانی اور کرم فرمائی سے سنگھاسن پر بیٹھتی ہیں ، اُنہیں کشمیر کی ہر چیز سہانی لگتی ہے ،انہیں یہاں نارملسی دکھائی پڑتی ہے ، انہیں انسانی حقوق کی صورت حال پر بھی کسی قسم کا بھی ذہنی تحفظ نہیں ہوتا ، انہیں عوام کی ناراضی یا احساسِ بیگانگی کے پیچھے کوئی سیاسی مسئلہ کارفرما نظر نہیں آتا بلکہ عوامی بے چینی کے ہر مظاہرے کے وہ لاء اینڈ آرڈر سچویشن سے جوڑ کر اپنی پنڈچھڑاتے ہیں ، انہیں عوام کے غم وغصہ میںبے کاری وبے روزگاری کا نوشتہ ٔ دیوار دکھائی پڑتا ہے ، انہیں بجلی سڑک پانی نوکری ہی سارے دردکا درماںسوجھتی ہے ۔یوں اقتدار کے مزے لوٹنے کے لئے وہ زمینی حقائق سے منہ ہی نہیں موڑتے بلکہ یہ لوگ مرکزی حکومت کو کشمیر کے حقائق سے نابلد رکھنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتے ہیں ۔ سابق وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی بھی ا گر دورانِ حکومت یہی کچھ کر تی رہیں تو اس پر اچنبھا ہونے کی ضرورت نہیں اور اگر آج حکومت جانے کے بعد وہ پی ڈی پی توڑ ے جانے کی مذعومہ سازشوں میں جنگجوئیت میں اُبھار کی پیش بینی کر تی ہیں ، تو اس پر نرم سے نرم الفاظ میںکھسیانی بلی کھمبا نوچے کی مثل ہی صادق آتی ہے ۔ لہٰذا محولہ بالا تینوں سوالات کی معنویت ا گرچہ ختم ہوتی ہے، البتہ دو تاریخی حقیقتوں سے مفر نہیں کہ۹؍اگست ۵۳ ء کوشیخ عبداللہ کو وزاراتِ عظمیٰ سے ڈسمس کر نے کی پاداش میں تحریک ِرائے شماری کی شروعات ہی نہ ہوئی بلکہ آگے الفتح جیسی زیر زمین مسلح تنظیم بھی معر ض وجود میں آئی ۔اسی طرح مسلم متحدہ محاذ کو بے انتہا انتخابی دھاندلیوں سے ’’شکست‘‘ دینے کی کانگریسی پالیسی نے کشمیر کو عسکریت کے منہ میں دھکیل دیا، لیکن آج کی تاریخ میں محبوبہ مفتی کی پارٹی کی ممکنہ ٹوٹ پھوٹ کے نتیجے میں صلاح الدین اور یاسین ملک پیدا ہوں، یہ خیال و محال وجنوں ہے کیونکہ مفتی خانوادے میں وہ دم خم نہیں جو کبھی شیخ عبداللہ کی کرشماتی لیڈر شپ کا خاصہ تھا۔
ماضی میں ڈاکٹر فاروق عبداللہ کی حکومت بھی اسی طرح اچانک اندراگاندھی کے ہاتھوں پلٹ دی گئی جس طرح گزشتہ ماہ محبوبہ مفتی کے سر سے حکومتی تاج ناگاہ اُتارا گیا ۔ بی جے پی نے ازخودپی ڈی پی کی حمایت واپس لی ، بالکل اسی طرح سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی حمایت سے مفتی سعید دست کش ہونے کی دیر تھی کہ آزاد حکومت آناًفاناًگر گئی ۔ در اصل مین اسٹریم کہلانے والے لیڈر جان کر بھی انجان بنتے ہیں کہ انہیں شطرنج کے مہروں کی مانند آگے پیچھے کرنے کا کھیل یہاں ہمیشہ کھیلا جاتارہاہے اور یہ آئندہ بھی جاری رہے گا ۔سیاسی شطرنج کی اس بساط پر کبھی شیخ عبداللہ سیاسی منظر نامے سے ہٹتے ہیں ، کبھی فاروق اچانک پٹتے ہیں اورکبھی محبوبہ مفتی یکایک قصہ ٔ پارینہ بنتی ہیں ۔ا س نوع کے سیاسی اُتار چڑھاؤ میں یا حکومتوں کے آنے جانے سے ملی ٹینسی پیدا ہوتی ہے نہ ملی ٹینسی ختم ہوتی ہے ۔ عسکریت کے اپنے الگ رنگ روپ ہیں جن پر سیاسی گھٹن اثر انداز ہوتو ہو مگر اس کی لگام کسی شخص واحد کے ہاتھ میں نہیں ۔ کشمیر میں جنگجوئیت صرف اُن اندوہناک واقعات اور جذباتی دھچکوں کے عمومی ماحول میںپروان چڑھتی رہی ہے جن سے کشمیر کو مسلسل پالا پڑا۔ یہ سلسلہ یک قلم رُک سکتا ہے اگر آپ ایک افسپا کالعدم کریں،زخموں پر مخلصانہ مرہم کاری کریں ، کشمیری نوجوانوں کی سیاسی اُمنگوں پر کان دھریں ، سیاسی قیدیوں کو رہا کریں ، سنگ بازوں پرقائم مقدمات واپس لیں،کشمیری قیادت سے سابق وزیراعظم ہند اٹل بہاری واجپائی کے طرز پر مذاکراتی میز سجائیں،اسلام آباد سے مکالماتی راہ ورسم بڑھائیں اور سب سے بڑھ کر انسانی حقوق کا ریکارڈ دُرست کریں۔ یہ سب ہوا تو آپ دیکھیں گے کہ کشمیر میں زمینی سطح پر بہت ہی مثبت تبدیلی آئے گی اور بالفرض عسکریت کا گراف اگر نہ بھی گرے مگر ان اقدامات سے اس کے بڑھنے کے مواقع مسدود ہوں گے ۔
کلیدی اہمیت کے ان حقائق کو کرسی کے خمار میں نظر انداز کرتے ہوئے چاہے سرکار فاروق عبداللہ کی تھی ، عمر عبداللہ کی تھی یا مفتی خانوادے کی، انہوں نے عوامی کے جذبات کو کچلنے کے عوض ہی کرسیاں پائیں ۔ افسوس کہ ان میں سے کسی نے مرکزی حکومت کے سامنے کشمیر میں بحالی ٔ امن کا کوئی سیاسی نقش راہ نہ رکھا، بس صرف بیان بازیاں کیں اور جاگتے کے سپنے دکھائے۔بہر حال پی ڈی پی ابھی اقتدار سے محروم ہونے کے صدمے سے باہر نہیں آرہی ہے کہ اس کے اندر سے بغاوت اور خلفشار کے آثار پھوٹنے لگے ہیں ۔اس پر قابو پانے کے لئے اب مظفر حسین بیگ میدان میں آچکے ہیں جو اپنے ریوڑ کو یہ یقین دہانی کر ارہے ہیں کہ گھبرایئے نہیں ہماری پارٹی کی حکومت پھر آنے والی ہے۔ اس پیش گوئی کی کوئی مضبوط بنیاد ہے یا یہ’’ دل کو بہلانے کے غالبؔ اچھا ہے ‘‘ کے مصداق اپنے آمادہ ٔ بغاوت ممبران کو اچھے موڈ میں رکھنے کا رقص نیم بسمل ہے ؟یہ تو مستقبل ہی بتائے گا ۔ تاہم محبوبہ جی کا ’’آپ کی عدالت میں‘‘ ٹی وی پروگرام کے دوران رجت شرما سے یہ کہنا بھی خاصا دلچسپ ہے کہ مر کز انہیں کشمیر کی ایک منظم دینی پارٹی جماعت اسلامی کو کریش کر نے کو کہہ رہاتھا جسے انہوں نے نہ مانا اور ان کی یہ دُرگت ہوئی۔ یہ تازہ انکشاف اپنے اندر کیا کیاسیاسی مفہوم رکھتا ہے، اس پر مبصرین مختلف خیال آرائیاں کر رہے ہیں ۔ بعض کہتے ہیںکہ یہ ڈوبتے کو تنکے کا سہارا والی بات ہے ۔ محبوبہ مفتی اپنا سیاسی سہارا خاص کر ہنگامہ خیز جنوبی کشمیر میں تلاش رہی ہیں ، چونکہ اس کا ایک دروازہ جماعت اسلامی سے گرز کر جاتا ہے، اس لئے موصوفہ جماعت میں اپنے لئے نرم گوشہ بنانے کے امکانات کھوج رہی ہے ۔ ان کا یہ کہنا کہ مجھے صرف اس لئے سزا دی گئی ہے کہ میری سرکار نے جماعت اسلامی کا ہول سیل میں کریک ڈاون نہیں کیا جیسا کہ بقول ان کے مرکزی سرکار کی منشاء تھی ، یہ جماعت کے تئیں ’’ہمدردی‘‘ جتانے کے برابر ہے مگر جماعت میں شاید ہی اس گفتنی کا کوئی خریدار ہوگا، کیونکہ اپنے اقتدار کے ساڑھے تین برس میں وادی کے طول و عرض میں جتنالہو بہا یا گیا ، اُس میں کوئی تفریق نہیں کی جاسکتی کہ کس کا لہو ہے اور کون مرا ؟ مرنے والانیشنلی تھا؟کانگریسی تھا،؟جماعتی تھا ؟ یا عام سوئیلن تھا؟غور طلب ہے کہ سابقہ چیف منسٹر نے اس موقع پر جان بوجھ کر صرف جماعت اسلامی کا ہی نام لیا۔تجزیہ نگار اس کی یہ توجیہہ کرتے ہیں کہ پارٹی کے ناقدین اور مخالفین روزاول سے پی ڈی پی کا وجود مرکزی ایجنسیوں کارہین ِمنت سمجھتے رہے ہیں ۔بقول ان کے پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو اس لئے معرض ِوجود میں لایا گیا تاکہ این سی کا بحالی ٔ اٹونومی کا نعرہ زائل ہو۔اٹونومی کی بحالی کے لئے این سی نے اسمبلی میں اکثریت رائے سے اٹونومی قرارداد منظور کر کے کشمیر میں status-quo کو بدلنے کا جو سیا سی کارڈ کھیلا،اس کا توڑ کر نے کے لئے ایجنسیوں کو کشمیر میں ایک دوسری علاقائی پارٹی کووجود میں لانا پڑا تاکہ کشمیر یوں کوسیاسی خطوط میں مزید منقسم کیا جائے ، اُن کی کوئی مرکزی آواز رہے اور نہ ’’آزادی ‘‘ کے متبادل کے طور اٹونومی کا سیاسی نظریہ (جس کی آئین ِہند میں دفعہ ۳۷۰کی شکل میںگنجائش ہی نہیں بلکہ ضمانت بھی موجود ہے)یہاں نہ پنپ جائے۔ ناقدین کے نقطہ ٔ نظر سے پی ڈی پی کو اسی غرض سے سابق کانگریسیوں کی کوکھ سے جنم دلایا گیااور اسے نیشنل کانفرنس کی تنگ طلبیوںسے بیزار لوگوں نے پالا پوسا ۔ ہنگامہ خیزجنوبی کشمیر میں اس پارٹی نے بوجوہ اپنے قدم زیادہ جمائے ۔ چونکہ اس خطے میں جماعت اسلامی کا روایتاً خاصا اثرونفوذرہاہے، ماضی میںیہیں سے جماعت کے دوتین ممبر ان اسمبلی منتخب ہوکر بھی آئے ، لہٰذا پی ڈی پی جماعت اسلامی کو نظرا نداز کر کے یہاں اپنی سیاسی ساکھ تعمیر کر نے سے قاصر ہے اوراغلب یہی ہے کہ اس نے جماعت کو رجھانے کے لئے مف والا انتخابی نشان قلم دوات اور سبز پر چم اپنایا لیکن جنوبی کشمیر میں مخلوط حکومت آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد حالات نامساعدت کا رُخ اختیار کر گئے ،خصوصاً جون ۲۰۱۶ء میں مخلوط حکومت کے زیر سایہ جماعت متاثرہ علاقوں میں پے در پے خون آشام جھڑپیں ہوئیں، مظاہرے ہوئے اور بشری حقوق کی دھجیاں اُڑ گئیں ۔ اس جنگ جیسی صورت حال سے پی ڈی پی کے خلاف رائے عامہ اس قدر بر گشتہ ہوگئی کہ تصدق مفتی آگے پارلیمانی نشست پر بطور پارٹی امیدوار انتخابی معرکہ لڑنے کی جرأت ہی نہ کرسکے بلکہ محبوبہ مفتی کو وسطی کشمیر میں بھی دھچکا لگا جب اُن کا پارلیمانی اُمیداوار این سی کے ڈاکٹر فاروق سے ہار گیا ۔ گردش زمانہ دیکھئے فاروق عبداللہ قبل ازیں پی ڈی پی کے اُمیدوار سے پہلی بار سری نگر بڈگام سے پارلیمانی نشست پر شکست کھا گئے تھے مگر ۲۰۱۶ء کے لہولہاں حالات کے سبب مفتی حکومت عوامی سطح پر عدم مقبولیت کی اتنی مار کھاگئی کہ این سی صدر سے بھی پٹ گئی۔
عمر عبداللہ کو پی ڈی پی کی موجودہ پتلی صورت حال میں این سی کی حیاتِ نو کا گماں ہوتا ہے ۔اُن کے اس تاثر میںتھوڑی بہت سچائی بھی ہے مثلاًاین سی کا ووٹ بنک پھر سے منظم ہورہاہے کیونکہ پی ڈی پی ہر سطح پر اور ہر محاذ پر عوام کی توقعات اور اُمیدوں کے بالکل اُلٹ جاکر اپنی سیاسی ساکھ بہت حدتک کھوچکی ہے۔ عوام کو پی ڈی پی سے شکایت بھی ہے کہ اسے بھاجپا سے ہاتھ ملانے کا کبھی منڈیڈیٹ نہیں ملاتھا ،اس پارٹی نے اٹھائیس سیٹیں بی جے پی سے دوری بنائے رکھنے کے نام پر جیت لی تھیں لیکن پھر کرسی کے لئے دوسری پارٹیوں کی حمایت کو ٹھکراکر اور عوامی اعتماد کا پاس ولحاظ نہ کرتے ہوئے بی جے پی سے ہاتھ ملایا ۔ا تنا ہی نہیں بلکہ محبوبہ جی نے ۲۰۱۶ ء کے لرزہ خیز ہنگاموں کے دوران کام آنے والے بچوں پر پتھر کا جواب اینٹ سے دئے جانے کے دفاع میں یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ’’یہ بچے گھر سے دودھ مٹھائی خریدنے نہیں گئے تھے ‘‘۔
امرواقع یہ بھی ہے کہ مرکز کا محبوبہ مفتی سرکار کو بیک جنبش قلم گرانا بی جے پی کے لئے بھی کڑوی گولی تھی جسے اس نے اپنے بر تر اہداف کے حصول کے لئے حلق سے نیچے اُتاراہی اُتارا ۔ ا س اقدام سے بھاجپا کے وزراء اور دیگر مشیر ومنصب دار اسی طرح حکومتی کروفر اور مراعات سے محروم ہوئے جیسے پی ڈی سرکار کے وزراء اور مشیراں اپنی کرسیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ،لیکن اس بیچ قابل توجہ بات یہ ہے کہ حکومت گر نے کے چند ہی دن میں پی ڈی پی اندرونی بحران سے ودچار ہوئی، ایک سابقہ منسٹر سمیت پارٹی سے دو ایم ایل اے اور ایک ایم ایل سی محبوبہ مفتی سے فرنٹ ہوگئے اور ان سے اعلانیہ شکوے شکایات کرنے لگے ۔ پارٹی کے درونِ خانہ باغیوں کو اپنے پارٹی صدر سے اختلافات اور الزمات ساڑھے تین برس بعد اُس وقت کیوں یکایک یادآگئے جب یہ اپنا تخت و تاج کھونے کے صدمے میں تھیں ، اس پر مبصرین کہتے ہیں کہ سیاسی لوگ ہمیشہ چڑھتے سورج کے پجاری ہوتے ہیں ،انہیں اس جہاز کے کپتان سے کوئی ہمدردی نہیں ہوتی جو ڈوب رہا ہو۔ اس دوران یہاں پر دے کے پیچھے نئی حکومت سازی کے لئے ’’ہارس ٹریڈنگ ‘‘ کی باتیں بھی گشت کر رہی ہیں اور کہا یہ جارہاہے کہ امر ناتھ یاترا کے اختتام کے ساتھ ہی ادھر کا روڑا اُدھر کا روڑا جمع کر کے بی جے پی ممکنہ طور اپنا حکومتی کنبہ جوڑے گی۔ یہ کوئی ناممکن بات نہیں۔موجودہ دور میں سیاست صرف مفادات کی پوجا کانام ہے ۔ اس کے باوصف بی جے پی کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس کا ریوڑمتحد ہے اور ایک ہی منزل کا راہ رو ہے ۔ حکومت جانے کے بعد ابھی تک جموں کے کسی ایک بھی بھاجپا ایم ایل اے ، ایم ایل سی ، منسٹر ، ایڈوائزاراور لیڈرنے اپنی پارٹی کے خلاف کوئی لب کشائی نہ کی، حالانکہ منسٹروں کی منسٹری گئی لیکن وہ پارٹی کے نظریے ، ڈسپلن اور مفادات کو اپنی ذات سے بلند تر مقام اور اولین ترجیح دیتے ہیں ،اس لئے نہ کہیں سے بھاجپا میں بغاوت کی بُو آتی ہے ، نہ الزام تراشیاں ہیں ، نہ گھٹن کی باتیں ہیں ، نہ ایک دوسرے پر کرپشن اور اقربا ء پرور ی کی تیر آزمائیاں ہیں۔ایسے میں جموں کا اتحاد اور وادی کا انتشار ایک ایسی دلدوزکہانی ہے جس پر تاریخ کی آنکھ ہمیشہ خون کے آنسوروتی رہے گی۔ کڑواسچ یہ ہے کہ صرف اہل کشمیر بکھرے ہوئے ہیں ، غیر متحد وغیر منظم ہیں ، بھانت بھانت کی بولیاں بولتے ہیں، سیاست کو ذاتی مفادات اور دنیا سازی کا گو رکھ دھندا سمجھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ کے ہر موڑ پر دنیاکشمیر ی سیاست کاروں کو ایک دوسرے کی دستار اُتارنے ، اپنی پارٹی کے ساتھ دغا بازی کر نے اور عوامی منڈیٹ سے کھلواڑ کرنے میں آگے آگے پاتی ہے ۔ آج پی ڈی پی اسی کہانی کامرکزی موضوع ہے۔
9419514537