30اپریل کو محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت کی وزارتی کونسل میں توسیع کی گئی تو کئی گُتھیاں گویا خود بخود سلجھ گئیں۔نرمل سنگھ کی جگہ نئے نائب وزیراعلیٰ بننے والے کوندر گپتا اکثرکہتے تھے کہ ’’مجھے آر ایس ایس کا رکن ہونے پر فخر ہے۔‘‘ یہ بات انہوں نے قانون سازیہ کے ایوان میں بھی دوہرائی ہے۔ حلف برداری کے بعد انہوں نے’’فخریہ‘‘ ہی کہہ دیا کہ ’’کٹھوعہ ایک چھوٹا مسئلہ ہے جسے خوامخواہ اُچھالا جارہا ہے‘‘۔ حالانکہ کوندر گپتا کے نام کا قرعہ نئی دلی میں امیت شاہ اور رام مادھو کی قیادت میں ہوئی اہم میٹنگ کے دوران نکلا۔آر ایس ایس قیادت کو معلوم ہے کہ جموں کشمیر میں کیا کرنا ہے، لیکن وزیراعلیٰ محبوبہ مفتی یہ تاثر دینے کی کوشش کرتی رہیں کہ کٹھوعہ کیس میں انہوں نے دلی والوں کو آنکھیں دکھائیں۔کوندر گپتا کے بیان سے بھی زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ کٹھوعہ کے رکن اسمبلی راجیو جسروتیا کو جنگلات و ماحولیات کا وزیر بنایا گیا۔ یہ وہی جسروتیا ہیں جنہوں نے لال سنگھ اور چندر پرکاش کے ہمراہ مارچ میں ہوئی اُس ریلی میں شرکت کی تھی جو رسانہ کی بچی کے ریپ و قتل میں ملوث ملزمان کے حق میں منعقد ہوئی تھی۔اس پر عمرعبداللہ بھی چیخ اُٹھے کہ ایک طرف دو وزراء کی چھٹی کی جاتی ہے اور دوسری جانب اُسی ریلی میں حصہ لینے والے ایم ایل اے کو ترقی دے کر وزیربنایا جاتا ہے۔ابھی تک محبوبہ جی کچھ نہیں بولی ہیں۔ لیکن عمرعبداللہ کے بیان پر رام مادھو نے تازہ بیان میں کہا کہ جسروتیا ریلی میں ضرورتھے تاہم انہوں نے کوئی بات نہیں کی ۔ مادھو جی یہاں تک کہتے ہیں کہ اس ریلی سے متعلق حقائق کو غلط تناظر میں پیش کیا گیا۔
اب مسئلہ محبوبہ مفتی اور ان کے برادر اصغر تصدق مفتی کا ہے ۔دونوں کے لئے اب آئندہ ایام مشکلات سے بھر پور ہونگے۔ تصدق نے کٹھوعہ کیس کے تناظر میں یہ مشہور فقرہ کہہ دیا ہے کہ ’’ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور پی ڈی پی حکومت میں نہیں بلکہ جرم میں شریک ہیں اور اس الائنس کی قیمت کشمیریوں کو خون دے کر چکانا ہوگی۔ـ ‘‘
بی جے پی نے نہایت چالاکی سے پہلے آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے دو وزراء کو چلتا کردیا، لیکن بعد میں جو کچھ ہوا ایسا لگتا ہے کہ ایک طے شدہ سکرپٹ کے تحت ہوا۔ظاہر ہے رسانہ میں مسلم بکروال کنبوں کو فی الوقت جنگلی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔ ان کی زمینوں کو ہڑپنے اور انہیں وہاں سے کھدیڑنے کے لئے جموں میں آر ایس ایس لابی فاریسٹ ایکٹ کے اطلاق میں روڑے اٹکا رہی ہے۔ اور اب ایسے شخص کو وزیرجنگلات بنا دیا گیا ، جو علی الاعلان کٹھوعہ واردات کے ملزمان کے حق میں لنگر لنگوٹا کس کے ہندوایکتامنچ کا پرچم لئے دندنا رہا تھا۔ ایسا بھی نہیں کہ وزیراعلی کو یہ سب پہلے سے معلوم نہیں تھا، لیکن بی جے پی نے انہیں ناپ تول کر ڈھیل دی۔ ان کے ہلکے پھلکے پی آر کے لئے وزراء کو چلتا کردیا گیا اور دوسری طرف بار کونسل آف انڈیا کو موبلائز کیا گیا۔ اور اسی بیچ نرمل سنگھ جیسے نرم گو لیڈر کی جگہ ہارڈ لائنر کوندر گپتا کو محبوبہ کا نائب بنا دیا گیا۔ اگر واقعی یہ ایک گیم تھا اور محبوبہ کو لگتاتھا کہ بچی کھچی ساکھ بچانے کے لئے وہ کٹھوعہ کا راؤنڈ جیت جائیں گی، تو یہ ان کی ایک اور بھول تھی۔
محبوبہ اور تصدق فی الوقت ایک طرح کی سیاسی الجھن میں پھنس گئے ہیں۔ ان کے لئے نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن والی صورتحال ہے۔وہ جانتے ہیں کہ کشمیر کا سیاسی ڈائنماک متعدد وجوہات کی بنا پر تبدیل ہوگیا ہے۔ مفتی سید کے دور کی طرح اب ووٹ ڈالنا کوئی معمول کی سرگرمی نہیں رہی، اب تو ووٹ ڈالنے والے کو بھی جیپ کے ساتھ باندھ کر نشانۂ عبرت بنایا جاتا ہے۔ اننت ناگ کی لوک سبھا سیٹ پر انتخابات نہیں ہوپارہے ہیں، حالانکہ یہ سیٹ تین سال قبل محبوبہ کے وزیراعلیٰ بنتے ہی خالی ہوگئی تھی۔ پنچایتی انتخابات کا بگل تو بجایا گیا لیکن زمینی صورتحال اس کے برعکس تھی، نہیں ہوپایا۔اگلے سال پارلیمانی انتخابات ہونے ہیں اور اس کے اگلے سال اسمبلی انتخابات۔معلوم حقیقت ہے کہ 200سے زیادہ عسکریت پسند سرگرم ہیں اور مسلح مزاحمت کا دائرہ اب جنوب کے علاوہ وسط اور شمال کی طرف پھیل رہا ہے۔آپریشن آل آوٹ جاری ہے ، جسکا مطلب یہ ہے کہ جب تک محبوبہ کی مدت اقتدار ختم ہوجائے گی کم از کم 150تصادم آرائیاں ہونگی، عسکرت پسند مارے جائینگے اور ظاہر ہے اب تصادموں کے دوران شہریوں کو بھی نہیں بخشا جارہا ہے۔
کل ملاکر اگلے انتخابات تک صورتحال جوں کی توں رہے گی، اور حکومت کے خلاف عوامی غیض و غضب میں بھی اضافہ ہوگا۔ایسے میں محبوبہ کسی ایڈونچر کی تو سوچ رہی ہیں، لیکن ان کی پارٹی ان کا ساتھ نہیں دے گی۔لے دے کے کٹھوعہ ہی ایسا کارڈ تھا جس سے محبوبہ ڈوبتے کا تنکا سمجھ رہی تھیں، لیکن کٹھوعہ کی بازی وہ جیت کر بھی ہار چکی ہیں۔انہیں اپنے والد کے بارے میں بتایا جارہا ہوگا، ’’وہ جو بیچتے تھے دوائے دل،وہ دُکان اپنی بڑھا گئے‘‘۔ اب ان کے پاس بیچنے کے لئے کچھ نہیں ہے اور مین سٹریم سیاست کو آکسیجن دینے والا نیا خام مال فی الحال ناپید ہے۔
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)