اسد مرزا
افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی، جو جمعہ (10 اکتوبر) کو نئی دہلی پہنچے، نے قومی دارالحکومت میں وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات کی۔ X پر ایک پوسٹ میں جے شنکر نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ کا دورہ ’’ہمارے تعلقات کو آگے بڑھانے اور ہندوستان۔افغانستان کی پائیدار دوستی کی توثیق کرنے میں ایک اہم قدم‘‘ ہے۔طالبان کی دوسری حکومت کے دور میں ہندوستان کے تعلقات اب دوبارہ طالبان2کے ساتھ وابستہ ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ہندوستان نے ابھی تک طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے، لیکن افغانستان کے وزیر خارجہ کا دورہ دونوں ممالک کے لیے اسٹریٹجک اہمیت کا اشارہ دیتا ہے۔متقی کا ہندوستان کا پہلا دورہ ہندوستان کے افغانستان کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنے کے بعد ہوا تھا۔ نئی دہلی کابل میں اپنے تکنیکی مشن کو بھی سفارت خانے میں اَپ گریڈ کرے گا، جے شنکر نے متقی کے ساتھ اپنی ملاقات کے دوران پڑوسی ملک کی ترقی میں گہری دلچسپی پر زور دیتے ہوئے کہا۔لشکر طیبہ اور جیش محمد جیسے دہشت گرد گروپ طویل عرصے سے افغان سرزمین سے کام کر رہے ہیں۔ لیکن طالبان نے گزشتہ چار سالوں میں تمام دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے، وزیر خارجہ امیر خان متقی نے اپنے دورہ بھارت کے دوران پاکستان کو امن کے اسی راستے پر چلنے کا مشورہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا۔ان کے پاس سرحد پار دہشت گردی کا شکار ہندوستانی سرزمین سے پاکستان کے لیے ایک پیغام بھی تھا: ’’دوسرے ممالک کو بھی ایسے دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے دیں، جیسا کہ افغانستان نے امن کے لیے کیا۔‘‘
اپنی پریس کانفرنس میں، متقی نے کابل میں ہونے والے حالیہ دھماکے کی رپورٹس کو بھی مخاطب کیا اور پاکستان پر الزام لگایا کہ وہ اس کارروائی کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔انہوں نے خبردار کیا کہ افغانوں کی ہمت کا امتحان نہ لیا جائے۔ وزیر موصوف نے کہا،’’اگر کوئی ایسا کرنا چاہتا ہے (افغانوں کو پریشانی کا سبب) تو اسے سوویت یونین، امریکہ اور نیٹو سے پوچھنا چاہیے۔ وہ سمجھائیں گے کہ افغانستان کے ساتھ کھیل کھیلنا اچھا نہیں ہے۔‘‘انہوں نے زور دے کر کہا کہ کابل بھی اسلام آباد کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے لیکن یہ یک طرفہ نہیں ہو سکتے۔ہندوستان کے ساتھ تعلقات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے افغانستان میں حالیہ زلزلے
کے بعد پہلی مرتبہ جواب دہندہ ہونے پر نئی دہلی کی تعریف کی۔ ’’افغانستان ہندوستان کو ایک قریبی دوست کے طور پر دیکھتا ہے۔ افغانستان باہمی احترام، تجارت اور عوام کے درمیان تعلقات کی بنیاد پر تعلقات چاہتا ہے۔ ہم افہام و تفہیم کا ایک مشاورتی طریقہ کار بنانے کے لیے تیار ہیں، جو ہمارے تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔‘‘
نئی دہلی کی جانب سے پاکستان کو سخت پیغام بھیجتے ہوئے متقی نے کہا:’’امارت اسلامیہ افغانستان کی پالیسی تمام مسائل کو بات چیت اور افہام و تفہیم کے ذریعے حل کرنا ہے، ہم صفر تناؤ چاہتے ہیں اور اگر وہ یہ نہیں چاہتے تو افغانستان کے پاس اور بھی راستے ہیں۔‘‘ان کا یہ تبصرہ ایک دن بعد آیا جب پاکستان نے طالبان کے سفیر کو طلب کرکے نئی دہلی میں جاری ہونے والے ہندوستان۔افغانستان کے مشترکہ بیان پر اپنی ’’سخت تشویش‘‘ سے آگاہ کیا جس میں کابل نے اس سال اپریل میں پہلگام میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کی شدید مذمت کی تھی۔متقی نے کہا کہ ہمارے پاکستان کے عوام اور حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں لیکن اس ملک میں کچھ عناصر مسائل پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔دریں اثنا، متقی کا دورہ ہندوستان دو غیر مربوط اور ناگوار واقعات سے متاثر ہوا۔ سب سے پہلے نئی دہلی میں اپنی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو مدعو نہ کرنا شامل تھا۔ صحافی برادری کے ہنگامے کے بعد افغان حکام نے نقصان کو دور کرنے کے لیے ایک اور پریس کانفرنس بلائی جس میں خواتین صحافیوں کو بھی مدعو کیا گیا۔ یہ عجیب فیصلہ ہوسکتا ہے کہ خواتین کو عوامی حلقوں میں شامل کرنے کے خلاف طالبان کی سخت پالیسی کی وجہ سے ہوا ہو، لیکن اس معاملے میں انہیں اس ملک کے اصولوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ عملی رویہ اختیار کرنا چاہیے تھا جس میں وہ موجود تھیں۔
دوسرا مسئلہ جس نے کافی توجہ حاصل کی، متقی کا دارالعلوم دیوبند کا دورہ تھا، جو اسلامی تعلیم کی سب سے اعلیٰ درسگاہ اور ایک ادارہ ہے جسے مشرق کا الازہر (دنیا کا سب سے قدیم اور سب سے زیادہ بااثر سنی اسلامی مدرسہ) بھی کہا جاتا ہے۔ ناقدین حیران تھے کہ متقی نے دارالعلوم کا دورہ کیوں کیا، جسے اکثر ہندوستانی مسلمانوں میں وہابیت یا دہشت پسندانہ فکر پھیلانے والے ادارے کے طور پر بدنام کیا جاتا ہے، حالانکہ یہ حقیقت سے بعید ہے۔لیکن ناقدین کو یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ دارالعلوم کے لیے روانگی سے قبل متقی نے نئی دہلی میں ایک تقریب میں شرکت کی، جس کا اہتمام وویکانند انٹرنیشنل فاؤنڈیشن (VIF) نے کیا تھا جو کہ RSS سے معروف روابط رکھنے والے تھنک ٹینکس میں سے ایک ہے۔ VIF کی بنیاد 2009 میں وویکانند کیندر کے زیراہتمام رکھی گئی تھی، جو کہ اپنے آپ کو ایک روحانی تنظیم بتاتی ہے جس کی بنیاد 1970 کی دہائی میں آر ایس ایس کے ایک ممتاز رہنما ایکناتھ راناڈے نے رکھی تھی اور اسے آر ایس ایس سے وابستہ سمجھا جاتا ہے۔ اس تقریب میں سفارت کاروں، سیکورٹی ماہرین اور سرکردہ سیاسی اور دفاعی مبصرین نے شرکت کی۔ لہٰذا اگر متقی کو آر آر ایس سے وابستہ کسی تنظیم کی کسی تقریب میں شرکت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی، تو ان کے دارالعلوم کے دورے کے بارے میں شور کیوں مچایا جارہا ہے؟تنقید کرنے سے پہلے ناقدین کے لیے بہتر ہوگا کہ وہ دارالعلوم اور افغانستان کے بارے میں اپنے حقائق کو درست کرلیں۔
یہ ایک سالم حقیقت ہے کہ1980 سے پہلے، ہندوستان میں غیر ملکی طلباء پر پابندی کے مرکزی قانون کے نفاذ سے پہلے، دارالعلوم میں طلباء کی ایک بڑی تعداد افغانستان، بنگلہ دیش، میانمار اور دیگر وسطی ایشیائی جمہوریہ سے آتی تھی، کیونکہ دارالعلوم جنوبی ایشیا میں اعتدال پسند اسلامی علوم کی تعلیم دینے والے مراکز میں سب سے اونچا مقام رکھتا ہے۔ درحقیقت حالیہ طالبان رہنماؤں میں سے بہت سے اساتذہ نے دارالعلوم میں تعلیم حاصل کی اور انہوں نے افغانستان، پاکستان اور دیگر جگہوں پر اپنے شاگردوں کے درمیان اعتدال اور رواداری کا پیغام پھیلایا۔اس کے علاوہ زیادہ تر لوگ جانتے ہیں کہ افغانستان اور ہندوستان کے تعلقات صدیوں پرانے چلے جاتے ہیں اور اگر ہم اتنا پیچھے نہ بھی جائیں تو پچھلی صدی میں بھی یہ افغانستان ہی تھا جس نے ہندوستانی آزادی پسندوں کو ایک محفوظ میدان فراہم کیا۔ سب سے پہلے یہ افغانستان میں تھا کہ پہلی ہندوستانی جلاوطن حکومت یا ہندوستان کی عارضی حکومت یکم دسمبر 1915 کو کابل، افغانستان میں قائم ہوئی تھی۔ اس کی قیادت صدر راجہ مہندر پرتاپ اور وزیر اعظم مولانا برکت اللہ کر رہے تھے۔دوم، 1913-1920میں دیوبندی رہنماؤں کی قیادت میں سلک لیٹر مہم، ہندوستان کی تحریک آزادی کے دوران جرمنی، ترکی اور افغانستان کے ساتھ اتحاد کے ذریعے برطانوی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔ اس مہم کا نام ریشمی کپڑے پر لکھے گئے خطوط کے لیے رکھا گیا تھا جو کہ خفیہ طور پر مسلح بغاوت کے منصوبوں کے لیے استعمال کیے جاتے تھے، جسے انگریزوں نے بری طرح کچل دیا۔ مولانا محمود حسن اور مولانا عبید اللہ سندھی جیسے قائدین اس کوشش میں مرکزی شخصیت تھے، جو بالآخر ناکام ہوگئی لیکن ہندوستان کی جدوجہد آزادی کا ایک اہم حصہ تسلیم کیا جاتا ہے۔ میں نے ان دو تاریخی واقعات کے بارے میں اپنی کتاب: and Deobandi Islam Madrasah Demystifying میں تفصیل سے لکھا ہے۔
متقی کے دورہ ہندوستان کو ہندوستانی اور افغان قیادت دونوں کی جانب سے ایک عملی اور نیک مقصد کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہئے اور یہ پاکستان کو تنہا کرنے کے علاوہ خطے میں استحکام کا باعث بھی بن سکتا ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو یہ سبق دینے میں بھی کامیاب ہوسکتا ہے کہ وہ افغانستان کو کٹھ پتلی حکومت کی طرح نہیں چلا سکتا اور نہ ہی ہندوستان کو ہلکے میں لے سکتا ہے۔متقی نے اپنے دورے میں ان ہندوؤں اور سکھوں سے بھی ملاقات کی جو پہلے افغانستان میں مقیم تھے اور ان سے واپس دوبارہ افغانستان آنے کی اپیل کی۔ساتھ ہی انھوں نے ہندوستانی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں سے افغانستان میں نئے پروجیکٹس شروع کرنے کے لیے کہا۔ خاص طور سے کان کنی کے شعبے میں اور اس شعبہ میں جو کمپنی سرِ فہرست رہے گی وہ وزیر اعظم مودی کے پہلے سے ہی کافی قریب ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار اور میڈیا کینسلٹنٹ ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
رابطہ کے لیے: www.asadmirza.in)