میوہ جات کی فصل کو بیمہ سکیم کے دائرے میں لایا جائے
ندیم خان
جموں و کشمیر ایک بار پھر سے آفات ِ الٰہی کی تیزرفتار تھپیڑوںکے نشانے پر ہے۔ کیونکہ کشمیر میں حالیہ کچھ ہفتوں کے دوران میں بادل پھٹنے اورموسلا دھاربارشوں کے باعث،پہاڑی پانی کے پتھریلی ریلوں،زمینیں کھسکنے ،سڑکیں دُھنس جانے،پہاڑی بستیاں ڈھ جانے اورگائو ں بہہ جانے کے نتیجے میں جو سیلابی صورت حال پیدا ہوئی تھی ،اُس کے خوف ناک اور تباہ کُن مناظر سامنے آئے ہیں۔اُس نے نہ انسانی جانیں،مال و مویشی چھین لئے بلکہ مکان، دکان، املاک، سیب کے باغات، فصلیں اور صدیوں کی ثقافت کو بھی نگل لیا ہے۔ جموں و کشمیر میں آئے اس سیلاب نے نہ صرف زمینی سطح پر نقصان کیا بلکہ یادوں اور ورثے کے تانے بانے کو بھی برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس نے 2014کے تباہ کن سیلاب کو بھُلادیا ہو۔ وہ سیلاب جموں و کشمیر لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تک موجود ہے،جس نے وادی کشمیر کے لوگوں کو پوری طرح سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ وادی کشمیر میں پھلوں کی کاشت، خصوصاً سیب اور ناشپاتی وادی کشمیر کی معیشت کا بنیادی ستون ہے اور یہ صنعت لاکھوں گھروں کی روزی روٹی کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہے۔ ہر سال اگست سے لیکر دسمبر تک وادی کشمیر سے لاکھوں میٹرک ٹن سیب، ناشپاتی، خوبانی، اخروٹ اور دیگر میوہ جات ملک کی مختلف منڈیوں جن میں دہلی، ممبئی، کولکتہ، چندی گڑھ گجرات، اترپردیش وغیرہ تک پہنچائے جاتے ہیں۔ یہ سارے پھل ٹرکوں میں بنا کسی رکاوٹ کے اور بروقت ملک کی مختلف منڈیوں تک آسانی سے پہنچ جاتے تھے، لیکن جب جموں سرینگر شاہراہ بند ہوتی ہے تومیوہ گاڑیوں کا یہ قافلہ بیچ سڑکوںپر ہی تھم کر رہ جاتا ہےاور سڑ کر ضائع ہوجاتا ہے۔ آپ کو یہ بتا دیں کہ تازہ پھلوں کی قیمت تو ہمیشہ برقرار رہتی ہے، لیکن اگرمقررہ وقت تک یہ منزلِ مقصود تک نہ پہنچ پائےاور زیادہ دیر ہوجائےتو لاکھوں ٹن میوہ جات خراب ہوسکتا ہے۔ حالیہ سیلابی صورتِ حال سے جمو ں سرینگر قومی شاہراہ مسلسل بند رہنے کے سبب ہمیں کچھ ایسا ہی دیکھنے کو ملا اور چند دنوں کی بندش سے سینکڑوں گاڑیاں مختلف جگہوں پر پھنس گئیں۔ وہیں جن باغبانوں نے بینک سے قرض لے کر ہزاروں سیب کے درخت خرید کر لئے تھے، وہ لوگ اس سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ کولڈ اسٹوریج کی محدود سہولیات تو کشمیر کے بعض بڑے بڑے تاجروں کے پاس ہی موجود ہے، جبکہ عام سیب کاشتکاروں کے پاس ذخیرہ کرنے کے لئے کولڈ اسٹوریج تو دور کی بات ہے ایک محفوظ شیڈ کی سہولت بھی موجود نہیں۔نتیجتاً جب بھی موسم کروٹ بدلتا ہے تو اس کے فوراً بعد سیب یا تو پوری طرح خراب ہو جاتے ہیں یا پھر پھلوں کو انتہائی کم قیمت پر بیچنا پڑتا ہے۔
جموں و کشمیر آج ڈوبتے ہوئے گاؤں، برباد کھیتوں اور بے گھر خاندانوں کی ایک روتی ہوئی تصویر بنی ہے اوراسی انتظار میں ہے کہ کوئی اُن کی مدد کے لئے ضرور آئے گا۔ حالیہ سیلاب سے جموں و کشمیر میں لگ بھگ ایک لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، ہزاروں کنال باغات والی زمین پانی میں بہہ گئی ہے، لاکھوںسیب کے درخت پانی کی نذر ہوگئے ہیں اور زندگی بے سکون ہوگئی ہے۔ یہ مناظر ہمیں اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا اشارہ دیتے ہیں، تقریباً پھلوں سے بھری تین ہزار گاڑیاں جموں سرینگر قومی شاہراہ بلاک ہونے کی وجہ سے ایک ہی جگہ رُکنے پر مجبور ہوگئی ہیں۔ جس کے نتیجے میں سیب کاشتکاروں کے ساتھ ساتھ ٹرک ڈرائیوروں کو کروڑوں روپیہ کا نقصان پہنچا ہے۔ ان خوفزدہ کرنے والے مناظر میں گھر پانی میں بہتے دیکھے گئے، اسکول عمارتیںسیلابی پانیوں میں ڈوبی ہوئی دیکھی گئیں اور کھیتوں میں فصلیں کاٹنے سے پہلے ہی برباد ہوتی ہوئی دکھائی دیں۔کشمیر میں شدید بارشوں سے متعدد دیہات زیرِ آب آ گئے۔ کئی علاقوں کے ساتھ ساتھ گھروں کے اندر پانی داخل ہوا، جس سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ کسانوں خصوصاً سیب کاشتکاروں کوبڑے پیمانے پر نقصانات سے دوچار ہونا پڑا۔ بارہمولہ سے تعلق رکھنے والے سیب کاشتکار بشیر احمد کا کہنا ہے کہ کشمیر میں آئے اس سیلاب نے سب سے زیادہ نقصان پھلوں خاصکر سیب کے باغات کو پہنچایا ہے۔ سیلاب سے ضلع کے بیشتر جگہوں میں سیب، ناشپاتی، اخروٹ اور دیگر سیب کے باغات یا تو مکمل طور پر تباہ وبرباد ہوگئے یا بری طرح سے متاثر ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ سرکار نے اگرچہ دھان کی فصل کو فصل بیمہ یوجنا کے تحت شامل کیا ہے۔ لیکن میوہ جات کو ابھی تک اس اسکیم کے دائرے میں نہیں لایا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تباہی نے سیب کاشتکاروں کو مالی طور پر شدید نقصان سے دوچار کر دیا ہے۔ پلوامہ سے بہنے والے رومشی نالہ میں پانی کی سطح میں اضافے کے بعد اس کے کنارے آباد کئی سارے گاؤں بری طرح تباہ ہوچکے ہیں اور اب وہ لوگ بےگھر ہونے کے بعد اپنی زندگی اپنی مدد آپ کے تحت جھوپڑیوں میں بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ حالات اتنے نازک ہیں کہ پانی کے تیز بہاؤ سے نہ صرف باغات اکھڑ کر بہہ گئے بلکہ زمین کے بڑے بڑے ٹکڑے بھی سیلاب کی نذر ہو گئے۔ ایک مقامی کسان جاوید اقبال نے بتایا کہ سیلاب سے بڑے بڑے مضبوط سیب کے درخت جڑوں کو لیکر اکھڑ گئے اور زمین کھسکنے کے باعث وہ اپنی سالوں کی محنت سے تیار کردہ زرعی اراضی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ہزاروں سیب کاشتکاروں کامایوسی اور اضطراب کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ ان کا روزگار صرف ان ہی سیب کے باغات پر محیط تھا، لیکن سیلاب نے ان کی برسوں کی محنت پر پانی پھیر کر انہیں پھر سے بےبس کر کے رکھ دیاہے۔ امتیاز رسول نامی شخص جو کہ کشمیر سرینگر میوہ منڈی کے صدر بھی ہیں،نے بتایا کہ 2014 کے خوفناک سیلاب میں بھی اِتنا نقصان نہیں ہوا تھا جتنا اس حالیہ ایک ہفتے کے سیلاب سے ہوا ہے۔ سیب اور ناشپاتی کے باغات پانی میں پوری طرح سے بہہ گئے ہیں اور افسوس تو یہ ہے کہ ہمیں یہ بھی پتہ نہیں چل سکا ہے کہ ہمارے باغات کس جگہ پر تھے اور کہاں چلے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا اس سیلاب کی وجہ سے یہاں کے چھوٹے سے لیکر بڑے کاروباری کو بےحد مشکلات سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ سیب کاروباریوں نے جموں و کشمیر کی ایل جی انتظامیہ سے فوری طور پر ہر قسم کے معاوضے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ہمیں وقت پر مدد نہ کی گئی تو وہ شدید مالی بحران میں مبتلا ہو جائیں گے۔ سیب کاشتکاروں نے ایل جی انتظامیہ سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ میوہ جات کو بھی فصل بیمہ اسکیم کے تحت شامل کرے تاکہ مستقبل میں آنے والے اس طرح کی آفات میں انہیں فوراً مدد فراہم ہو سکے۔ آپ کو بتا دیں کہ پلوامہ، شوپیان، بارہمولہ، اننت ناگ، بانڈی پورہ کے متاثرہ سیب کاشتکار اس وقت بے یقینی، بے بسی اور بے چینی کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔ ان کا واحد سہارا سیب کے باغات تھے ،جو ،اب نہیں رہے ہیں لیکن اب ان سیب کاشتکاروں کی نظر جموں و کشمیر انتظامیہ کی جانب سے ملنے والے مالی تعاون پر ہی ہے تاکہ وہ دوبارہ اپنی زندگی اور روزگار کو بحال کر سکیں۔ چنانچہ 15 دنوں سے قومی شاہراہ بند ہونے کے نتیجے میں سیب اور ناشپاتی سے بھرے دو ہزار کے قریب مال بردار گاڑیاں شاہراہ کے بیچ میں پھنس گئی۔ جس کی وجہ سے سیب اور ناشپاتی جیسے پھل ان گاڑیوں میں ہی سڑ کر رہ گئے۔ کشمیر کے مختلف کاشتکاروں اور تاجروں کے مطابق، کشمیر میں سیلاب آنے اور پھر جموں سرینگر قومی شاہراہ بند ہونے سے ایک تخمینے کے مطابق کشمیر کے کاشتکاروں کو 700 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ اور اگر ٹرکوں کی آمد ورفت معمول پر نہ آئی تو کشمیر میں میوہ صنعت کو 1200 کروڑ روپے تک کا نقصان ہو سکتا ہے۔ سوپور جو ایشیا کی دوسری سب سے بڑی فروٹ (پھل) منڈی ہے، کشمیر میں سیلاب آنے کے بعد سے بند ہے اور ساری سرگرمیاں یہاں تقریباً تھم گئی ہیں۔ اب موسم میں بہتری آنے سے صرف چھ ٹائر والی گاڑیوں میں ہی سیب وغیرہ لوڈ کیا جارہا ہے۔ وہیں سیلابی صورتحال سے پہلے یعنی عام دنوں میں تقریباً 150 گاڑیاں روانہ لوڈ کی جاتی تھیں۔ سیلاب کے نتیجے میں سیب اور دیگر پھلوں کی قیمتوں میں بھی بہت زیادہ گراوٹ دیکھنے کو ملی ہے۔ آپ کو بتا دیں کہ امریکن سیب کی ایک پیٹی جو پہلے اوسطاً 1100 روپے میں فروخت ہوتی تھی، وہی امریکن سیب کی پیٹی سیلابی صورتحال کے باعث 400 روپے میں فروخت ہو رہی ہے۔ کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور سیب کاشتکار نے اس سلسلے میںبتایا کہ پہلے ہم ایک ٹرک لوڈ کر کے تقریباً 15 لاکھ روپے کی کمائی آرام سے کیا کرتے تھے، لیکن جب سے جموں و کشمیر میں موسمی صورتحال تبدیل ہوئی ہے، تب سے ایک ٹرک سے بمشکل ایک یا دولاکھ روپے ہی کما پاتے ہیں۔ سرینگر سے تعلق رکھنے والے ایک ٹرک ڈرائیور مختار احمد میر نے فون کرکے بتایا کہ میں ادھم پور میں پچھلے بیس دن سے پھنسا ہوا ہوں اور میری گاڑی میں جو سیب کی 1500 بیٹیاں تھی ،وہ سب خراب ہوچکی ہیں، ہمیں کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے کہ ہم آخر کریں تو کریں کیا؟ ایسی ہی صورتحال کشمیر میں ہر ایک ٹرک ڈرائیور کی ہے جو جموں سرینگر قومی شاہراہ بند ہونے کی وجہ سے پھنس گئے ہیں۔ سیلابی صورتحال کو دیکھتے ہوئے سوپور فروٹ منڈی ایسوسی ایشن کے صدر نے کشمیر کے سیب کاشتکاروں کو ہدایت دی ہے کہ وہ فی الحال سیب کی پیکیجنگ روک دیں اور جموں سرینگر قومی شاہراہ شاہراہ کے مکمل طور پر بحال ہونے تک اپنا پیک کیا ہوا سیب کولڈ سٹورز میں محفوظ رکھیں۔ وادی کشمیر میں شدید بارشوں کے باعث سیلابی صورتحال نے کشمیری میوہ صنعت کو زبردست دھچکا پہنچایا ہے۔ جس کی وجہ سے کروڑوں روپیہ کا نقصان آئے روز دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بڑے تاجر تو اس نقصان کو برداشت کر لیں گے لیکن معمولی کسان اور چھوٹے موٹے تاجروں کے دل اور چہرے رنجیدہ اور مایوس ہیں، وہ یہ بہت بڑا نقصان آخر کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔ اب اس بات سے کوئی شخص انکار نہیں کرسکتا ہے کہ جب تک جموں و کشمیر سرکار بنیادی ڈھانچے میں سنجیدہ تبدیلیاں نہیں لاتیں، وادی کشمیر کا کسان سالانہ قدرتی آفات جیسے بارش، برفباری، اولے، لینڈ سلائیڈ نگ کے ساتھ اسی طرح کب تک لڑتا جھگڑتا رہے گا؟
رابطہ۔ 9596571542 [email protected]