افسوس … صدافسوس ! بھارت بھر میں آج بنت ِحوا کی عزت وعصمت سرِراہ لوٹی جا رہی ہے۔ سولہ دسمبر دوہزار بارہ کو دامنی المیہ سے لے کر آج تک پے درپے جنسی درندگی کی ایسی اندوہناک وارداتیں ملک کے طول وعرض میں رونما ہوئیں کہ لگتاہے گویا بھارت ورش اب جنسی بے راہ روی کی آماج گاہ بن چکا ہے ۔ بے شک آج یہ ملک مادی اور دفاعی ترقیوں کی نئی منزلیں چھورہاہے لیکن ستی ساوتری کو بے عزت کرنے کے حوالے سے یہ ملک روبہ زوال ہے ، یہ ملک صوفی سنتوں ریشیوں کادیش رہاہے۔ یہاں گوتم بدھ اور نانک جیسی شخصیات اور اولیاء اللہ نے لوگوں کو اخلاق کا درس دیا لیکن اسی سرزمین میں ’’ آزادی اور مساوات‘‘ کے نام پر عورت کی عزت وعصمت کے ساتھ انسانیت سوز کھلواڑ بھی کیا جارہاہے جس کی رپورٹنگ روز ہوتی ہے۔ اسی سلسلے کی ا یک کڑی گزشتہ کٹھوعہ کا المیہ ہے جس میں ایک آٹھ سالہ خانہ بدوش بچی کے ساتھ زیادتی اور قتل کی واردات وقوع پذیرہوئی ۔اس منحوس خبر نے ہر ایک کا جگر پارہ پارہ کردیا ۔ یوں انسانیت تباہی وبربادی کی شکار نظر آئی۔ان تباہ کن حالات سے کوئی معجزہ ہی وشال دیش کو بچاسکتاہے ۔ دنیا کاکوئی بھی آسمانی مذہب جنسی آوارگی کی اجازت نہیں دیتا۔ خود ہندو دھرم میں عورت کودیوی کا درجہ دیا گیاہے۔ سیتا ماں ، لکشمی ، سرسوتی ، ویشنودیوی وغیرہ کو باقاعدہ طور پوجا جاتاہے۔اس کے باوجود جنسی آوارگیوں کے دل دہلانے والے واقعات کیوں؟ دراصل مادی لحاظ سے انسان بامِ عروج کو پہنچ چکا ہے لیکن انسانی معاشرہ اخلاقیات کے میدان میں زوال کی پستیوں کو چھورہاہے ۔ جب سے انسان نے مذہب کے بندھن توڑکر اپنی ذاتی آزادی( یاآوارگی ) کا راستہ اختیار کیاہے ، تب سے وہ اپنی انسانی شناخت اور انسانی اقدار کا گلستان خزان آلودہ کربیٹھاہے ۔ یہ عالم انسانیت کے لئے ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ جس شعبے میں اسے ترقی کرنی چاہئے تھی اسی سمت میں وہ تنزل کی انتہا تک پہنچ گیا ہے ع
ہے نزع کی حالت میں تہذیب جواں مرگ
معاشرے کی تشکیل ، تعمیر وترقی میںعورت کا بہت بڑا کردار ہے ۔ اگر عورت کو معاشرہ کا محور قرار دیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا ۔اس لئے یہ تعظیم وتکریم ، اصلاح وسربلندی کی بہت زیادہ متقاضی ہے ۔ اسلام نے عورت کو اسی اہمیت کی بنا پر خصوصی توجہ کا مرکز بنا دیا ۔ ہر مرحلہ پر اس کی تعلیم وتربیت اور بنیادی حقوق کی رعایت کرنے کا حکم دیاہے ۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ آج کل تعلیم وتربیت سے مراد وہ چیزیں ہیں جو تعلیم کے نام پر اخلاقی برتری اور روحانی پاکیزگی کے بجائے محض کسب ِمعاش تک محدود کی جا چکی ہیں ۔ اس تعلیم کے حصول کا مقصد معاشی مفاد ات کے بجز کچھ اورنہیں ہے ۔ ڈگری والی تعلیم سے انکار نہیں مگرا صل تعلیم وہ ہے جس سے حلال وحرام کی تمیز ہوجائے ،صحیح وغلط کے درمیان امتیاز کر نے کی کسوٹی میسرہو ، مفیدا ورمضر کا شعور بیدار ہوجائے۔بالفاظ دیگر اگر تعلیم انسان کو بلند اخلاق کاحامل بناتی ہے کہ وہ انسان معیارِ انسانیت کے قریب تر پہنچ جائے اور پورے عالم ِانسانیت کے لئے نفع رساں ہو تو وہ تعلیم یافتہ کہلائے۔ بہرصورت ایک عورت تعلیم یافتہ ہو اور شعور وآگہی میں آگے آگے ہو،تو اس کی خدمات سے قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔تعلیم خواہ مذہبی ہو یا مروجہ نصابی سطح کی ہو، اُس کے نصاب میں اگر اخلاقی تعمیر نو کے موضوعات شامل نہ ہوں اور طلبا ء وطالبات کا تعلیم وتدریس سے کوئی روحانی استفادہ نہ ہوتا ہو تو سب کچھ تضیع اوقات ہے۔ بھلے ہی اس نام نہاد تعلیم کی تکمیل پر ڈگری اور سند بھی دی جائے ۔اسلام کی نظر میں مردو زن کے لئے جو تعلیم مطلوب ہے اس کا تعلق عملی زندگی کے ہر ہر شعبے سے ہے اور اسی وجہ سے عالم بے عمل کو سخت وعید آئی ہے، لہٰذاوالدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کو بالخصوص اپنی بچیوں کے لئے ایسی مفید تعلیم کا اہتمام کریں جس سے اُن کا عقیدہ وعمل دونوں دُرست سمت اختیار کرجائیں اور بے راہ روی کی قباحتیںاور لغو عمل کی نفرتیں ان کے دل میں جاگزیں ہوں ۔ جب اس نوع کی تعلیم وتدریس کا بندوبست یہ ہو تو ملک اور معاشرے میں میںعورت کی عظمت اوروقار کا تحفظ دیوانے کی بڑ ہے اور ایسا ملک ترقی یافتہ کہلانے کے قابل نہیں بنتا۔ چونکہ بھارت میں نصاب تعلیم اخلاقیات سے تہی دامن ہے ، بنابریں جنسی بے ضابطگیاں اب معمول کا حصہ بن چکی ہیں اور سخت گیر قوانین کے نفاذ کے باوجود بھارت ماں بہن بیٹی گھر میں بھی غیر محفوظ ہے اور باہر بھی گدھ نما انسان اس کے درپے آزار ہیں ۔
قابلِ افسوس بات یہ ہے کہ اس سر زمین میں ماؤں اور بہو بیٹیوںکی عزت اپنے ہی سپوتوں کے ہاتھوں تار تار ہورہی ہے ۔ اس پر طرہ یہ کہ اربابِ اختیار کا ایک غالب حلقہ اخلاقی بے راہ روی کو ’’ زمانے کی ترقی ‘‘ سے تعبیر کرر ہے ہیں ۔ کچھ برس قبل اس دیس کے بعض حکمرانوںنے جاتماعی ضمیر کی تسکین کے نام پر افضل گورو کی خفیہ پھانسی کو حق بجانب قرار دیا ۔ اگر آج اسی دیس کی بہو بیٹیوں کی عصمت لُٹ رہی ہے ،تو کیاقصورواروں کے لئے پھانسی کا پھندہ حق بجانب نہیں؟ بھارتی پارلیمنٹ کی اصل عزت تب ہے جب بھارتی خواتین کی عزت محفوظ ومامون ہو۔ صنف نازک کے خلاف آج کل کی نئی آفتوں کا مقابلہ اظہار افسوس کرنے یا نعرے بازی کر نے اورنت نئے کاغذی قانون بنانے سے نہیںکیا جاسکتا بلکہ اس وباکو مٹانے کے لئے سیاسی ، سماجی ، تعلیمی ،معاشی اور علمی سطحوں پر سب کو اہم انسانی اور غیرت مندانہ کردار نبھانا ہوگا۔ ورنہ ترقی کی یہ چمک دھمک کسی کا م کی نہیں ع
کوٹھیاں آباد ہیں مگر دل برباد
نئی تہذیب کے بارے میں شاید اسی لئے اقبال نے فرمایا ؎
اُٹھا کر پھینک دونالی میں باہر
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
ساتھ ہی یہ عرضداشت ہے کہ موجدہ دور کی فحاشیوں میں اگر واقعی عورت کو اپنی عزت پیاری ہے اور اپنا وقار عزیزہے تو اس کے لئے اوّل تاآخر ضروری ہے کہ وہ حضرت فاطمہ الزہرہؓ کا اسوہ اپنا کر اپنے آپ کو زمانے کی بدنگاہوں سے بچالے ۔ تب ہی وہ ایک حسینؓ وحسنؓ جیسی تابعِ فرمان اولوالعزم شخصیات کو جنم دے سکتی ہے۔
رابطہ 9469679449
ای، میل [email protected]