جموں // وزیر خزانہ ڈاکٹر حسیب درابو نے ریاستی قانون ساز اسمبلی میں لگاتار چوتھا سالانہ گوشوارہ پیش کیا۔وزیر خزانہ نے بجٹ تقریر میں کہا کہ گذشتہ تین برسوں کے دوران ریاست کے مالی انتظام وانصرام کے اندازاورمعنویت میں ہمہ گیرتبدیلی لانے کیلئے سنجیدہ اورمربوط کوششیں کی گئیں۔یہ سفراقتصادی استحکام سے شروع ہوا جس سے ڈھانچہ جاتی اصلاحات وقوع پذیرہوئیں اور نظام میں تبدیلیاں بھی واقع ہوئیں۔انہوں نے کہا کہ شاید پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ رواں سال کیلئے نظرثانی شدہ بجٹ تخمینہ جات گذشتہ سال پیش کئے گئے تخمینہ جات کے مقابلے میں کہیں بہترہیں۔ اس سلسلے میں تین باتیں نمایاں طور پر سامنے آئی ہیں ۔ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدن کااندازہ 9931 کروڑروپے لگایاگیاتھا جبکہ اس میں اضافہ ہواہے اور ہم اپنی ٹیکس وصولیابیوں میں 10000 کروڑروپے کے نشانے کوعبورکرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔جہاں تک دوسری مد کاتعلق ہے ۔میں نے 3000 کروڑروپے کے مالی خلیج کااندازہ لگایاتھا ۔اب جب کہ سال اختتام پذیر ہونے کوآرہاہے ہمیں 1300 کروڑروپے سے زیادہ کی رقم کی بچت ہوئی ہے۔تیسری مدکاتعلق مالی خسارہ سے ہے یہ واحدایسااہم پیمانہ تصورکیاجاتاہے جومالی کارکردگی کاعکاس ہوتاہے ۔اس خسارے کااندازہ 9.5 فیصد لگایا گیاتھا مگراصل میں یہ صرف 5.7 فیصدپرسمٹ گیاہے ۔یایوں کہیئے کہ اس میں قریب 400 یوینٹس کی بہتری واقع ہوئی ہے ۔انہوںنے کہا کہ چندماہ قبل ،ہم نے مزدورطبقہ کی کم ازکم اُجرتوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا ۔ غیرہُنرمند ورکروں کی کم ازکم اُجرتوں کو150 روپے سے بڑھاکر 225 روپے کردیاگیا جبکہ ہُنرمند ورکروں کی اُجرت 225روپے سے بڑھاکر350 روپے کردی گئی۔اعلیٰ ہُنرمندورکروں سے متعلق ایک نیازُمرہ قائم کیاگیا اوراُنکے کیلئے کم ازکم اُجرت 400 روپے مقررکی گئی ۔ جہاں تک تعمیراتی کاموں سے منسلک مزدوروں کا تعلق ہے ، ہم نے اُن کوبیمہ کی سہولت فراہم کی ہے اور اپاہج ہونے ،بیمار پڑ جانے یا ہلاک ہونے کی صورت میں معاوضہ فراہم کرکے انہیںیا پسماندگان کو مالی تحفظ فراہم کیا ہے ۔ان کے بچوں کی تعلیم وتربیت کیلئے مالی مددکااہتمام کیاگیا اور اُن کوچھوٹے موٹے قرضوں تک رسائی دی ہے یہ اِقدام 3لاکھ کنبوں کے بسراوقات کوآسان اورمحفوظ بنادیں گے۔کیجول ،ایڈہاک اور دیگر زُمروں کے افراد کو باقاعدہ ملازمت میں لینے کا فیصلہ بھی ہماری اسی پالیسی کا حصہ ہے جس کا مقصد بہتر اخراجاتی انتظام و اِنصرام کے نظام کی ایماء پر سماجی اعتبار سے بامعنی فیصلہ جات لینا ہے۔ایک ایسا نظام جس کے تحت سالہا سال سے، ’’مارچ ماہ میں اندھا دھند ادائیگیاں‘‘ واقع ہوتی تھیں۔وہ0 300کروڑ روپے کے آس پاس یا کل کیپٹل اخراجات کے 20فیصد کے برا بر ہوتی تھیں، یہ رقوم مالی سال کے آخری مہینے ،مارچ میں خرچ کی جاتی تھیں۔حد تو یہ ہے کہ آخری دو دنوں میں نصف شب تک سینکڑوں کروڑ روپے کے تقاضے ٹریجریوں میں داخل ہوتے تھے۔ تاہم اب یہ قصہ پارنیہ ہے۔ پہلے ہی بجٹ منظور کرنا اور عوام کو رقومات واگزار کرنے کا نیا طرز عمل یعنی تمام رقوم 10اور 11فروری 2017کو واگزار کئے گئے اور ساتھ ہی یہ پابندی بھی عائد کی گئی کہ 31دسمبر کے بعد پہلے سے طے شدہ زمرات کے لئے مخصوص رقومات کی نئی زمرہ بندی کی کسی بھی طور اجازت نہ ہو گی،اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ 31دسمبر 2017تک مختص رقم کا پچاس فیصد حصہ خرچ ہو گیا (جب کہ پہلے یہ مشکل سے 25% کی شرح کو چھو پاتا تھا)۔انکا کہنا ہے کہجب میں نے بطوروزیرخزانہ عہدہ سنبھالاتو اس وقت بھاری محکمہ جاتی مالی واجبات موجود تھیں بالخصوص بجلی کی خرید پرواجب الادا واجبات۔ تب ہمارے ذمہ گیارہ ہزار (11,000)کروڑکے واجبات تھے جن میں سے سات ہزار کروڑکاتعلق بجلی اور4,000کروڑ روپے کاتعلق دیگر محکمہ جات سے تھا ۔ اس سے بھی بدتر صورتحال یہ تھی کہ کئی بل(Bills) نپٹارے کیلئے مہینوں سے سرکاری خزانے میں پڑے تھے۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ محکمہ جاتی بقایا جات گھٹ کر 600کروڑ روپے رہ گئے ہیں جبکہ بجلی کی خریداری پر واجبات کم ہوکر تقریباً3000کروڑ روپے رہ گئے ہیں۔ ان تین سالوں میں ہماری حکومت اس معاملہ میںتوازن کوبحال کرنے میں بڑی حدتک کامیاب ہوئی ہے ۔سال 2017-18 میں ترقیاتی اخراجات پرفی یونٹ Over head خرچہ تیزی سے کم ہوکر 1.70روپے رہ گیاہے ۔ہم نے تقریباً 2000کروڑروپے کے غیرمنصوبہ جاتی اخراجات آمدن کی مدکے تحت منتقل کئے ہیں جوغلطی سے منصوبہ جاتی اخراجات کے زمرے میں رکھے گئے تھے۔یہ کہنا بے جاہوگا کہ آج کے کیپٹل اخراجات یعنی مبلغ 100 روپے پہلے برسوں کے 120روپے کے برابرہے۔اس سال ہم نے بجٹ سے مالی اعدادوشمار کے آخری نقص کوبھی ختم کیاہے ۔ سابقہ بجٹ میں پڑتال وادائیگی کیلئے رقوم مختص کرنے کے ایک مربوط ڈیجیٹل نظام کااعلان کیا گیاتھا ۔اب رقومات کی فراہمی اور منظوری BEAMS اورPFMS کے تحت عمل میں لائی جارہی ہے ۔IFMS کے تحت ادائیگیوں اوراُنکی پڑتال کے نظام میں واضح پیش رفت ہوئی ہے ۔ یکم اپریل 2018 تک متعلقین کی سبھی ادائیگیاں صرف PFMS اورDBT پورٹل کے تحت ہی عمل میں لائی جائیں گی ۔اس کے ساتھ ساتھ ٹریجریوں کے نظام کو خیر باد کہا جائے گا اوراس کی جگہ PAY & ACCOUNTS نظام لاگوکیا جائے گا ۔موجودہ 100سال سے زائد عرصہ سے رائج العمل نظام کوترک کرنے،لین دین اورادائیگی کے طریقہ کار کومُرتب کرنے اوراس میں IT Solutions لاگوکرنے کے لیے بلاشبہ کچھ وقت لگاہے۔سرکاری کارخانوں میں فائنانشل انجینئرنگ کے عمل کی شروعات کی گئی ہے ۔مثال کے طور پرJ&K SPDC نے اس سمت میں نمایاں پیش رفت دکھائی ہے اورسال کے اختتام تک کارپوریشن اپنے بیلنس شیٹ کی حامل بنے گی۔بیلنس شیٹ میں واضح بہتری، زرِ حِصص کی ایک وسیع بُنیاد، نیزمتعدد نئے پروجیکٹوں کی بدولت جموں وکشمیر SDPC ریاستی سرکارکی سب سے زیادہ منافع بخش کمپنی کی حیثیت سے اُبھرے گی اور منافع کے حوالہ سے جموں وکشمیربینک کے ساتھ شانہ بشانہ ہو گی ۔جموں وکشمیرسٹیٹ فائنانس کارپوریشن کی تنظیم نو کا سنجیدہ عمل شروع کیاگیاہے ۔ کارپوریشن نے بقیہ حصہ داروں کے حصص واپس خریدنے کی پیش کش کی ہے اورانہیں اس سلسلے میں توقع سے بہتر ردعمل موصول ہواہے ۔جموں وکشمیر سٹیٹ مالی کارپوریشن SIDBI اور LIC جیسے اداروں کے حصص خریدرہی ہے ۔ کارپوریشن دیگر حِصص خریدنے کے بعد 49 فیصد حصص کے عوض ایک نئی شراکت دار کمپنی کو شامل کرے گی۔ایس۔ایف ۔سی اورکمرشل بینکوں کے انتہائی خراب شُدہ اثاثوں کوبحال کرنے کے وسائل فراہم کرنے کے لئے میں نے جموں وکشمیر Asset Reconstruction کمپنی قائم کی ہے جس کا Authorised سرمایہ ایک سو کروڑروپے اور Paid up سرمایہ 2 کروڑ روپے ہوگا۔ کمپنی میں ریاستی سرکارکاحصہ 51فیصد اورجموں وکشمیربینک کاحصہ 49فیصد ہوگا۔اس کے لئے بورڈ آف ڈائریکٹرس تشکیل دیاجاچکاہے ۔کمپنی کوکام کاآغاز کرنے کے لئے میں سرکارکی طرف سے ایکوٹی امداد کے طور8کروڑ روپے مختص رکھنے کی تجویزرکھتاہوں۔ہینڈی کرافٹ ڈیولپمنٹ اور ہینڈلوم ڈیولپمنٹ کارپوریشنوں کے خام مال کے حصول اورتجارتی اثاثہ بہتربنانے کی غرض سے میں 5/5 کروڑروپے کی رقم فراہم کررہاہوں ۔ایس آرٹی سی کی طرف ا س سال توجہ دی جائے گی اوررواں برس کے دوران ہماری کوشش یہ رہے گی کہ اُس کابیلنس شیٹ مستحکم ہواوراُسکے سبھی بقایہ جات کی ادائیگی ہوتاکہ اِسے نجی شراکت داری کے لئے پیش کیا جاسکے جس میں حصص کی اکثریت سرکارکے پاس رہے گی ۔سرکاری ملکیت کے دیگرکارخانوں کے بیلنس شیٹ صاف کرنے اوراُنکی بنیادیں بہتربنانے کے لئے اقدامات شروع کئے گئے ہیں تاکہ انہیں ایک نئی ہولڈنگ کمپنی کے دائرے میں لایاجائے ۔سرکارکی طرف سے ان اداروں کودیئے گئے سبھی قرضے زرِ حصص میں بدل دیئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ فی الوقت جمع ہونے والی جی پی فنڈ رقومات میں کمی واقع ہو رہی ہے اور جی پی فنڈ سے نکالی جانے والی رقومات میں متواتر اضافہ ہو رہا ہے۔اگر اس سلسلے میں بروقت اصلاحی اِقدامات نہیں کئے گئے تو وہ وقت دور نہیں جب ریاست کو اپنی آمدنی کا 25فیصد حصہ جی پی فنڈ ادائیگیوں پر ہی صرف کرنا پڑے گا۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے میں نے مستقبل میں سرکاری ملازمین کی جی پی فنڈ ادائیگیوں کے لئے 12ہزار کروڑ روپے کا ایک فنڈ قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔درحقیقت یہ طریقِ کار بہت پہلے اختیار کیا جانا چاہئے تھاجیسا کہ مرکزی سرکار اور دیگر کئی ریاستی سرکاروں نے کیا ہے ۔پوری ریاست میں سرکاری دفاتر کے سٹوروں میں بھاری مقدار میں متروک سامان پڑا رہتا ہے ۔اس طرح کے سٹاک میں پھنسی ہوئی مالیت کو بروئے کار لانے کے لئے اور دفاتر میں اس کی وجہ سے گھیری گئی جگہوں کو خالی کرانے کے لئے نیلامی کے عمل سے وابستہ قواعد پر نظر ثانی کی جائے گی اور اس طریقِ کار کو روبہ عمل لانے کے تعلق سے آسان بنایا جائے گا۔ جولائی 2017سے مہنگائی بھتے کی واجب الادا قسط واگزار کرنے کا اعلان کرتا ہوں۔ ہماری سرکار ساتویں تنخواہ کمیشن کی سفارشات یکم اپریل 2018ء سے لاگو کرنے کی پہلے ہی وعدہ بند ہے اور اس کا اطلاق یکم جنوری 2016ء سے ہو گا ۔ریاستی سرکار کے ملازمین کے لئے ایک تنخواہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو تنخواہوں کے نئے ڈھانچوں کی سفارشات کے ساتھ ساتھ مختلف محکموں میں تنخواہوں میںتفاوت کے معاملات کا بھی جائزہ لے گی اور ساتویںتنخواہ کمیشن کو لاگو کرتے ہوئے اُن کے ازالے کی بھی کوشش کرے گی۔اگلے دو ہفتوں کے دوران سیکرٹریٹ ملازمین کے کیڈر ریوو معاملے کا بھی مناسب نپٹارہ کیا جائے گا۔ملازم دوست سرکار کی حیثیت سے ہم نے حال ہی میںپورے پِنشن کی حصولیابی کیلئے لازمی سروس کی مدت 28سال سے کم کرکے 20سال کر دی ہے۔ اس اکیلے اِقدام سے ریاستی سرکار کے ملازمین کی نصف سے زیادہ تعداد مستفید ہو گی۔اور اُ نہیں پوری پِنشن حاصل ہو گی۔اسی طرح سے ملازمین کی غیر شادی شدہ بیٹیوں کو بھی ملازم یا اُس کی اہلیہ/ شوہر کے زندہ نہ رہنے کی صورت میںپِنشن پانے کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ پہلے اُنہیں یہ حق حاصل نہیں تھا اور یہ قدم جنسی مساوات کو فروغ دینے کی جانب بھی ایک قدم ہے۔سرکاری ملازمین کو ریٹائر ہونے کے وقت اپنے جی پی فنڈ کیس حل کرانے میں دشواریوں کا سامنا رہتا ہے۔جی پی فنڈ کی حتمی رقم نکالتے وقت انہیں نوکری لگنے کے وقت سے نکالی گئی رقومات کا حساب اور سر ٹیفکیٹ پیش کرنے کے لئے کہا جاتا ہے ۔ دہائیوں کی خدمات کے بعد جب ملازم سبکدوش ہوتے ہیں تو وہ اس بات کے بجا طور مستحق ہیںکہ اُنہیں ہراساں یا تنگ نہ کیا جائے خاص طور پر اپنے ہی خون پسینے کی کمائی حاصل کرنے کے سلسلے میں۔ سرکاری ملازمین کو آئیندہ اپنی حتمی جی پی فنڈ وصولی کے لئے صرف پچھلے 5سال کا جی پی فنڈ سٹیٹمنٹ پیش کرنا ہو گا۔اگلے سال جوں ہی ہمارا آئی ٹی سسٹم اور طریقہ ِ کار بہتر ہو گاہم مذکورہ پانچ سالہ جی پی سٹیٹمنٹ کی شرط کو بھی ختم کر دیں گیجن ملازمین کے جی پی فنڈ کھاتوں میں متواتر تین برسوں تک کچھ فیصد رقومات جمع رہی ہیں وہ دس لاکھ روپے کے ڈیپازٹ سے جڑے بیمے کے مستحق ہوتے ہیں ۔ میں جی پی فنڈ کھاتے داروں کی ڈیپازٹ سے جڑی بیمہ کی رقم 10لاکھ سے بڑھا کر 50لاکھ روپے کرنے کی تجویز پیش کرتا ہوں۔نئی پِنشن سکیم کے دائرے میں آنے والے ملازمین کے لئے بھی ایسی ہی سکیم مرتب کی جائے گی ۔اگلے مالی برس کے دوران جی پی فنڈ قواعد میں اس سلسلے میں ضروری ترامیم کی جائیں گی۔حکومت ایک جدید اور وسیع Group Mediclaim Insurance Policyکو متعارف کر رہی ہے۔ماضی میں صرف Gazetted ملازمین کا ہی انشورنس کیا جاتا تھا اب اس کے برعکس سبھی ملازمین بشمول Pensioners اپنے 5 افراد کنبہ کے ساتھ انشورنس کے دائرے میں لائے گئے ہیں۔اس حقیقت کے پیش ِ نظر کہ ریاست میں 4.5لاکھ ملازمین اور تقریباً 1.5لاکھ Pensioners ہیں ،30لاکھ افراد اس انشورنس سکیم کے دائرے میں آ جائیں گے۔ Autonomus Bodies,PSU's,Local Bodiesوغیرہ کے ملازمین بھی اس اسکیم کو رضا کارانہ طور پر اختیار کر سکتے ہیں۔میں اس سکیم کا اطلاق Accredited صحافیوں کیلئے بھی کر رہا ہوں۔سرکار نے Personal Accidental Insurance کی رقم 5لاکھ سے بڑھا کر 10لاکھ کر دی ہے۔ VVIPs اور بہت سی اہم تنصیبات کی حفاظت پر مامور Security Guardsاکثر ان عمارات کے احاطوں میں خیموں کے اندر رہتے ہیں ۔ یہ جوان جو ہماری حفاظت کا کام انجام دیتے ہیں بعض اوقات ایسے حالات میںبھی بسر اوقات کرتے ہیں جن کو ناگفتہ بہ کہا جا سکتا ہے۔ان کے رہن سہن کے حالات میں بہتری لانے کے لئے میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کیلئے Prefabricated ہٹ تعمیر کئے جائیں جس کے لئے میں 2کروڑ روپے کی رقم تجویز کرتا ہوں جہاں یہ اِقدامات سرکاری ملازمین اور ملازمت سے سبکدوش ہوئے 6لاکھ افراد کے چہرے پر مسکراہٹ لائیں گے ، وہیں مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے ذاتی طور پر بھی مسرت محسوس ہو رہی ہے کہ میں نے ایک اہم سماجی مسئلے کی طرف بھرپور توجہ دی ہے۔بھارت سرکار کی MACP کی طرز پر انجینئرنگ محکمہ جات کے Gazetted Cadreکیلئے ایک Assured Career Progression Schemeمرتب کی ہے جو جلد ہی مشتہر کی جائے گی۔متعلقین کے وسیع تر توقعات سے عہدہ برآ ہونے کیلئے میں Assured Career Progression Scheme کے فوائد دیگر تکنیکی Cadres جیسے Agriculture,Horticulture,Animal and Sheep Husbandryوغیرہ کے لئے بھی تجویز کرتا ہوں۔ریاست کے اُن سبھی Gazetted Servicesکے لئے جن کو اب تک Time Bound Carrer Progressionکے مواقع میسر نہ تھے اور جن کے بارے میں گزشتہ ساٹھ سال سے سوچا بھی نہیں گیا تھا انہیں بیک وقت اس سکیم سے مستفید کیا جائے گا۔اس اسکیم کے تحت تمام گزٹیڈ افسران کو گریڈ میں آنے کی تاریخ سے 20,10 اور30سال کی ملازمت مکمل کرنے پر تین فائنانشل Upgradation کی یقین دہانی دی جائے گی۔یہ طریقہ کاربھارت سرکار میں نافذ العمل سکیم کے طرز پر ہو گا۔ اسکیم یکم اپریل 2018سے نافذ العمل ہو گی۔اس سکیم میں Allowances کے لئے ایک معقول ڈھانچے کے علاوہ دیہی علاقہ جات میں تعیناتی کیلئے ترغیب کا عنصر موجود رہے گا۔ خزانہ محکمہ اس سکیم کی تفصیلات کو مکمل کر کے 31مارچ 2018سے قبل مشتہر کرے گا۔ ملازمین کی رہائشی سہولیات کے بحران سے نکلنے کے لئے جموں وکشمیر بنک کے اشتراک سے ایک SPV بنانے کا فیصلہ کیا ہے جس کے تحت اگلے دو برسوں میں سرکاری ملازمین کو نئی رہائشی سہولیات فراہم کرنے کے لئے 500 کروڑ روپے کی سرمایہ کاری کی توقع ہے۔گذشتہ چند برس کاروبار کے لیے عام طورسے تباہ کُن رہے ہیں۔وہ چاہے سیاحت ہو، اشیاء سازی ہویاگھریلوصنعتیں ،سبھی کسی نہ کسی صورت میں بدحالی کاشکار ہیں۔جس کے لئے مقامی و غیر مقامی دونوں ہی طرح کے عوامل ذمہ وار ہیں۔حکومت ریاست میں GST کی عمل آوری کے نتیجے میں صنعتی رفتارکوہوئے نقصانات کے اثرات کوکم کرنے کاعزم کئے ہوئے ہے۔ہمارے اس عزم کے پیش ِ نظر دوSRO زیرنمبر SRO-519 اورSRO-521 کااجراء کیاگیا ہے تاکہ CGST کی 42% بازادائیگی ہوسکے ۔ جب کہ مرکزی سرکار نے صرف 58% CGST اُن صنعتوں کے حق میں دینے کاعہدکیاہے۔ریاست کی صنعتی اکائیوں کو CST 2% سے مُستثنیٰ رکھاگیاتھاجس کی وجہ سے جموں وکشمیرکی صنعت کو پڑوسی ریاستوں کے مقابلے میں اضافی باربرداری و متعلقہ اخراجات پر سبقت حاصل تھی۔ GST کے اطلاق کے بعدیہ مراعات دستیاب نہ ہونے سے ریاست میں صنعتی ترقی کودھچکالگاہے۔ سرکار اس کی تلافی کے لئے غور کر رہی ہے۔ریاستی حکومت ریاست میں قائم شدہ صنعتی اکائیوں کوباربرداری اورریاست سے باہر 1000 کلومیٹرتک سامان کی آمدورفت پرسبسڈی فراہم کرے گی۔ اس سلسلے میں محکمہ خزانہ ،محکمہ صنعت وحرفت کے ساتھ مشورے کے بعد ایک مناسب سکیم کااعلان کرے گا۔ریاستی حکومت اُن سبھی صنعتی اکائیوں کوSGST کی بازادائیگی کرے گی جوقبل ازیں VAT سے مُستثنیٰ تھیں۔ریاستی حکومت کی گذارش پرGST Council نے اخروٹ ،پیپرماشی اوربلّاسازی پرٹیکس کی شرح 12% سے گھٹاکر 5% کے زمرے میں لایاہے۔ قالینوں پر ٹیکس کو بھی 5% کے زمرے میں لایا جائے گا۔جہاں تک بجلی سے متعلق محصولات کاتعلق ہے میں نے ہوٹل اور ریزاٹس کوصنعتی اکائی کے ہم پلہ ماننے کافیصلہ لیاہے ۔یکم اپریل 2018 سے اب وہ بھی اُسی شرح پربجلی کرایہ اداکریں گے جس پرصنعتی اکائیاں اداکرتی ہیں۔چیف منسٹر بزنس انٹر سٹیٹ ریلیف سکیم کو شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیاہے۔سرکار RBIکے منظور شدہ اور از سر نو تشکیل دیئے گئے کھاتوں کے قرض خواہوں کے کُل سود،کا ایک تہائی حصہ ادا کرے گی۔با الفاظ دیگر ماہانہ قسط کا ایک تہائی حصہ سرکار ادا کرے گی جبکہ دو تہائی قرض خواہ کو ادا کرنا ہو گا-سال 2014 کی وزیراعظم کے سابقہ پیکیج کے تحت دیئے گئے آسان قرضوں کی عدم ادائیگی سے ہاؤس بوٹ مالکان غیر پیداواری اثاثے NPA بن چکے تھے،میں نے وہ رقم پچھلے سال ادا کی ۔البتہ میں محکمہ سیاحت کی طرف سے ابھارے گئے ہاؤس بوٹ مالکان کے 147 لاکھ 23ہزار روپے کے قرضہ جات جو انہوں نے جموں و کشمیر بینک اور SBI سے لئے تھے کو پچھلے بجٹ کی طرز پر یک وقتی چھوٹ کے زمرے میں لانے کی تجویز رکھتا ہوں۔صنعت کار اور ہوٹل مالکان کافی عرصے سے پاور ایمنسٹی اسکیم کی درخواست کر رہے ہیں ۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ایک روائتی قسم کے سخت گیر وزیر خزانہ ہونے کے بجائے میں قرض معاف کرنے کے معاملے میں فراغ دِل رہا ہوں۔ اور یہ نرمی بلا وجہ نہیں ہے۔جس طرح کے حالات کا ہم سب کو سامنا رہا ہے اور جن دشواریوں سے ہم گذرے ہیں ،اُن کا تقاضہ ہے کہ ہمارا رویہ نرم ہو ۔میں اُن تمام دوکانداروں کیلئے جن کا J&K Value Added Tax 2005 اور J&K General Sales Tax 1962کے تحت اندراج ہوا ہے کو ٹیکس کے بقایا جات پر جرمانے اور سود میں چھوٹ کی تجویز پیش کر رہا ہوں ۔ یہ معافی اُن ٹیلی کام آپریٹروں کے لئے بھی ہو گی جن کا جے اینڈ کے جنرل سیلز ٹیکس 1962کے ضوابط کے تحت اندراج ہو ا ہے۔سیاحت اور صنعت کے سیکٹر کو بڑھاوا دینے کے لئے میں نے صنعت کاروں ، ہوٹل مالکان اور سیاحتی مراکز کے مالکان کی طرف سے سرکار کو واجب الادا بجلی بقایا جات پر سود اور جرمانے کو معاف کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔اِس ضمن میں نپٹارے کے بنیادی خدو خال وضع کرنے کے لئے محکمہ خزانہ ایک تفصیلی سرکیولر جاری کرے گا ۔ غیر متوقع سیلاب نیز سال 2016ء کے خراب حالات کی وجہ سے متاثرہ چھوٹی صنعتوں کو Power Amnesty دینے کا فیصلہ کیا ہے ۔لہذا دسمبر 2017تک ان یونٹوں کے بجلی فیس کے بقایا جات پر سُود کی رقم اور جرمانے کی رقم معاف کرنے کی تجویز ہے۔محکمہ صنعت و حرفت کی جانب سے قرار دیئے ہوئے تمام بند پڑے صنعتی یونٹوں کے لئے میں بجلی کے واجبات پر سُود کی رقم و زائد رقم معاف کرنے کی تجویز رکھتا ہوں۔ریاست میں گزشتہ چند دہائیوں کے حالات نے ٹرانسپورٹ شعبہ کو بڑا دھچکا دیا ہے۔اس شعبہ سے وابستہ مسائل کا ازالہ کرنے کے لئے میں نے یکم جولائی 2016ء سے 31دسمبر 2016ء تک 6ماہ کے لئے ٹوکن ٹیکس اور پسینجر ٹیکس معاف کیا تھا ۔اس کے علاوہ 31مارچ 2017تک کے ٹوکن اور پسینجر ٹیکس کے تمام بقیہ واجبات بھی معاف کئے گئے تھے۔ان اقدامات سے ٹرانسپورٹر طبقے کے کرب میں کوئی کمی نظر نہیں آئی ہے اس لئے میں 31دسمبر 2017تک کے سبھی پسنیجر ٹیکس بقایا جات کو معاف کرنے کی تجویز رکھتا ہوں۔طلباکوجن کا تعلق کمزور طبقہ جاتSC/ST سے ہییا جو Single Mother Family سے ہیں اور جو CAT/GMAT/GRE/CFA/GATE/CLAT/USMLE/PLAB کے امتحانات پاس کرنے کے بعد ملک اور بیرون ملک متعدد یونیورسٹیوں میں پوسٹ گریجویٹ اور پی ایچ ڈی کورسوں میں داخلہ لینا چاہتے ہیں کیلئے تعلیمی قرضہ جات پر سُود کی رقم پر ،کورس مکمل کرنے تک چھُوٹ دی جائے گی۔ متعدد محکمہ جات کی جانب سے فی الوقت طلبا کو کثیر تعداد میں وظائف فراہم کئے جا رہے ہیں ۔ایک سے زائد وظائف کی حصولی ختم کرنے نیز اِن وظائف کے معقول اِنصرام کو یقینی بنانے کیلئے اس وقت ابتدائی اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں تاکہ ایسی درجنوں سکیموں کو تین سے چار سکیموں کے دائرہ کار میں مدغم کیا جا سکے۔یہ کاروائی آئیندہ چند ہفتوں کے دوران مکمل ہونے کی توقع ہے۔ NABARDکی اعانت سے چلائے جارہے Self Help Groups اورJoint Liability Groups کوتین لاکھ روپے تک کی Stamp Duty کی چھوٹ دی جائیگی تاکہ یہ Stamp duty ان اکائیوں کی راہ کاروڑہ نہ بنے۔کالج طالبات کے لئے وزیراعلیٰ کا سکوٹی پروگرام کا دائرہ دوسرے اضلاع تک بڑھانے کی تجویز رکھی جاتی ہے۔اس مقصد کے لئے میں ریاست کے باقی ماندہ ضلعوں میں کالج طالبات میں سکوٹی تقسیم کرنے کی خاطر 5کروڑ روپے فراہم کرنے کی تجویز رکھتا ہوں۔ہر مخنث کو بی پی ایل زُمرے میں شامل کیا جائے گا ۔سوائے تب کے کسی کی مالی حالت اس کے برعکس ہو ۔یوں ہر مخنث سستے داموں پر اناج ،رسوئی گیس ،اور بجلی کنکشن جیسی اُن سہولیات کا حقدار ہوگا جو بی پی ایل زمرُے کے لوگوں کو فراہم ہورہی ہیں ۔میری یہ بھی تجویز ہے کہ 60سال سے زیادہ عمر والے ایسے ہر مخنث کے لئے جس کا سماجی بہبود محکمے کے ساتھ اندارج ہو کو صحت اور زندگی کے حوالے سے مفت بیمہ کاری کے دائرے میں لایا جائے اور ساتھ ہی بزرگوںکو ملنے والی پینشن کی طرح ماہانہ وظیفہ فراہم کیا جائے ۔ایسے سبھی معاملات میں جہاں جنسی تبدیلی کے لئے جراحی ممکن ہو، سرکار علاج کا پورا خرچہ برداشت کرے گی ۔میں اس فلاحی اقدام کیلئے ابتدائی طور پر ایک کروڑ روپے مختص رکھنے کی تجویز رکھتا ہوں ۔ریاست میں قائم یتیم خانے اور اولڈ ایج ہوم خستہ حالت میں ہیں ۔ان کی مرمت رکھ رکھاو اور اس سے وابستہ بنیادی ڈھانچے کی ضروریات کے لئے میں 5کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز رکھتا ہوں ۔سرکارکے لئے کم لاگت والے مکانات ایک ترجیحی شعبہ ہے۔ اس سلسلے میں اگلے دوبرس کے دوران ریاست کے 35شہروں اورقصبوں میں کم از کم 15ہزار کم لاگت والے مکان تعمیرکئے جائیں گے جس کے لئے تفصیلی پروجیکٹ رپورٹ تیارکی گئی ہے۔سولنہ سرینگرمیں وولن سنیپنگ پلانٹ(Shoddy) 5کروڑ 56لاکھ،نوشہرہ سپننگ مِل 5کروڑروپے اوربڑی براہمناں میں سلک فیکٹری کاقیام 10کروڑروپے کی تخمینہ لاگت ہے۔اننت ناگ میں کرکٹ بیٹ صنعت کیلئے عالمی بنک نے اس کی تجدید وبحالی کیلئے 4کروڑ 34لاکھ روپے کی رقم فراہم کرنااصولی طورپرمان لیاہے۔اخروٹ پروسیسنگ کا کوئی بندوبست نہیں ہے ۔دُکھ کی بات یہ ہے کہ اخروٹ میں Value Addition کہیں اورہورہاہے ۔پبلک سیکٹر میں اخروٹ کے پودوں کی نرسری قائم کرنے کافیصلہ کیاہے۔پرائیویٹ سیکٹرمیں Walnut Processing یونٹ قائم کرنے کے لئے سود میں رعایت کی سکیم کے ذریعے سہولت فراہم کرنے کافیصلہ کیاہے۔قومی زعفران مِشن مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا دکھائی نہیں دیتاہے ۔زعفران کیلئے آبپاشی کانظام قائم کرنے کیلئے بھاری رقومات صرف کئے جانے کے باوجود اس سال اس شعبے میں اب تک کی سب سے کم پیداوار حاصل ہوئی۔زعفران کاشت کرنے والوں کوروایتی طریقہ کار پرواپس گامزن کرنے میں حوصلہ افزائی کیلئے میں 5کروڑ روپے مختص رکھنے کی تجویزپیش کرتاہوں۔ ا س کے ساتھ ساتھ ایک معقول مارکیٹنگ نظام بھی قائم کیاجائے گا۔ہمارا مشہور سیب بالآخر حیات نو کی راہ پر گامزن ہو رہا ہے سیب کی پیداوار میںبہتری کے آثار ہیں۔ہائی ڈینسٹی والے پودوں کی پہل زورپکڑرہی ہے ۔ریاست کی دیہی معیشت میں نمایاں بدلائوکی حامل والی اس پہل کوآگے بڑھانے کے لیے میں 25کروڑ روپے مختص رکھنے کی تجویزپیش کرتاہوں تاکہ باغات میں نئے پودے لگانے کے اس عمل کی مددکی جائے۔یہ کام باغبانی کامحکمہ انجام دیگا ۔اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے ریاستی سرکار نے پرائیویٹ سیکٹر کومزیدکولڈ سٹورقائم کرنے میں سرمایہ اورسودکی رعایت فراہم کرکے مدددینے کافیصلہ کیاہے ۔اس سکیم کی تفصیلات بھی باغبانی محکمہ کی مشاورت کے ساتھ مشتہرکی جائیں گی۔باغات سے سیب ڈھونے کے لیے کینٹینز خریدنے کے لیے 2کروڑ روپے کایک وقتی گرانٹ فراہم کرنے کافیصلہ کیاہے۔ریاستی سرکار بھارت سرکار کی وزارت ٹیکسٹائل کے ساتھ قالین بافوں کو دھاگے خریدنے کے حوالے سے Mill Gate Price Scheme کے دائرے میں لانے کا معاملہ اُٹھا رہی ہے۔قالین بافو ںکی تربیت کو بنک قرضہ جاتی سکیموں کے ساتھ منسلک کیا جائے ۔مقامی صنعتوں سے تیار کردہ دیگر مصنوعات پر ٹول ٹیکس وصول کیا جائے گا ۔ علاوہ ازیں یہ مصنوعات خریداری کے لئے سرکاری محکمہ جات کے لئے خریداری کی خاطر شناخت کردہ اشیاء متصور کی جائیں گی۔لکھن پور اور لورمنڈا پار کرنے والی تمام چھوٹی گاڑیوں پر اس وقت 80روپے فی گاڑی پر ٹول ٹیکس وصول ہوتا ہے ۔ریاست کی سیاحت کرنے والے سیاح اور اپنی گاڑیوں میں سفر کرنے والے مقامی مسافروں کو راحت پہنچانے کی غرض سے،میں نجی ہلکی موٹر گاڑیوں پر بنیادی ٹول ٹیکس منسوخ کرنے کی تجویز رکھتا ہوں۔بیرون ریاست سیب و دیگر میوہ جات،جن پر 80روپے فی کوینٹل ٹول ٹیکس وصول کیا جاتا ہے،پر اب کوئی ٹول ٹیکس عائد نہیں ہو گا۔مساوات کے تحت میں نے ریاست کے اندر پیدا شدہ تمام اقسام کے میو جات کو درآمد کرنے پر ٹول ٹیکس منسوخ کرنے کی تجویز رکھتا ہوں۔میں جپسم پر بھی ٹول ٹیکس منسوخ کر رہا ہوں۔متذکرہ بالا استشناء دینے سے محصولیاتی آمدن میں 100کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہو گا۔جموں وکشمیر لیوی آف ٹولز سے متعلق ایکٹ کے تحت ،لور منڈا اور ہیر پور ٹول پوسٹوں پر اندرون ریاست گاڑیوں کی نقل و حمل پر ٹول وصول کیا جاتا ہے ۔ ان دونوں ٹول پوسٹوں سے سالانہ 22کروڑ روپے کی آمدن حاصل ہے۔مجھ سے کئی لوگوں نے شکایت کی کہ ان پوسٹوں سے گزرتے وقت انہیں کافی کوفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے لہذا جموں وکشمیر کوایک واحد مارکیٹ بنانے کے لئے اور عام راہ گیر و گاڑی مالکان کو راحت پہنچانے کیلئے میں ہیر پور اور لور مُنڈا ٹول پوسٹوں کو منسوخ کرنے کی تجویز رکھتا ہوں۔ تاہم ان ٹول پوسٹوں میں معمور عملہ بدستور نگرانی اور قانون نفاذ کرتا رہے گا ، منسوخی کے اس اقدام سے اگر مقامی دکانداروں پر منفی اثر پڑتا ہے ،اُس کا تدارک کرنے کے لئے حکومت مستعد ہو گی ۔سگریٹ پر فی الوقت 4ہزار روپے فی کوینٹل ٹول ٹیکس عائد ہے۔ جبکہ تمباکو پر 290 روپے فی کوینٹل ٹیکس عائد ہے۔ میں تمباکو پر 290فی کونیٹل سے 400روپے فی کوینٹل ٹول ٹیکس بڑھانے کی تجویز رکھتا ہوں۔تجویز ہے کہ سال رواں کے دوران 80313 کروڑروپے کے اخراجات صرف کئے جائیں گے ۔ اس میں سے 29128کروڑ روپے کیپٹل مد کے تحت خرچ ہوں گے۔ریاست کی معیشت میں یہ اب تک کا کیپٹل مد میں سب سے بڑا خرچہ ہے۔تجویز یہ ہے کہ اس سال ہم 9000کروڑ روپے کے قرضے بازار سے حاصل کریں گے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 331 کروڑروپے زیادہ ہے۔ دوسرے الفاظ میں،میں 3282کروڑ روپے کا تعمیراتی خرچہ صرف 331کروڑ روپے کے قرضے کو لے کر کروں گا۔ان قرضہ جات اورکیپٹل اخراجات کے درمیان 1:10 کاتناسب ہے جوملک میں کسی بھی دوسری ریاست کے مقابلے میں سب سے اچھا ہے۔ریونیو آمدن کاتعلق ہے صورت حال کہیں بہتر ہے ۔اندازہ ہے کہ کُل ریونیو آمدن 64269کروڑ روپے سے زیادہ ہو گی ۔ نتیجتاً اِس سا ل بجٹ میں رقوم کے حوالے سے کوئی خلیج نہیں رہے گی۔
اہم نکات
٭ ملازمین کیلئے ساتویں تنخواہ کمیشن کا اطلاق یکم جنوری 2016سے ہوگا۔
٭ جولائی2017سے ایک فیصد مہنگائی بھتہ واگذار۔
٭فل پنشن حاصل کرنے کی عمر کی حد اب 20برس ہوگی۔
٭پنشنروںکیلئے5لاکھ تک میڈیکل انشورنس سکیم ۔
٭ڈیلی ویجروں کی ماہانہ تنخواہ میں اضافہ۔
٭پنچایتوں کیلئے فائنانس کمیشن کا قیام۔
٭ہینڈی کرافٹ اینڈ ہینڈلوم کارپوریشنوں کیلئے 10کروڑ مختص۔
٭ایس آر ٹی سی کے قرضہ جات اس سال ادا ہونگے۔
٭کسی بھی فوت شدہ ملازم کی غیر شادی شدہ بیٹی پنشن کی حقدار ہوگی۔
٭ذاتی حادثاتی انشورنس کی حد 10لاکھ بڑھا دی گئی۔
٭صنعتی یونٹوں کیلئے مال کے کرایہ میں سبسڈی دینے کا اعلان۔
٭ویٹ دینے والے صنعتی یونٹوں کو SGSTواپس دی جائیں گی۔
٭یکم اپریل سے ہوٹلوں کا بجلی فیس صنعتی یونٹوں کے برابر ہوگا۔
٭وزیر اعلیٰ بزنس انٹرسکیڈ ریلیف سکیم متعارف۔
٭19ہاوس بوٹ مالکان کا قرضہ معاف۔
٭ٹیکس دہندہ تاجروں کے بقایاجات پر سود معاف کرنیکا اعلان۔
٭صنعتوں، ہوٹلوں اور ٹورسٹ ریزاٹ کے بجلی فیس پر جرمانہ معاف۔
٭ٹرانسپورٹ شعبہ کے ٹوکن اور پسینجر ٹیکس پر جرمانہ اور سود معاف
٭طلباء کے تعلیمی قرضوں پر مقرر مدت کیلئے سود معاف
٭خواجہ سرائوں کیلئے تاحیات میڈیکل انشورنس اور ماہانہ مشاہرہ
٭آفات سماوی فنڈ کیلئے10کروڑ مختص
٭سبزیاں،ادویات،کھانڈ،نمک،چائے،صابن/ڈٹرجنٹ،صفائی ستھرائی کی اشیاء،تر ناریل،تخم گندم،درختوں کے لئے چھڑکاؤ تیل،اخباری کاغذ،گُڑ پر موصول ختم
٭ چھوٹی اور ہلکی پرائیوٹ گاڑیوں پر ٹول ٹیکس نہیں چڑھے گا
٭ریاست کے تمام میوہ جات پر ٹول ٹیکس میں چھوٹ
٭لور منڈا اور ہیر پور ٹول پوسٹس بند کرنیکی تجویز
٭جے ایند کے رینول انیر جی کارپوریشن کے قیام کا فیصلہ