پلوامہ میں ہوئے سی آر پی ایف جوانوں پر فدائین حملے نے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ سی آر پی ایف کے تقریباً۴۹ ؍ے زائد جوان اس حملہ میں اَمرہو گئے۔ اس خونین واردات نے ملک بھر میں غم کی لہر دوڑا دی ہے۔ اس خونی حملہ کے خلاف مودی سرکار نے سرحد پار فضائی حملہ کیا ۔ قومی میڈیا نے اس ہوائی حملے کو پاکستان کے خلاف منہ توڑ جواب سے تعبیر کیا ہے۔ اس کاروائی کو ہمارے جوانوں کے بلیدان کا بدلہ لینے کے ضروری بتایا گیا ہے۔ کیا سرحد پار جا کر حملہ کرنا ہی حکومت کے پاس واحد متبادل تھا؟اس سوال کو لے کر سب کی رائے ایک نہیں ہے۔ آج جب مین اسٹریم میڈیا نیوز روم میں بیٹھے بٹھائے ماحول کو بھڑکا ر ہے ہیں ، تب جنگ کی مخالفت کرنا بے حد مشکل ہوتا جارہا ہے ۔ جارحانہ قومیت اور دیش بھکتی کےنام پر بر سر اقتدار بی جے پی اپنے حریفوں پر جم کر نشانہ بنا رہی ہےمگر ان جماعتوں کی دیش بھکتی اس وقت نہیں جاگی جب ایک خاص طبقہ یا سماجی گروپ کو شک کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا تا ہے اور ان کی پوری جماعت کو اس کےلئے قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے۔دیش بھگتی کے ان خود ساختہ ٹھیکیداروں کو کون سمجھائے کہ دیش بھکتی کا یہ بھی تقاضہ ہے کہ قومی سوگ کی اس گھڑی میں ہمیں صبر کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ یہ وقت جذبات کے رو میں بہ جانے کا نہیں ہے۔ دُکھ کی اس گھڑی میں اس بات کا خیال رکھنا اور بھی ضروری ہے کہ بھائی چارے اور گنگا جمنی تہذیب کو قطعی نقصان نہ پہنچے ۔ یہ وقت الزام تراشی کا نہیں ہے اور نہ اس پر کسی کو گندی سیاست نہیں ہونی چاہیے۔ کسی بھی سیاسی جماعت کو اپنے حریفوں کو مورد ِالزام نہیں ٹھہرانا چاہیے۔ سب لوگوں کو مل جل کر تشدد کی اس آگ پر پانی ڈالنے کا کام کرنا چاہیے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ کا حل بات چیت اور ڈائیلاگ سےہی نگلےگا مگر افسوس کہ کچھ شرپسند عناصر اس موقع کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر قانون اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔اس پورے معاملے کو صرف ایک سیاسی پارٹی اور ایک لیڈر سے جوڑ کے پیش کیا جا رہا ہے اور ان کو ہی اس کا کریڈٹ دیا جا رہا ہے۔ یہ سب کچھ آئندہ پارلیمانی انتخابات کو مد نظر رکھ کر کیا جا رہا ہے مگر ان انسانیت سوز حرکتوں پر دھیان نہیں دیا جا رہا ہے۔ ملک کے مختلف حصوں میں اپنوں نے اپنوں ہی کے خلاف حملہ کر کے مٹھی بھر لوگوں نے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے اور اپنے حریفوں کو ٹارگٹ کر رہے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مفت کی مار کھانے وا لوں میں خصوصاًاقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والے ہیں ۔ کہیں کہیں بائیں بازو گروپس سے جڑے لوگوں کو بھی مار پٹائی کا نشانہ بنایا گیا ہے مگر سب سے زیادہ ٹارگٹ ملک میں زیر تعلیم کشمیر ی طلبہ وطالبات، بیوپاری، مزدور، پھری والے اور دیگر لوگوں کو بنایا گیا ۔ ان کو دھمکیاں بھی دی گئیں ۔یوں ایسا ماحول بنایا جا رہاہے گویا یہ چند مٹھی بھر شرپسند پورے سماج کی ترجمانی کر رہے ہوں مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے پیارے دیش کی غالب اکثریت کو ایسی گندی حرکتیں بالکل بھی پسند نہیں ہے۔ عام بے قصوروں کے خلاف ان بلوؤں نے ملک کی شبیہ کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہم سب کو یہ فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس طرح کی حرکتوں سے ملک مضبوط نہیں بلکہ کمزور ہوجائےگا۔ مشکل کی اس گھڑی میں ہمیں اور بھی زیادہ متحد ہونے کی اشد ضرورت ہے۔ جو لوگ اپنے ہی بھائیوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں ان کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ملک کی سالمیت واتحاد کا راز تنوع میں پنہاں ہے۔ اس ملک کی بنیاد کثرت میں وحد ت کے نظریہ پر ٹکی ہوئی ہے۔ یہ ملک سب کا ہے اور سب نے اس کی تعمیر میں رول اد ا کیا ہے۔ اس لیے کسی کو بھی کو دیش بھکتی کا سند جاری کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر اس بات کی سمجھ’’دیسی‘‘ حملہ آور وں کوہوتی تو وہ اپنے ہی بھائیوں اور برابر کے شہریوں پر دھاوا ہی نہ بولتےمگر افسوس صدا فسوس کہ کچھ لوگ اس بات کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں ۔ ان کا جارحانہ جذبہ ٔ قومیت اُلٹا ملک کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ ا ن کی ناقص سمجھ داری کی وجہ سے وہ ملک کے’’ دشمن ‘‘ کو اپنے آس پڑوس میں تلاشتے رہتے ہیں ۔ ان کو یہ سمجھنا چاہیے کہ دیش بھکتیکا تقاضایہ ہے کہ وہ کسی بھی ہندوستانی کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھیں اور ملک کے ہر شہری کی جان و مال اور آبرو کی بھارت کی ا کھنڈتا بنائے رکھیں ۔ محض شک، تعصب یا نفرت کی بنیاد پر کسی بھی قوم ، سماج اور فرقہ کو غدار وطن قرار دینا دیش بھکتی کیسے کہلا سکتی ہے؟ گر کوئی ملک دشمن سرگرمیوں میں ٹھوس ثبوت وشواہد کے ساتھ ملوث پایا جاتا بھی ہے ، تواس کے لیے پولیس ، انتظامیہ اور عدالت کافی ہے۔ کسی جمہوری نظام میں صرف شک کی بنیاد پر یا پھر تعصب سے متاثر ہو کر کسی سماجی گروپ کو ٹارگٹ بنانا آمریت کی بیماری ہے جس کا علاج کیا جانا ضروری ہے ۔ جمہوریت میں کنگار و کورٹ یا ہجومی تشدد کے لیے کوئی جگہ نہیں۔اگر کوئی فرد کسی غیر قانونی یا ملک مخالف حرکت میں شامل بھی پایا جاتا ہے تو اس کو اس کے پورے سماج سے جوڑ کر دیکھنا اور اجتماعی طور سے بدلہ لینے کی بات کرنا سراسر مجرمانہ فعل ہے۔ اگر ہم نے ایسا کرنا شروع کر دیا تو دنیا کی کوئی بھی قوم ، ذات یا برادر ی جرائم پیشہ یا دہشت گرد کہلائے بغیر نہیں بچ پائےگی ۔ ڈھونڈنے چلئے تو ہر کمیونٹی اور جاتی برادری کے اندر اچھے لوگ بھی ملیں گے اور بُرے بھی۔ یہی وجہ ہے کہ د ہشت گردی پر کسی خاص مذہب یا قوم کی اجارہ داری نہین ، نہ اسے ان چیزوں سےجوڑ کر دیکھا جانا چاہیے ۔ مانا کہ ہمارے یہاںکچھ کٹر پسندلوگوں کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ، مگر خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہاہے کہ بعض عناصر یہ سب کچھ دیدہ ودانستہ ایک منصوبے کے تحت کر ر ہے ہیں۔
ملک کے آئین نےکسی کو بھی یہ ذمہ داری نہیں سونپی ہے کہ وہ بزعم ِخویش ’’غدارانِ وطن‘‘ تلاش کریں یا خودجج اور وکیل بن کر اان کو سزا دے۔ اس طرح کی غیر قانونی حرکتیں سماج کو لا قانونیت کی طرف لے جاتی ہیں ۔ اگر کوئی واقعی میں ملک کے لیے خطرہ ہو تو اس سے روکنے کے لئے پولیس ، آرمی، عدالت اور حکومت موجود ہیں ۔ جمہوری ملک ہونے کی وجہ سے دہشت گردی کے حساس معاملے تک میں پکڑے گئے فرد کو بھی اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے عدالت میں پیش ہو کر اپنا دفاع کرنے کا لازماًموقع دیا جاتا ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کو بھی سزا دینے سے پہلے اپنی بات رکھنے کے لیے عدالت میں پیش کیا گیا مگر کچھ نام نہاد دیش بھکت ان جمہوری اصولوں کو فراموش کر خود ہی قانون کو ہاتھ میں لے بیٹھے ہیں ۔ان کی گھٹیا حرکات دیکھئے۔ ان کے ہاتھوں ملک کے مختلف حصوں میں کشمیریوں کے اوپر حملہ کئے گئے ۔ یہ حملے جموں ، بہار، دہردون، مہاراشٹر، کولکتہ وغیرہ علاقوں میں ہوئے۔ پٹنہ میں ان کی دوکانوں پر حملے ہوئے ، مہاراشٹر میں کشمیری طلبا کو نشانہ بنایا گیا اور ان کی تذلیلیںکی گئیں۔ ایک وائرل ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ حملہ آور بھائی پٹیل کالج آف فزیکل ایجوکیشن میں تعلیم لے رہے کشمیری طلبا کو جرم بے گناہی کی پاداش میں پیٹ رہے تھے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ان حملہ آوروں کا تعلق شیو سینا کی یوا تنظیم سے تھا ۔ تشویش کی بات یہ ہے کہ جو بی جے پی کی حکومتی اتحادی شوسینا حکومت کا آئینی فرض یہ ہے کہ وہ تما م شہری کی جان و مال کی حفاظت کرے، جب کہ وہ اس طرح کے حملوں میں ملوث پائی جا رہی ہے۔ عوام کا محافظ ہی وہاں حملہ آور بن بیٹھے تو کیا کہئے۔ اس سے بھی زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ کچھ لوگ ایسے وحشیانہ حملوں کو جائز دیش بھگتی کے نام پر صحیح قرار دے رہے ہیں ۔ ان کی یہ متعصبانہ بلکہ مریضانہ رائے یہ ہے کہ کشمیریوں پر یہ حملے پلوامہ میں ہوئے دہشت گردانہ حملے کا قدرتی نتیجہ تھا۔ ایسے لوگوں کو کون سمجھائے کہ پلوامہ حملہ اور کشمیرطلبہ وتاجرین کا باہم دگر کوئی تعلق نہیں بنتا ہے۔ اگرکاروائی ہونی چاہیے تو ان کے خلاف ہونی چاہیے جن کا ہاتھ مذکورہ فدائی حملے میں رہا ۔ حالانکہ اس حملے کے بارے میں ابھی بھی تصویر پوری صاف نہیں ہو پائی ہے۔ حزب اختلاف نے مرکز سے اس پر جانچ بیٹھانے کا مطالبہ کیا ہے۔ خیا ل رہے کہ جس طرح ملک کے مختلف حصوں میں کشمیری نوجوان تعلیم ، تجارت ، ملازمت ،علاج ومعالجہ یاسیاحت کی غرض سے قیام پذیر ہیں، اسی طرح کشمیر میں ملک کی مختلف ریاستوں سے گئے ہوئے لوگ وہاں نوکری یا محنت مزدوری کر رہے ہیں ۔ مثال کے طور پر میری خود کی جنم بھومی ریاست بہار سے بھی کافی تعداد میں کشمیر میں مزدور کاریگری کا کام کر کے چارپیسے کماتے ہیں۔ میرے گاؤں کا دوست چھوٹو کشمیر میں پینٹنگ کا کام کرتا ہے اور اس نے ہمیشہ کشمیریوں کی مہمان نوازی اور خوش مزاجی کی تعریفیںکی ہیں۔ یہ اچھی بات ہے کہ سپریم کورٹ نے کشمیروں پر ہو رہے ناروا حملوں کو روکنے کے لیے ریاستی سرکاروں کو حکم دیا کہ ان کی جان و مال کی حفاظت کرنے کیلئے ہر طرح کے موثر اقدام کئے جائیں۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی تاخیر سے ہی سہی اس طرح کے حملوں کی مذمت کی ہے۔ اُمیدہے کہ اب یہ حملےماضی کی بھولی بسری یادیں بنیں گے۔ یاد رکھئے داخلی امن ملک کے لیے بہت ضروری ہے اور یہ تب اور بھی زیادہ ضروری ہو جاتا ہے جب ملک نازک لمحات سے گزر رہا ہو۔ اس ضمن میں ہم سب کی مخلصانہ کوشش ہونی چا ہیے کہ آپسی اتحاد اور محبت کی زنجیر کبھی نہ ٹوٹنے نہ پائے۔
نوٹ :مضمون نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں ۔