سرینگر // ملکی و غیرملکی سیاحوں کو کشمیر کی خوبصورتی اور مہمان نوازی سے لطف اندوز ہونے کی دعوت دینے کے باوجود بھی اپریل کے مہینے میں اس شعبہ سے جڑے افراد مہمانوں کا انتظار کر رہے ہیں ۔ محکمہ سیاحت سیاحوں کے کشمیر آنے کی اُمید لگائے بیٹھا ہے، وہیں شکارامالکان ،ہوٹلرس اورٹریول ایجنٹ اس لئے مایوس ہیں کہ کشمیر کے متعلق سوشل میڈیا اور ٹیلی ویژن چینلوں پر منفی پروپگنڈا سیاحوں کو یہاں آنے سے روکتا ہے ۔محکمہ سیاحت میں موجود ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ گذشتہ سال2018میں صرف 8.5 لاکھ سیاحوں نے خوبصورت وادی کی سیر کی جبکہ سال 2017میں 11لاکھ سیاح وارد کشمیر ہوئے۔سب سے چونکا دینے والی بات یہ ہے کہ 2016میں برہان وانی کی ہلاکت کے بعد ہلاکتوں سے پُر عوامی ایجی ٹیشن کئی ماہ تک رہنے کے باوجود بھی قریب 12.12لاکھ سیاح کشمیر کی خوبصورتی سے لطف اندوز ہوئے ۔ کشمیر عظمیٰ کو دستیاب سرکاری اعداد وشمار کے مطابق سال 2015میں 9.27 لاکھ ، سال2014میں 11.67 لاکھ ،سال2013میں 11.71 لاکھ اورسال2012میں سب سے زیادہ یعنی 13,08,765سیاحوں نے کشمیر وادی کا رخ کیا ۔سیاحت شعبے سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ اس سال ابھی تک گذشتہ برسوں کے مقابلے میں 5فیصد سیاح بھی کشمیر وادی نہیں آئے ہیں ۔اُن کا کہنا ہے کہ جہاں کشمیر کے ہوٹل خالی ہیں، وہیں930 ہاوس بوٹ مالکان بھی سیاحوں کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں۔ اسی طرح 4200 کے قریب شکارا مالکان بھی کافی پریشانی میں مبتلا ہیں ۔شکارا ایسوسی ایشن کے صدر ولی محمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اس وقت پورے ڈل میں 4168شکارے موجود ہیں لیکن کام نہ ہونے کے برابر ہے، صرف ایک یا دو شکارا مالکان کو ہی دن میں کام ملتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اپریل کے مہینے میں ڈل میں سیاحوں کو لیکر شکارامالکان خوب کماتے تھے ،لیکن پچھلے سال کی طرح اس سال بھی اپریل کے مہینے میں سیاحوں کا وادی نہ آنا پریشان کن ہے ۔
انہوں نے کہا کہ سیاح کشمیر کی طرف اس لئے اب کم آتے ہیںکیوں کہ نیشنل میڈیا کی جانب سے کشمیر کے حالات کے بارے میں منفی پروپگنڈا چلایا جاتاہے جبکہ کئی ایک ٹریول ایجنٹ بھی سیاحوں کو کشمیر کو چھوڑ کر دیگر جگہوں پر جانے کو کہتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ سرکار کی جانب سے بھی کشمیر میں سیاح لانے کیلئے کوئی بہتر اقدام نہیں اٹھائے جاتے ہیں ۔بلیوا رڈروڑ پر قائم ایک ٹریول ایجنسی کے مالک تنور احمد خان کہتے ہیں ’ مارچ کے مہینے سے ہی انہیں بیرون ریاستوں اور ممالک سے سیاحوں کی بکنگ مل جاتی تھی، لیکن اس سال مارچ اور اپریل میں اُن کے پاس صرف ایک ہی سیاح کی بکنگ ہوئی ہے‘‘ ۔ وادی کی معروف ٹریول ایجنسی گلوبل ٹرپ کا کہنا ہے کہ اپریل اور مئی کے وسط تک خاص کر مہاراشٹرا سے سب سے زیادہ بکنگ ہوتی رہی ہیں، کیونکہ اس دوران وہاں سکولوں کی چھٹیاں ہوجاتی ہیں لیکن انتخابات کی وجہ سے سبھی بکنگ منسوخ ہوگئی ہیں، اس طرح مارچ اپریل اور مئی کا ٹوریسٹ سیزن ختم ہوگیا ہے۔انکا کہنا تھا کہ اب ستمبر پر نظریں مرکوز ہیں،اور اس بارے میں بھی کچھ وثوق کیساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا۔یونس خان نامی ایک ہوٹل کے مالک کا کہنا ہے کہ اُس کے ہوٹل کے 18کمرے ہیں لیکن مارچ سے ابھی تک صرف 3کمروں کی بکنگ ہوئی ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ پچھلے 30برسوں سے اسی شعبہ کے ساتھ وابستہ ہیں لیکن پچھلے دو برسوں میں جس طرح سے سیاحوں کی تعداد میں کمی ہوئی اُس سے یہاں کا سیاحتی شعبہ زوال پذیر ہو گیا ہے۔انہوں نے کہا کہ بیرون ریاستوں میں ٹرول ایجنٹ سیاحوں کو کشمیر جانے سے منع کرتے ہیں اور انہیں دوسری ریاستوں میں بھیجا جاتا ہے ۔ایک ہاوس بوٹ مالک عاقب احمدنے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ اُس کے ہاوس بوٹ میں پانچ ملازم کام کرتے تھے لیکن دو برسوں میں مالی حالت اس قدر خراب ہو گئی کہ اُسے ملازمین کی چھٹی کرنی پڑی۔عاقب کے مطابق وہ اب خود ہی نہرو پارک میں موجود اپنے ہاوس بوٹ کی رکھوالی بھی کرتا ہے اور سیاحوں کا انتظار بھی ۔اُس کا کہنا ہے کہ ابھی تک اُس کے پاس کوئی بھی سیاح نہیں آیا ہے ۔ یہی حال گلمرگ، پہلگام ، یوس مرگ ،سونہ مرگ اور دودھ پتھری کا بھی ہے۔ وہاں پر بھی بیرون ریاستوں اور ممالک سے آنے والے سیاحوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔
ڈائریکٹر ٹورازم کشمیر نثار احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ سال2018میں ساڑھے 8لاکھ سیاحوں نے وادی کی سیر کی ۔انہوں نے کہا کہ سیاحوں کو وادی کی طرف راغب کرنے کیلئے محکمہ سیاحت کی جانب سے بیرو ن ممالک تھائی لینڈ ، ملیشیاء اوربنگلا دیش میں ٹیموں کو روانہ کیا گیا تھا جبکہ ممبئی ، پونا ، ناگپور ، احمد آباد ، کولکتہ ، بنگلور ، حیدآباد کے علاوہ دیگر کئی ایک جگہوں پر ایک سے دو بار ٹیموں نے وہاں کا دورہ کیا اور سیاحوں کو کشمیر آنے کی دعوت دی گئی ۔انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ اس سال کافی تعداد میں سیاح وادی آئیں گے ۔انہوں نے کہا کہ فروری کے مہینے میں تھوڑی سی مشکلات پیش آئی تھیں لیکن اب دوبارہ سے سیاحوں کے آنے کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ۔