قدرت نے انسانی وجود کو گوشت ، پوشت ،خون ،اَعصاب، اعضائ، جوارح اور تنفس کی ایسی رنگ آمیزی سے اس انداز میں ترتیب دیاہے کہ یہ سبھی اجزا ء ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بھی ہیں اور علیحدہ بھی۔ نفسِ انسانی اپنے آغاز سے مادی کشمکش اور عجیب وغریب قسم کی بحرانی کیفیت سے دوچاررہاہے۔انسان کے سامنے قدرت نے مال ومتاع اور سرمایۂ و مادہ کے بڑے بڑے ذخیرے رکھے ہیں اور ان ذخیروں کو فطرت نے انسان کے لئے ایسے مسخر کررکھاہے کہ وہ جب بھی اور جہاں بھی چاہے ان ذخائر سے اپنے لئے نفع ، آرام ،آسائش اور آرائش کے اسباب پیداکرسکتاہے ۔ انسان کے رہنے سہنے اور جینے مرنے میں مادی وسائل اور اسباب وعلل کا ہونالازمی ہے ، یہ اسباب،یہ ذرائع ، یہ وسائل ،یہ لذات وشہوات اور سونے چاندی کی جگمگاہٹ وجودانسانی کے لئے ضروری بھی ہیں اور باعثِ زینت بھی ۔ چنانچہ مذاہب ِعالم میں اسلام کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ یہ دُنیا اور عقبیٰ کے درمیا ن ایک خوشگوار توازن پیداکرتاہے ۔یہاں غارنشینی ،گوشہ گیری اور دُنیا سے فرار کے بجائے جہاں بانی ،حکمرانی ،خدمت ِخلق اور رفاہِ عام کا تصور کارفرماہے ۔ یہاں سیادت ،سیاست اور امارت کی بنیاد خیرعام پر قائم ہے اور نیکی کے مقام پر سرفراز ہونے کے لئے محبوب امورواشیاء کو خرچ کرنے سے منسلک کردیا گیا ہے ۔
عصر حاضر اپنی ظاہری اور باطنی صورت وہیئت کے اعتبار سے گزشتہ اعصا واَدوار سے بدرجہا بہترہے ،کیونکہ انسانی دُنیا کو آرام وآسائش کی بے پناہ سہولیات اور مادّی ومعاشی لحاظ سے لاتعداد مراعات حاصل ہوئیں،لیکن ان تمام سہولتوں ، رعایتوں اور عیش ونشاط کی فراوانیوں کے ہوتے ہوئے انسان سکونِ قلب کے لئے تڑپ رہاہے۔ مادیت ،مادہ پرستی ، جاہ پسندی ،حب دنیا اور خودبینی عہد حاضر کے انسان پر ایسے مسلط ہوچکی ہے کہ اس سے گلوخلاصی اور رہائی کے امکانات بہت کم نظر آرہے ہیں۔زندگی کا کوئی شعبہ ایسا دکھائی نہیں دیتاہے جہاں میٹریل اِزم نے اپنے خیمے نہیں گاڑ دئے ہیں ۔ انسانی سماج کے دو اہم شعبے تعلیم اور صحت جوتقدیس اور عظمت کے جملہ محاسن سے مزین تھے، آج بدترین قسم کے مادی اور مالی اداروں میں تبدیل ہوکر رہ گئے ہیں ۔ ان مقدس شعبوں میں روشنی ، بیداری ،خدمت اور خیر وفلاح کے سارے عناصر معدوم نظر آتے ہیں،یہ مشن کے بجائے اب پروفیشن اور اصلی کے بجائے نقلی کرنسی کے نوٹ معلوم ہوتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ایک معمولی استثنیٰ کو چھوڑ کر مردم سازی کے بجائے قمار بازی اور مراکز صحت ، کلینک اور طبی تجربہ گاہیں بے بس اور نحیف و ناتواںبیماروں سے بڑی بڑی رقومات اینٹھنے کے مقامات بن چکے ہیں ۔ البتہ کہیں کہیں انسانیت ، خدمت اور محبت کے آثار اب بھی ان مراکز میں یقیناً موجود ہیں،لیکن مجموعی طور معاشرے کا ذہنی سانچہ ایک ایسی صورت میں ڈھل گیا ہے ، جہاں اب ہر عمل اور ہر ادا کو مادی نقطہ نگاہ سے دیکھا جاتاہے ۔ بازار میں ،دفتر میں ،تعلیمی مرکز میں یا بس کے سفر میں موبائل گفتگو سے خیروعافیت کے بجائے تجارت اور مادیت کے اُلجھے ہوئے جملے ،نفسیاتی بحران، ذہنی دبائو،عائلی زندگی کے منفی پہلو، دھوکہ دہی اور جعلسازی کے ایسے کلمات شنیعہ سننے میں آتے ہیں جو سراسر مادہ پرستی کے دائروں میں سمٹتے نظر آتے ہیں ۔
کئی سال پہلے راقم السطور نے ایک مغربی نومسلم دانشور محمد اسد(لیوپیڈبیس ویس) کے قبول اسلام کا واقعہ پڑھا تھا۔ وہ مغرب کے تاجرانہ اور مادہ پرستانہ طریق زندگی پر ایک بار سوچ رہا تھا۔ لوگوں کے معیارِ زندگی میں حیران کن تبدیلی، سہولیاتِ زندگی کی ازحد فراوانی، اور ہرشعبے میں ہمہ گیر پیش رفت کے باوجود انسان کے چہرے پر مایوسی ، افسردگی ، پریشانی ، عجلت پسندی اور بے قراری کے اسباب کیا ہیں ؟ اس اہم نکتہ پر مرحوم اسد صاحب غوروفکر کر رہے تھے کہ معاً ان کے ذہن میں یہ خیال آگیا کہ کیوں نہ اس اہم سوال کا جواب اس کتابِ مقدس سے پوچھیں، جو زندگی کی تمام گتھیوں اور انسان کی مایوسیوں کا روحانی وآسمانی علاج فراہم کرتی ہے۔ نومسلم مفکر محمد اسد نے قرآن پاک کا نسخہ ہاتھ میں اٹھایا ۔ اس کی نظر دفعتاً پارۂ عم کے سورۂ التکاثر پر پڑی جہاں فرمایاگیاہے: (ترجمہ):-’’تم لوگوں کو زیادہ سے زیادہ دنیا حاصل کرنے کی دُھن نے غفلت میں ڈال رکھاہے۔‘‘
محمد اسد کے تن بدن میں تلاطم پیدا ہوگیا ،ایک گہری تبدیلی رونما ہوئی ۔ ان کے سوال کا کافی وشافی جواب قرآن نے بتایا اور امر واقعہ بھی یہی ہے کہ کثرتِ زر اور مادّیت کی تلاش میں انسان کی زندگی کے مستعار لمحات چلے جاتے ہیں او راس تلاش وجستجومیں انسان اپنے پیدا کرنے والے کی خوشنودی اور اطاعت سے اس قدر دور چلاجاتاہے کہ بعد میں تلافی کی صورت نظر نہیں آتی ۔ غالبؔ کو بھی اس بات کا بعد میں احساس ہوچکا تھا ؎
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی
دہلیؔکے ایک بزرگ نے جب یہ شعر سنا تو انہوں نے اس پر گرہ باندھی اور فرمایا ؎
میں اسی منہ سے کعبے جائوں گا
شرم کو خاک میں ملائوں گا
ان کو رو رو کے میں منائوں گا
اپنی بگڑی کو میں بنائوں گا
مذاہب ِ عالم کی تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے ہم آہنگ ہیں جہاں اللہ کے پاکباز بندوں نے مادیت کی ساری صورتوں اورحیثیتوں کو نفرت کی نگاہوں سے دیکھا۔ زرپرستی کی جملہ خصوصیتوں کو اپنے نزدیک پھٹکنے نہ دیا،دُنیا اور دُنیا داری سے دل نہیں لگایا ، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سرمایہ ، مادہ، سیم وزر، زمین ، باغات اور محلات انسان کو عموماً گمراہی اورخدافراموشی کی طرف مائل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ہرعہد میں انسان مادیت ،نفس پرستی اور جاہ پسندی کا شکار رہاہے لیکن عہد جدید میں ماضی کے سارے ریکارڈ مات ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔مشرق ومغرب میں انسانی فکر پر نفس پرستی اس قدر غلب ہے کہ سارے رشتے ناطے، محبت اور شرافت کے سبھی سلسلے ٹوٹ پھوٹ کے شکار ہوتے نظر آرہے ہیں ۔مادیت کی اس رسہ کشی میں ہرخواندہ اورناخواندہ ایک دوسرے پر سبقت لینے میں کوئی کمی نہیں دکھارہے ۔ خواندہ لوگ باوجودِ فکر وفہم اور علم ودانش کے ناخواندوں سے کئی قدم آگے ہیں ۔چنانچہ برصغیر میں بڑے مالیاتی گھپلوںاور ہیراپھیری کے سکینڈلوں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ ہی شامل ہیں جن کے خلاف عدالتوں اور کمیشنوں میں مقدمات زیر سماعت ہیں ۔انسان بہرحال غلطیوں اور خامیوں کامرکب ہے او ریہ اس کی فطرت کا تقاضہ بھی ہے لیکن دُنیا وی زندگی بناتے وقت نفس انسانی کو اعتدال ، توازن اورتدبر سے کام لے کر مادیت کے عناصر کو پامال کرنا چاہئے اور حلال ذرائع سے دولت وثروت جمع کرکے اسے فلاحی اور رفاہی کاموں میں بھی خرچ کرکے سکون وطمانیت کی بیش بہا دولت سے سرفراز ہوناچاہئے ۔
………………………
رابطہ…ڈین فیکلٹی آف آرٹس، کشمیر یونیورسٹی
موبائل نمبر:-9797291694