شاہد حسین
زبان محض بولنے کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک زندہ تہذیب کی سانس ہے۔یہ وہ پُل ہے جو نسلوں کو ایک دوسرے سے جوڑتا ہے، ماضی کو حال سے باندھتا ہے، اور دل کے جذبات کو لفظوں میں ڈھالتا ہے۔مادری زبان انسان کی پہچان کا وہ لباس ہے جس میں اس کی تاریخ، تمدن، ثقافت اور احساسات سمٹے ہوتے ہیں۔مگر افسوس! آج ہم اپنی اسی پہچان سے غافل ہوتے جا رہے ہیں۔ہماری گفتگو، تعلیم، اور روزمّرہ زندگی میں کشمیری زبان آہستہ آہستہ پس منظر میں چلی گئی ہے۔ہم نے اپنی زبان کو کمتر سمجھ لیا، اور غیر ملکی زبانوں کو برتری کا نشان بنا لیا۔ کشمیری زبان کا زوال ایک خاموش المیہ ہے۔کبھی کشمیری بولی گھر گھر کی زبان تھی۔گلیوں میں، بازاروں میں، محفلوں میں اس کی مٹھاس گونجتی تھی۔مگر آج صورتِ حال مختلف ہے۔والدین اپنے بچوں سے کشمیری میں بات کرنے میں جھجک محسوس کرتے ہیں،اسکولوں میں کشمیری زبان کو نصاب میں حاشیے پر ڈال دیا گیا ہے،اور مئی نسل کے لئے اپنی زبان میں بولنا ’’قدامت‘‘ کی علامت بن چکا ہے۔یہ وہ خاموش المیہ ہے جو ہماری تہذیبی روح کو نگل رہا ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ انگریزی یا اردو میں بات کرنا ہی ’’ترقی‘‘ کی نشانی ہے۔لیکن دراصل یہ احسا ِس کمتری کی علامت ہے جو ہماری جڑوں کو کمزور کر رہی ہے۔
زبان دل کی گہرائیوں سے جنم لیتی ہے۔جب بچہ اپنی ماں سے پہلی بات کرتا ہے تو وہ الفاظ کسی کتاب یا اسکول سے نہیں سیکھتا —بلکہ اپنی ماں کی زبان سے سیکھتا ہے۔وہی زبان اس کے احساسات، عقیدت، محبت اور فکر کا آئینہ بن جاتی ہے۔اگر ہم اپنے بچوں سے کشمیری میں بات کرنا چھوڑ دیں،تو ہم صرف ایک زبان نہیں بلکہ احساسات کا رشتہ توڑ دیتے ہیں۔اسی لیے آج کی نسل کے پاس اظہار تو ہے مگر احساس نہیں،الفاظ ہیں، مگر جذبات کی خوشبو نہیں۔ہم نے ترقی کو زبان کی قربانی سے جوڑ لیا ہے۔ہم سمجھ بیٹھے ہیں کہ اگر ہم کشمیری چھوڑ کر انگریزی اپنائیں تو ہم ’’مہذب‘‘ ہوجائیںگے۔مگر ذرا دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو دیکھیں،جاپان، چین، ترکی، ایران ،ان سب نے اپنی مادری زبانوں کو مضبوطی سے تھاما ہوا ہے۔انہوں نے سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی اور تعلیم کو اپنی زبان میں فروغ دیا۔انہوں نے دنیا کے ساتھ چلنے کے لیے اپنی زبان نہیں بدلی بلکہ اپنی زبان کو طاقت بنایا۔
اور ہم؟ہم نے ترقی کے نام پر اپنی کشمیری زبان کو پس ِ پشت ڈال دیا۔
اب بھی وقت ہے۔اگر ہم نے اپنی مادری زبان کے لیے آواز نہ اٹھائی،تو آنے والی نسلیں اپنی زبان صرف تاریخ کی کتابوں میں پڑھیں گی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ
گھروں میں کشمیری بولنے کو فخر سمجھا جائے،اسکولوں میں کشمیری مضمون کو الزمی اور دلکش انداز میں پڑھایا جائے،ادبی محفلوں، ریڈیو، اور میڈیا میں کشمیری زبان کو نمایاں جگہ دی جائے۔ہمیں اپنی زبان کو محض روایت نہیں، زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔زبان کو زندہ رکھنا ہماری قومی و ثقافتی ذمہ داری ہے۔یا رکھیں کہ زبان کی موت دراصل قوم کی موت ہوتی ہے۔جب قوم اپنی زبان بھول جاتی ہے، تو وہ اپناماضی، اپنی تہذیب اور اپنی پہچان سب کچھ کھو دیتی ہے۔کشمیری زبان ہماری روح کی آواز ہے۔یہ وہ روشنی ہے جو ہمارے ماضی سے حال تک کا رشتہ جوڑتی ہے۔اگر ہم نے اس زبان کو بچا لیا تو ہم نے اپنے کلچر، اپنی تاریخ اور اپنی شناخت کو بچا لیا۔
یاد رکھیے :قومیں ہتھیاروں سے نہیں، فراموشی سے مٹتی ہیں۔اگر ہم اپنی کشمیری زبان کو زندہ رکھیں،تو ہم نہ صرف اپنے لفظوں بلکہ اپنے وجود کو بھی زندہ رکھیں گے۔کیونکہ جب الفاظ اپنی جڑیں بھول جائیں،تو انسان اپنی پہچان کھو دیتا ہےاور جب انسان اپنی پہچان کھو دے،تو پوری تہذیب خاموش ہو جاتی ہے۔
رابطہ۔6005339879