تاثرات
شہباز رشید بہورو
مغربی تہذیب اپنی تاریخ کے اس مرحلے سے گذر رہی ہے جہاں اس نے الٹرا موڈرن ٹیکنولوجی Ultra modern Technology)کا مکمل سہارا لے کر مشرق و مغرب کے مذہبی ،روایتی اور قومی تشخص پر اپنی کمند کس لی ہے اور اس طرح سے یہ تہذیب اپنی موجودگی کو ہر شخص کے اندر بنانے میں کامیاب ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے ۔اس تہذیب کا شر اور فساد تو دنیا کا امن وسکون پچھلی دو تین صدیوں سے غارت کرتا آرہا ہے ۔لیکن جو سنسنی خیز بات مجھے پیش کرنی ہے وہ یہ ہے کہ مستقبل میں الٹرا ماڈرن ٹیکنولوجی کی مکمل کفالت کی ذمہ داری لیکر (مغربی تہذیب) شرفِ انسانیت ،احساس روحانیت اور تقدیسِ تعلقات (Sanctity of relationship)کو پستی کے کس درجے تک دھکیل دیا جائے گا وہ نہایت خطرناک اور تباہ کن ہوگا ۔جس کا معنی یہ ہوگا کہ اصل قیامت سے پہلے چھوٹی چھوٹی قیامتوں کا واقعہ ہونا انسانوں کو بس نرا حیوان بنا کر بڑی قیامت کے حوالے کرے گا۔مستقبل کے اس منظر نامے کا ایک عکس (ہر فکر مند شخص عالمی سطح پر معاشرتی ،سیاسی اور معاشی تبدیلیوں کا جائزہ لے کر اپنے آس پاس کے سماج میں نوجوان نسل پر ٹیکنولوجی کے مرتب اثرات کا گہرائی سے مشاہدہ کرکے)دیکھ سکتا ہے ۔ہم ذیل میں مختلف الٹرا ماڈرن ٹیکنولوجیز کا انسانی دنیا پر متوقع اثرات کا مختصراً جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔مصنوعی ذہانت (Artificial intelligence)عام طور پر مصنوعی ذہانت کے متعلق ان خدشات کا اظہار کیا جاتا ہے کہ اس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوگا ،تخلیقی صلاحیت ختم ہوگی اور ماہرانہ اہمیت ماند پر جائے گی وغیرہ وغیرہ ۔لیکن ان تمام خدشات کو قبول کرتے ہوئے جو سب سے بھیانک اثرات ہمارے معاشرے پر مرتب ہوسکتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں :
۱۔ انسانوں کو مشینی و تکنیکی لذت (Technomechanic lust)کی لت پڑ جائے گی ۔
۲۔ایک انسان کے اندر دوسرے انسانوں سے خوف یا دوری (Anthrophobia) والا نفسیاتی رجحان پیدا ہوگا ۔
۳۔انسانوں کو ٹیکنولوجی پر جنونی اعتقاد (Obsessive trust in technology )حاصل رہے گا۔
۴۔انسان کو مشینوں سے محبت (Technophilia)اور دوسرے ہم نوع انسانوں سے نفرت ہوگی ۔
۵۔ایک انسان دوسرے انسان کے لئے مشکوک اور ناقابلِ اعتبار ٹھہرے گا اور اس کے برعکس مشینوں ،روبوٹس اور مختلف Software Apps کو کامل اور حتمی تسلیم کیا جائے گا ۔
۶۔ہر معاملے میں مشینیں انسان کی جگہ لیں گی یہاں تک کہ شوہر اور بیوی کا مقام روبٹس لیں گے ۔
ان نفسیاتی رجحانات سے مذہب ،اخلاق ،انسانیت اور تعلقات کی حرمت وتقدس کس طرح پامال ہوگا وہ سوچ کر بھی انسان لرز اٹھتا ہوں ۔
مصنوعی ذہانت لوگوں کی بنیادی فطری ساخت و پرداخت میں تغیر برپا کر کے ان کے مزاج و طبیعت ،احساسِ لذت اور انداز اخذ و ادراک کو نیا فریم پیش کررہی ہے جس میں انسان کو فٹ کرنے کی کوشش مغربی تہذیب کے علم بردار تن من دھن سے کر رہے ہیں ۔مشینوں اور ڈیجیٹل ذرائع پر انسان کے مکمل انحصار کو فلسفی مارٹن ہائی ڈیگر نے ان فریمنگ (Enframming)کے تصور سے سمجھانے کی کوشش کی ہے وہ لکھتے ہیں :’’انسان کو اصل خطرہ کسی خطرناک مشین یا ٹیکنولوجی سے نہیں ہےبلکہ اصل خطرہ تو اس کی فطرت کو ہے۔ ٹیکنالوجی کی گرفت یعنی ان فرامنگ کا غلبہ انسان کو اس خطرے سے دوچار کرتا ہے کہ وہ حقیقی سچائی کے انکشاف اور اپنی اصل خطرہ کے تجربے سے محروم ہو جائے۔‘‘انسانی فطری لذت کے احساس سے محروم ہو جائے گا اور نتیجتًاآدمی انسان نما گوشت اور خون کی مشین بن کر جانوروں کے مقام سے بھی گر جائے گااور اسی مقام کو قرآن نے اسفل السافلین کہا ہے ۔اسفل السافلین کے جدید تعبیر ہی یہی ہے کہ انسان اپنی فطرت، روحانی اقدار، اخلاقی جمال اور ضمیر کی نگہداشت سے محروم ہو کر مشینوں، مصنوعی ذہانت اور سپر انٹیلی جنس کے سامنے محض ڈیٹا پروسسر کی حیثیت اختیار کرے گا ۔مصنوعی ذہانت کے ذریعے اخلاقیات کا جو دھماکہ عنقریب ہو گا ،اس کے بعد بس ایک جدید غیر معمولی اخلاقی انہدام انسانیت کے اندر فطرت کے جوہر کو جس طاقت کے ساتھ انسانی وجود کے اندر دفن کرے گا۔ شاید اسی صورتحال کی تعبیر قیامت سے پہلے کےانسانی معاشرے کی احادیث میں بیان کی گئی ہے۔مشینوں کی لت کی وجہ سے انسان جس نفسیاتی بحران کا شکار
ہو گا اس کا علاج فطرت کے محفوظ طریقے کے برعکس مصنوعی دوائیوں کے ذریعے کیا جارہا ہے اور مستقبل میں یہ استعمال کئی گنا بڑھ کر انسان اور فطرت کے درمیان جو خلیج پیدا کرے گا وہ خدشہ ہے کہیں نہ کہیں انسان سے فطرت کی جدائی پر منتج ہوگا۔یہ جدائی انسان کو محض ایک مشین بنا کر اس کے نظام زندگی پرٹیکنالوجی کاتسلط قائم کرے گا ۔ عام طور پر فیکشن مووئز میں دکھائے جانے والے مناظر حقیقت کا روپ دھار کر حیاتیاتی نطام میں جو خلل پیدا کریں گے وہ دجالیت کی عملی تعبیر ہوگی۔عام ٹیکنالوجی کے ذریعے سے مشینوں وغیرہ کو ہیک کیا جاتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت کےارتقائی مراحل میںانسانوں کو ہیک کیا جائے گا۔ مصنوعی ذہانت تقریباً ہر میدان کی مبادیات کو تبدیل کر کے رکھے گا۔سیاسیات ،سماجیات،تاریخ ،قانون ،طب ،فلسفہ وغیرہ سب میدان مصنوعی ذہانت کی زد میں آکر اپنا اسٹرکچر بدلنے پر مجبور ہونگے ۔روایتی بادشاہت یا تانا شاہی کے بدلے ڈیجیٹل ڈکٹیٹرشپ کا تصور وجود میں آئے گا ۔سرکار کے انتخاب میں رائے دہندگان کی جگہ مصنوعی ذہانت کی اہمیت تسلیم شدہ ہوگی ۔یووال نوح حراری اپنی کتاب 21 Lessons for 21st century میں لکھتے ہیں :’’انسانیت اس لبرل نظریے پر سے ایمان کھو رہی ہے جو حالیہ دہائیوں میں عالمی سیاست پر حاوی رہا ہے ،بالکل اسی وقت جب بایو ٹیکنالوجی اور انفو ٹیکنالوجی کا امتزاج ہمیں انسانیت کی تاریخ کے سب سے بڑے چیلنجز کا سامنا کروا رہا ہے ۔‘‘(جاری )