کوئی بات ،واقعہ یا سانحہ تصور کرنے اور کھلی آنکھ سے مشاہدہ کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے۔عام طور پر کہا جاتا ہے کہ دانت یا پِتے کا درد بہت اذیت رساں اور ہلاکر رکھ دینے والاہوتا ہے مگر اس بات کی شدت کو وہی محسوس کرسکتا ہے جس نے دانت یا پِتے کے درد میں خود زمین چاٹی ہو،کپڑے پھاڑے ہوں اور بال نوچے ہوں۔اسی طرح جو واقعہ میں بیان کرنے جارہا ہوں ا س کو پڑھ کر کچھ لوگ اس کا کوئی خاص تاثر نہیں لیں گے اور تھوڑی دیر کے بعد بھول جائیں گے ،کچھ لوگ صرف ایک ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جائیں گے اور حساس طبیعت کے نرم دل لوگ اسے بہت محسوس کریں گے ،کلیجہ مسوس کر رہ جائیں گے جب کہ خواتین کے آنسو بھی نکل آ سکتے ، مگر اصل درد ،تڑپ ،جلن ،چبھن اور کرب اُسی نے محسوس کیا ہوگا جس پر وہ دل دوز سانحہ گزرا ہوگا ۔وہ قیامت پڑی ہوگی یا اپنے کلیجے کے ٹکڑے اُسی نے چبائے ہوں گے جس نے اُسے اپنی کھلی آنکھوں سے وقوع پذیر ہوتے دیکھا ہوگا اور لوگوں کو سنانے کے لئے اتفاقاًزندہ بچ گیا ہوگا ۔انسان خود فراموش ہے، چوٹ کیسی بھی ہو ،ایک دن درد کو بھول جاتا ہے ۔گزشتہ واقعات کا اعادہ یا دہرانے کا مطلب صرف یہ کہ قاتل کو ’’مسیحا‘‘سمجھنے کی غلطی کبھی نہیں کرنی چاہئے ۔
اب ذرا اپنے تصور میں لایئے کہ جنگل کے قانون والے ایک شہر میںحیوانوں کی ایک جماعت تیروں ،تلواروں ،نیزوں ،خنجروں ،ڈنڈوں اور آگ لگانے والی اشیاء سے لیس کئی جوان اور کچھ کچی عمر کی لڑکیوں کو گھیرے میں لے کر اُن کے کپڑے پھاڑ کر انہیں مادر زاد ننگا کرتی ہے اور پھر اُن کی بے بسی اور لاچاری کا بھرپور مذاق اُڑاکر اُن کے گردنا چتی ہے ، ڈھول بجاتی ہے اور اُس کے بعد ان لڑکیوں کا کوئی سراغ نہیں ملتا ۔یہی جماعت دیگر خونخوار بھیڑیوں کے ساتھ مل کر ایک آٹھ ماہ والی حاملہ عورت کو پکڑکر لاتی ہے ،زمین پر پٹخ کر اُن حیوانوں میں سے چند خوک زادے آگے بڑھ کر پہلے اُس کی عصمت دری کرتے ہیں ،پھر اُس کا پیٹ چاک کرتے ہیں ۔دنیا میں آنے والے بچے کو وقت سے پہلے ہی پیٹ سے نکال کر پہلے اس کا فٹ بال کھیلتی ہیں اور پھر جلتی ہوئی آگ کے ڈھیر میں جھونک دیتے ہیں ۔شہید ماں کی روح اُس سے قبل ہی قفس عنصری سے پرواز کرچکی ہوتی ہے ،آسمان کے فرشتے لرز اٹھتے ہیں ،زمین کا سینہ دہل جاتا ہے مگر یہ مسلم دشمن جماعت شیطانی قہقہے لگاتی ہے ،چیختی اور چلاتی ہے ۔۔۔
تاریخ کے صفحات اس بات پر گواہ ہیں کہ مختلف ادوار میں مختلف اوقات پر مختلف بادشاہوں ،ڈکٹیٹروں اور فوجی جرنیلوں نے دنیا کے مختلف حصوں میں اپنی تلوار کے خونخوار چہرے دکھائے ،ہوس ملک گیری ،دولت کی لالچ ،نسلی منافرت یا انتقام گیری کے لئے دوسرے ملکوں یا دوسری قوموں پر حملے کئے ۔سب سے زبردست خوں آشام حملے منگولوں کے مانے گئے ہیں ،منگولوں نے نہ صرف اسلامی سلطنت کو تاخت و تاراج کیا بلکہ بہت مدت تک وہ اور بھی کئی دیگر چھوٹی چھوٹی ریاستوں اور مملکتوں پر اپنی ہوس ملک گیری کے لئے حملے کرتے رہے ۔روسی ؔلادینوں نے انقلاب کے موقعے پر لاکھوں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں چوبیس ہزار اللہ کے بندے حافظ قرآن ہی تھے۔مسولینی ؔ اور ہٹلرؔ نے بھی خون کی ہولی کھیلی ۔نادر شاہ نے بھی صرف پانچ گھنٹوں میںشاہ جہاں آباد (دہلی)میںتین لاکھ انسانوں کا قتل عام کیا ۔ملا سووچؔ نے سربیا ؔ میں دولاکھ مسلمانوں کو اپنی حیوانیت کی بھینٹ چڑھادیا ۔امریکہ یعنی ورلڈ پولیس مین نے جاپانؔ، ویت نام ،لیبیا ؔ،عراقؔ،افغانستانؔ،سوڈانؔ، شام ،لاطینی امریکہؔ،افریقہؔ،کوریاؔ،لائوسؔوغیرہ ملکوں میںلاکھوں انسانوں کا خون بہایا ۔یہودؔ نے فلسطین ؔ میں عرب بستیوں کو جلایا ،لوگوں کو گھروں سے بے دخل کیا ،ہزاروں لاکھوں کو قتل کیا ۔اسی طرح کتنے جابر ،ظالم ،لٹیرے ،قاتل دنیا میں پیدا ہوئے ،سب نے اپنی اپنی تلوار کی چکاچوندی دکھائی مگر جیساکہ زندگی کا دستور ہے سب خاک ہوئے اور اپنے پیچھے بدنامی ،ضلالت اور لعنت کے ابواب چھوڑ گئے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسانوں کو اگر کسی نے زندہ آگ میں جھونکا مگر حاملہ مستورات کے پیٹ چاک کرکے اُن کے حملوں کو کسی نے فٹ بال بناکر نہیں کھیلا ۔کم از کم اتنا اتیاچار تو کسی سے ثابت نہیں۔چنگیزاور ہلاکونے بغداد میں عیسائیوں کے ساتھ مل کر مسجدوں میں ناچ گانے کی محفلیں منعقد کیں ،شرابوں کے خُم لنڈھائے ،مقتولوں کا سر کاٹ کر کھوپڑیوں کے مینار کھڑا کردئے ۔ہٹلر ؔنے بنی اسرائیل کی بری طرح مٹی پلید کی ۔اُن کو گولیوں سے بھون ڈالا ،کٹاروں سے قتلے کئے،گیس چیمبر میںڈالا ۔نادر شاہ نے بِہ زن و بِہ کش کا حکم دے کر ساری دہلیؔ کو کھدیڑ ڈالا ۔امریکہ ؔ نے بمباری کرکے اور جاپان پر ایٹم بم گراکر قیامت تک کے لئے اپنے واسطے لعنت کا میڈل زیب دوش کیا مگر جو رجعت پسند متعصب سورمائوں نے گجراتؔ میں کیا ،وہ تاریخ کے پنوں پر رقم تو ہوگیا مگر افسوس اُس کانڈ اور اُس کے بعد حیدر آبادؔ ،اجمیر ،ممبئی،وغیرہ کئی شہروں میں دہرانے والے خونین کانڈ کرنے والوں کو ملک نے کوئی سزا نہیں دی۔
آر ایس ایس کے سابقہ چیف کے ایس سدرشنؔ نے ایک بار ممبئی میں کسی تقریب میں تقریرکرتے ہوئے کہا کہ ’’انگریزی میں جو مذہب (Relegion)کا تصور ہے ، وہ دھرم سے بہت مختلف ہے ۔ہندوستان میں دھرم زندگی گزارنے کا ایک طریقہ ہے‘‘۔میرے خیال میں شری سدرشن نے سو فی صد کھری بات کہہ دی تھی۔آر ایس ایس ، بجرنگ دل ،وشوہندو پریشد ،رام سینا،شیو سینا وغیرہ ساری دھارمک جماعتیں ہیں،اس لئے دھارمک زندگی گزارنے کا طریقہ اُن کے لئے شاید یہی ہوگا کہ غیر ہندو سے پاک خالص ہندوتوا ۔۔۔اور اقلیت کو لوٹنا ،کھسوٹنا ،غیر منقولہ جائیداد اور انسانی اجسام کو آگ لگانا ،منقولہ جائیداد کو نقد وصول کرنا اور بہو بیٹیوں کو بے حرمت کرنا اور یہ سارے سنگیئن جرائم عین دھرم ماننا ۔اچھا ہے وہ ایسا مانتے رہیں مگر افسوس اس بات کا ہے کہ دھرم کے تصور اور دھرم کے معنیٰ کو کس طرح اور کس ڈھنگ سے ناجائز فایدہ(Exploitation)اُٹھایا جارہا ہے اور کس ڈھنگ سے اُسے بدعنوان(corrupt)کیا جارہا ہے ،مگر ان انسانیت کے قاتلوں اور اسلام کے ساتھ خدا واسطے کا بیر رکھنے والوں کو یہ نوشتۂ دیوار یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ لہو بولتا بھی ہے ؎
تشدد،قتل و خون ،غارت گری ،افلاس ،مجبوری
میں اپنے ہر فسانے کا یہی عنوان لکھ دوں گا
الف احمد برؔق
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995