۴۹۲ ھ میں اہل ِ صلیب نے فلسطین پر جب اپنے خونی پنجے گاڑے تو موصل کے سلطان عماد الدین زنگیؒ آگے بڑھے ۔ وہ بھی نسلی اعتبار سے ترک تھے ۔ وہ قحطان کی نسل سے تھے نہ ہی اُن کا نسب نامہ عدنان سے ملتا تھا ۔ وہ تو اسلام کے سدا بہار گلشن کے پھول تھے ۔۵۴۱ ھ میں عماد الدین زنگیؒ نے جام شہادت نوش کیا تو اُن کے صاحبزادے سلطان نورالدین زنگیؒ نے آزادیٔ فلسطین کا پرچم بلند کیا ۔ اس سلسلے میں انہوں نے اتنی سختیاں جھیلیں ‘ مشقتوں کا سامنا کیا ‘ تلخ گھونٹ پیے اور مشکلات کا سفر طے کیا کہ لوگ اُنہیں چھٹا خلیفۂ راشد کہنے لگے ۔نورالدین دمشق (شام ) تک تو جا پہنچے لیکن القدس کے اس بیٹے کا دل مسجد اقصیٰ میں ہی اٹکا ہوا تھا ۔ ۵۶۹ھ میں جب یہ بھی لیلائے شہادت سے ہم آغوش ہوئے تو یہ پرچم سلطان صلاح الدین ایوبیؒ نے تھام لیا ۔ یہ نسلی اعتبار سے کُرد تھے اور کوئی شک نہیں کہ سلطان جیسے لوگ صدیوں میں جنم لیتے ہیں اور مائیں ایسے بچے بہت کم جنا کرتی ہیں ۔ تاریخ اسلام کے اس عظیم جرنیل کی تعریف اس کے بد ترین مخالف بھی کرتے ہیں اور مسلمانوں کی تو حالت یہ ہے کہ ان کا نام آتے ہی آنکھوں میں نور اور دل میں سرور اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔۵۷۰ ھ مطابق ۱۱۷۴ء میں صلاح الدین ؒ نے دمشق میں داخل ہو کر مسلمانوں کو اس پرچم تلے متحد کیا ۔ پھر جو پے درپے معرکے شروع ہوئے تو ۲۵؍ ربیع الثانی ۵۸۳ھ ؍ ۱۱۸۷ء کو ’’حطین‘‘ کے مقام پر سلطان نے صلیب پرستوں کو ایسی فیصلہ کن شکست سے دو چار کیا کہ اب اُس کے اور القدس کے درمیان کوئی قابلِ ذکر رکاوٹ نہیں تھی ۔ اسلامی لشکر سروں پر عزت کے تاج رکھے ‘ فتح کے پرچم لہراتا ہوا ، ۲۷؍ رجب المرجب ۵۸۳ھ کو بیت المقدس میں داخل ہوا ۔ اُس دن پورے عالم اسلام میں شکرانے کے نفل ادا کیے گئے اور اہلِ ایمان نے ہر طرح اپنی خوشیوں کا اظہار کیا ۔تاریخ کا پہیہ ذرا آگے گھوما تو ۶۴۱ھ کو ملک کامل نے القدس فرنگی بادشاہ انبرٹن کے حوالے کیا تو سلطان نے اگلے ہی برس دوبارہ اسے واپس چھین لیا ۔ اس مرتبہ ان کے لشکر میں بہت بڑی تعداد خوارزمیوں کی تھی ‘ جو عرب کے باشندے تھے نہ گلشن عرب کے پھول ۔ وہ تو اسلام کے سپاہی تھے ۵۶۵ھ ؍ ۱۲۵۸ء کو تاتاری لشکر کے ہاتھوں دارالخلافہ بغداد تباہ و برباد ہو گیا ۔ تب ظاہر بیبرس اور ملک مظفر مسلمانوں کیلئے امید کی کرن بن کر طلوع ہوئے ۔ ۶۵۸ھ کو ’’ عین جالوت ‘‘ کے مقام پر اس کے یہ فدائی ٹکرائے اور انہوں نے تاتاریوں کے ٹڈی دل لشکر کو تتر بتر اور تہس نہس کر کے رکھ دیا ۔ اس عظیم فتح پر ملک مظفر ، اللہ تعالیٰ کے حضور سجدئہ شکر ادا کرنے کیلئے اپنے گھوڑے کی پشت سے زمین پر آگرا ۔ یاد رہے کہ یہ دونوں بھی نسلی اعتبار سے عرب نہیں تھے ۔ہاں وہ شریف مکہ حسین ضرور عرب تھا ‘ جسے برطانیہ نے عرب کی بادشاہت کا لالچ دیا تو اُس نے امت مسلمہ کے دل میں خنجر اتارتے ہوئے خلافت عثمانیہ ‘ ترکی سے بغاوت کر دی ۔ حالانکہ فلسطین چار صدیوں تک ( ۱۵۱۶ء تا ۱۹۱۸ئ) اس کے زیر سایہ ‘ دین ِ اسلام کی پیاری مہک میں بغیر کسی انتشار اور خلفشار کے پھلتا پھولتا رہا تھا ۔ یہ و ہی شریف مکہ ہے ‘ جس کا تذکرہ آپ کو بکثرت ‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی ؒ کی کتاب ’’ اسیر مالٹا ‘‘ میں ملے گا ۔ اس نے برطانیہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن ؒ اور ان کے پاک باز ساتھیوں کو گرفتار کر وا کے برطانیہ کے حوالے کیا تھا اور انگریزی حکومت نے انہیں پہلے مصر اور پھر جزیرہ مالٹا منتقل کر دیا جہاں یہ حضرات تین سال دو ماہ قید رہے ۔ خلافت عثمانیہ کو ختم کر نے کے لئے ترکی کے آخری تاجدار سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ جیسی عظیم ہستی دنیا سے اس مظلومیت کے ساتھ گئی کہ الاماں والحفیظ۔ مشترکہ دشمن کے اشاروں پر ناچنے والے مسلمانوں نے بھی اُنہیں ڈکٹیٹر ، ظالم اور لالچی کے القابات تک دئے۔ اُن کی وفات اور خلافت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مشہور یہودی لیڈر ہرتزل کی ڈائری شائع ہوئی تو پتہ چلا کہ سلطان عبدالحمید رحمۃ اللہ علیہ کو دراصل کس جرم کی سزا دی گئی تھی ، چونکہ وہ فلسطین کے اُن عاشقوں میں سے تھے۔
یہودیوں کے اپنے اعترافات وانکشافات کے مطابق سلطان عبدالحمید سے یہودیوں کے رابطوں کی ابتدا ۱۸۸۲ء سے ہوئی جب ’’صہیون دوست تنظیم‘‘ نے اودیسا (روس) میں عثمانی قونصل کے سامنے فلسطین میں قیام کی اجازت کے لئے درخواست پیش کی- چنانچہ اس درخواست پر سلطان عبدالحمید کا جواب یہ تھا :’’ساری سلطنت عثمانیہ کو اطلاع دی جاتی ہے کہ ترکی کی جانب ہجرت کرنے کے خواہش مند یہودیوں کو فلسطین میں ٹھہرنے کی اجازت نہ دی جائے‘‘ ۔وقت کے ساتھ ساتھ یہودیوں کے جذبے کو اور مہمیز ملی اور انہوں نے وفد پر وفد سلطان کی خدمت میں بھیجنا شروع کئے مگر سلطان کی جانب سے انکار کے سوا کوئی جواب نہ ملتا تھا- امریکی سفیر نے مداخلت کی تو سلطان نے کہا:’’جب تک سلطنت عثمانیہ قائم ہے میں یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت ہرگز نہیں دے سکتا‘‘۔پال کانگریس کے بعد صہیونی تحریک میں تیزی آگئی جس نے سلطان کو ۱۹۰۰ء میں وہ مشہور حکم جاری کرنے پر مجبور کردیا جو استنبول میں موجود ساری دنیا کے سفیروں کو پہنچایاگیا۔اس حکم کے تحت یہودی زائرین کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ فلسطین میں صرف تین ماہ قیام کرسکتے ہیں اور ان پر لازم ہے کہ وہ اپنے نقطہ دخول (انٹری پوائنٹ) ’’بندرگاہ باب عالی‘‘ پر اپنے پاسپورٹ سرکاری کارندوں کے حوالے کردیں۔ اس مدت سے زیادہ مدت قیام کرنے والے کو زبردستی نکالا جائے گا۔ سلطان نے یہودیوں کیلئے ’’سرخ پاسپورٹ‘‘ بھی جاری کیا تاکہ ان کو نکالنے میں آسانی ہو۔ اس وجہ سے جب یہودیوں کو قوت ملی تو انہوں نے سفارتی پاسپورٹ کا رنگ سرخ کردیا ۔اس پاسپورٹ کے حامل افراد کو بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر نہیں جانچا جاتا۔۱۹۰۱ء میں سلطان کے ایک حکم کے ذریعے یہودیوں کو فلسطین کی ایک چپہ زمین بھی خریدنے سے منع کردیا۔ہرتزل مایوس نہیں ہوا۔۱۹۰۲ء میں ’’قراصو‘‘ کے ہمراہ ایک وفد اور نہایت قیمتی تحائف لے کر سلطان عبدالحمید سے ملنے گیا مگر سلطان نے ملاقات سے انکار کردیا۔ چنانچہ سارے تحائف ان کے وزیر اعظم تحسین پاشا کے حوالے کردیئے۔سلطان عبدالحمید کیلئے جو بیش بہا تحفے یہودیوں کی طرف سے لائے گئے تھے ‘اُن کی تفصیل یہ ہے: !سلطان کی جیب خاص کے لئے پندرہ کروڑ انگریزی پائونڈ(۱۵۰ملی) ۲۔۔۔ سلطنت عثمانیہ کی تمام قرضوں کی ادائیگی کی ذمہ داری۔ ان قرضوں کی مقدار تین کروڑ تیس لاکھ انگریزی اشرفیوں کے برابر تھی۔ (۳۳ملین)۳۔۔۔سلطنت عثمانیہ کے دفاع کے لئے بحری بیڑے کی تعمیر جس پر لاگت کا اندازہ دس کروڑ بیس لاکھ سنہری فرانک تھا۔ (۱۲۰ ملین فرانک ) ۴۔۔۔ بیت المقدس میں عثمانی یونی ورسٹی کی تعمیر۵۔۔۔ ملک کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے تین کروڑ پانچ لاکھ گولڈن پائونڈ کی بطور قرض حسنہ فراہمی (۳۵ ملین)جیسا کہ خود ہرتزل کی ڈائری میں موجود ہے کہ ان ساری پیشکشوں کے جواب میں سلطان عبدالحمید نے کہا:’’ڈاکٹر ہرتزل کو نصیحت کرو کہ آئندہ اس موضوع پر سنجیدگی سے کوئی قدم نہ اٹھائے۔ میں اس سرزمین کے ایک بالشت سے بھی دستبردار نہیں ہوسکتا، کیونکہ یہ سرزمین میری ذاتی ملکیت نہیں بلکہ یہ ساری عوام کی ہے۔ میری عوام نے اس کے حصول کے لئے جنگیں لڑی ہیں اور اسے اپنے خون سے سینچا ہے۔یہودی اپنے کروڑوں پائونڈ اپنے پاس رکھیں جس دن میری سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے وہ فلسطین کی سرزمین مفت میں حاصل کرسکیں گے۔ جب تک میں زندہ ہوں مجھے اپنے جسم کے ٹکڑوں کو دیکھنا فلسطین کو سلطنت عثمانیہ سے الگ دیکھنے سے زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے، یہ معاملہ نہ ہوسکے گا۔ میں جیتے جی اپنے جسم کی جراحی اور چیر پھاڑ کی اجازت نہیں دے سکتا‘‘۔اس کے بعد یہودیوں نے سلطان عبدالحمید کو خلافت سے محروم کردینے کاپکا عزم کرلیا اور قراصو نے سلطان کے نام تار دیا کہ ’’تمہیں اپنی اس ملاقات کی قیمت اپنی جان اور تخت کی صورت میں ادا کرنا پڑے گی‘‘۔چنانچہ سلطان کے اس تخت کو بارود بھری گاڑی کے دھماکے سے تباہ کرنے کی کوشش کی جس پر وہ جمعہ کی نماز ادا کیا کرتے تھے مگر اﷲ تعالیٰ نے ان کو بچالیا۔ اس کے بعد ’’فری میسن‘‘ (یہودی قاتلوں اور سازشیوں کا ٹولہ) نامی زیر زمین یہودی تنظیم کے ذریعے افسروں اور بڑے سرکاری ملازمین سے رابطے شرع کئے اور جگہ جگہ فری میسن کی انجمنیں قائم کیں۔ سالونیک پر خصوصی توجہ دی گئی، ان انجمنوں کے ذریعے دستور کے اعلان کا مطالبہ کیا، جس کا مطلب ’’یہودیوں اور عیسائیوں کو مسلمانوں کے برابر‘‘ قرار دلانا تھا۔فوج کے بعض یونٹوں نے حرکت کی اور ۲۳ جولائی ۱۹۰۸ء کو سلطان کو دستور کے اعلان پر مجبور کردیا، اس کے بعد ایسے نمائندگان کا انتخاب ہوا جس میں ’’فری میسن‘‘ کی انجمنوں میں پروان چڑھنے والے یہودی اور عیسائی بھی شامل ہوگئے، اور صرف نو ماہ کی قلیل مدت میں ۲۷ ؍ اپریل ۱۹۰۹ء کو ترکی کے ’’روشن خیالوں ‘‘کے ہاتھوں سلطان عبد الحمید کو تخت سے اُتار دیا گیا، جس دن سلطان عبدالحمید کو تخت سے اتارا گیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس دن دو عظیم حادثے رونما ہوئے۱:۔۔۔ایک عظیم اسلامی مملکت اور مسلمانوں کی عالمی اور اجتماعی پناہ گاہ کا خاتمہ ۔۲۔۔۔ یہودیوں کے ہاتھوں فلسطین کا سقوط۔
سلطان کی تخت سے محرومی گزشتہ صدی کے شروع میں اسلام پر سب سے کاری ضرب تھی-بظاہر کتنی عجیب بات لگتی ہے کہ ایک ترک اپنی جان اور سلطنت قربان کرکے فلسطین کا دفا ع کر رہا ہے اور ایک عرب حرص و لالچ کے ہاتھوں دھوکہ کھا کر فلسطین یہود و نصاریٰ کے حوالے کرنے کا راستہ ہموار کر رہا ہے لیکن یہ تو تاریخ میں ہمیشہ ہی ہوتا آیا ہے ۔ ایک طرف وفادار ہیں تو دوسری طرف دوکاندار ‘ ایک طرف سر فروش ہیں تو دوسری طرف ضمیر فروش ‘ ایک طرف اسلام کی خاطر جان و مال لٹانے والے ہیں تو دوسری طرف دنیا کے چند حقیر ٹکوں کی خاطر اپنی قوم ‘ اپنا وطن اور اپنا دین سب کچھ گنوانے والے ۔اسرائیل‘ فلسطینی مسلمانوں کا قاتل ہے اور امریکہ اسرائیل کا سب سے بڑا سرپرست اور معاون‘ لیکن عرب اور غیر عرب مسلم ممالک بھی اسرائیل کو اپنا دشمن ‘لیکن امریکہ کو اپنا دوست کہتے ہیں ۔ ایسے میں اہل فلسطین کو آزادی ملے تو کیونکر ؟ آ ج تو مسجد اقصیٰ کسی صلاح الدین ایوبی ؒ کی منتظر ہے جو اُسے اہلِ صلیبوں اور صیہونیوں کے ناپاک قدموں سے پاک کر سکے ۔
쬄쬄쬄쬄쬄쬄