سید مصطفیٰ احمد
حاجی باغ، ایچ ایم ٹی، بمنہ، سرینگر
میں کوئی مصنف یاماہر لکھاری نہیں ہوں بلکہ ایک طالب علم ہونے کے ناطے سے کچھ الفاظ قلم بند کرنے کا شوق رکھتا ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے تواتر کے ساتھ آج تک بڑے بڑےقلم کاروں اور مصنفین کی باتوں کو کسی حد تک سمجھنے کی کوششیں کی ہیںاور ابھی تک بیشتر باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مگر پھر بھی ایک ملائم سی خواہش ہمیشہ دل میں انگڑائی لیتی رہتی ہے کہ میں بھی کچھ نہ کچھ لکھ سکوں ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی بھی فن میں مہارت حاصل کرنے کے لئے لگاتار کوششیں کرنالازمی ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ لکھنے کے فن کے ساتھ بھی ہے۔ لگاتار لکھنے سے ہی یہ فن معیارات پر کھرا اُترتاہے ۔ جب جب میں نے اپنے اساتذہ سے اچھا لکھاری بننے کا راز جاننا چاہا، تو ان سب کا ایک ہی جواب تھا کہ پہلے اپنے اندر زیادہ سے زیادہ پڑھنے کا مادہ پیدا کروں،کثرت سے کتابوں کا مطالعہ کرتا رہوں اور پھر غور وفکرکے بعد ہی اپنے خیالات کو صف قرطاس پر لانے کی کوششیں کروں۔ اس طریقے سے لکھنےکا ہُنر پیدا ہوجائےگا اور الفاظ میں نکھار آئے گا۔ ان محسن اساتذہ کی باتیں آج پوری ہورہی ہیں اور میں اُن کی چھاؤں میں ہر روز سیکھتا رہتا ہوں۔اگرچہ لکھنے کے دوران غلطیوں کے ڈھیر لگا دیتا ہوں تاہم انہی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھنے کو بھی ملتاہے۔ اس طرح تنقید برائے تعمیر کے زمرے میں میرا بھی شمار ہوتا ہے۔ تنقید کا حقیقی حق ادا ہوجاتا ہے اور اس تنقید سے جذبات کو بھی کوئی ٹھیس نہیں پہنچتی ہے۔ آنے والی سطروں میں کچھ قوائد و ضوابط کی بات کی جارہی ہیں جو لکھنے میں معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔ البتہ یہ بات ذہین نشین رہے کہ یہ میرے ذاتی تجربات ہیں، ان قواعد سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔
پہلا ہے مختلف کتب کا مطالعہ۔ ماہر لکھاری بننے کے لئے سب سے بنیادی اور اہم چیز یہ ہے کہ مختلف کتابوں کا مطالعہ کیا جائے،چاہے وہ کسی بھی موضوع پر ہوں۔ اس سے لکھنے کے انداز کی سمجھ کے علاوہ الفاظ کی باریکیوں کے بارے میں گہرائی پیدا ہوگی۔ کہاں پر کیا لکھنا اور کیوں لکھناہے، یہ ساری باتیں اعلیٰ کتابوں کے مطالعے کے بعدہی پیدا ہوتی ہیں۔ سیاسی،سماجی ،دینی،اقتصادی ،سائنسی وغیرہ کتب کو پڑھ لینے سے آپ کے تلفظ میں دُرستی آئے گی اور لکھنے کےرنگ ڈھنگ میںشفافیت پیدا ہوگی۔ دوسرا ہے کم لکھنا۔ مضمون کے ابتداء میں اس بات کا ذکرکیا گیا تھا کہ زیادہ لکھنے سے مہارت حاصل ہوتی ہے۔ مگر اصل میں کہنے کا مطلب ہے کہ ایک انسان وقفے وقفے کے ساتھ لگاتار لکھتا رہے۔ وقفے کے بعد لکھنے سے سوچنے، سمجھنے اور ترمیم کرنے کے مواقع میسر ہوتے ہیں۔ ایک لکھاری اپنے مضمون کو مختلف زاویوں سے دیکھتاہے، جس سے غلطیاں کرنے کے امکانات بہت کم ہوجاتے ہیں۔ تیسرا ہے اپنی خامیوں کو تسلیم کرکے مستقبل میں ان غلطیوں سے دور رہنا۔ جو بھی کوئی ایک بااثر لکھاری بننا چاہتا ہے تو سب سے پہلے اس انسان کو اپنی غلطیوں کو ماننا چاہیے اور اس کے بعد ان خامیوں کا اعادہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اس طریقے سے آنے والے کل میں لکھنے میں نکھار اور سدھار پیدا ہوگا۔ چوتھا ہے ادبی چوری سے پرہیز۔ جب میں نے لکھنا شروع کیا تھا تو میں نے کچھ وقت کے لئے ادبی چوری کا راستہ اختیار کیا تھا۔ مگر آخر کار اس بات کا احساس ہوا کہ یہ توایک بڑا جرم ہے۔ آج میں جو کچھ بھی لکھ رہا ہوں،اُس میںمیری ناتجربہ کاری ضرور ہے،لیکن اس میں دوسروں کی نقالی کا کوئی بھی عنصر موجود نہیں ہے۔ میرا ماننا ہے کہ جوکوئی شخص بھی لکھنا چاہتا ہے، اُس کو چاہیے کہ صرف اپنے ذاتی خیالات اور تجربات کو ہی لکھیں، چاہیے اس کے خیالات و تجربات سطحی معیار کے ہی کیوں نہ ہوں۔ کیونکہ سب سے بڑا خیرخواہ تو قاری ہے۔ قاری کے تاثرات ہی کسی بھی شخص کو ایک اچھا لکھاری بناتے ہیں، وہ تاثرات پھر لکھاری کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ میری لکھائی میں اساتذہ کو علاوہ قاریوں کا بھی نمایاں رول ہے۔ ہر مضمون شائع ہونے کے بعد مختلف قاریوں کے ملے جُلے تاثرات،مجھے آگے لکھنے میں مدد کرتے ہیں۔
اس لیے جو اشخاص ایک اچھا اوربااثر لکھاری یا مصنف بننا چاہتے ہیں، وہ مندرجہ بالا قواعدو ضوابط میں سے اپنے من پسند قاعدوں کو اپنا کر اپنے لکھنے کے معیار کو نکھار سکتے ہیں۔ ان قواعد کے علاوہ جو چیز سب سے اہم ہے ،وہ ہے کہ ایک شخص اپنی من پسند چیزوں کو ہی لکھیں۔ مزید برآں جس فیلڈ کا ایک شخص تجربہ رکھتا ہو، اُسی فیلڈ میں ہی قلم آزمائی کریں۔ اُس دنیا میں قدم ہی نہ رکھے جس کے بارے میں اُسے مکمل جانکاری حاصل نہ ہو۔ وقت سے پہلے مشہور ہونے کے جنون سے بھی دور رہنا ضروری ہے۔ جو شخص چند مضامین لکھ کر اپنے آپ کو بڑے قلم کاروںمیں شمار کرتا ہے، وہ بڑا بےوقوف ہے۔ ایسا انسان کبھی بھی اعلیٰ لکھاری نہیں بن سکتا۔ تعریفوں کی لالچ ناتجربہ کار لکھاریوںکو ڈبودیتی ہیں اور آگے بڑھنے کے جتنے بھی مواقع ہوتے ہیں ،وہ خاک میں مل جاتے ہیں۔ تو ضرورت اس بات کی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کتابوں کا مطالعہ کیا جائیں اور جب،جس کسی شخص کو اس بات کا احساس ہوجائےیا یوں کہیں کہ یقین ہوجائے کہ وہ لکھنے کے قابل ہوگیا ہے، تب ہی وہ لکھنا شروع کریں۔
[email protected]
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)