کسے نہیں معلوم اپنے قلم دوات والے نسل در نسل فتویٰ باز رہے ہیں ،پر اب کی بار تو ملت اسلامیہ پر بھی فتویٰ نما تبصرہ جھاڑ دیا۔کون جانے اہل قلم دوات عالمی سطح پر کوئی ایسی تبدیلی لانے کے لئے زور آزمائی کرنا چاہتے ہوں جس سے آر پار بلکہ سات سمندر پار بھی سیلف رول کے دائرے میں آجائے۔پھر اس سیلف رول مملکت کا دارا لخلافہ بیج بہاڑہ ہوگا ۔ٹرمپ، پوتین، مودی اور نہ جانے کون کون Islamophobia پر گفت و شنید کرنے پہنچ جائیں گے اور بابائے سیلف رول کے مزار پر حاضری دیں گے۔مانا کہ اہل قلم دوات ابھی افسپا ہٹانے کا کارنامہ انجام نہیں دے پائے لیکن کریں کیا افسپا کی میخیں کچھ اس قدر ٹھونکی ہوئی ہیں کہ لاکھ کوشش کے باوجود نکل ہی نہیں پاتیںیعنی افسپا نہ ہوا ملک کشمیر ہوا۔جہاں ملک کشمیر سے پیار کرنے والے کئی ہیں، وہیں افسپا کو طلاق ثلاثہ دینے کو کوئی من موجی تیار نہیں۔بھارت کیا مملکت خداداد کیا، چین کیا عالمی تھانیدار کیا سبھوں کو ملک کشمیر خوب بھاتا ہے جبھی تو ہر کوئی اس سے پیار جتاتا ہے۔اس کے گُن گاتا ہے اور اس پر نظریں جماتا ہے۔بھارت ورش کا یہ اٹوٹ انگ ہے، مملکت خداداد کی یہ شہ رگ ہے،چین کے نئے بزنس ماڈل کی شاہراہِ چن چا چم چوں ہے اور عالمی تھانیدار کے لئے اپنی چودھراہٹ دکھانے کا چوک۔۔۔اور دراوغہ ٔ عالم اسی چوک سے شمال و جنوب ، شرق و غرب اپنی نظریں جمانا چاہتا ہے۔کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں وہ تو ملک کشمیر کی زمین کے دعویدار ہیں نہ کہ اہل کاشمر کے۔ایسا ہی کچھ افسپا کا حال ہے۔اسے وردی پوش الگ نہیں کرتے کہ ان کے لئے دفاعی جیکٹ کی مانند ہے ۔ اس کے پار عدالتی حکم کی گولی نہیں جاتی، انتظامی تیر اس کو چھید کر نہیں جاتا، صحافتی میزائل اس کا کچھ نہیں بگاڑ پاتا ، بشری حقوق کی توپ اس کے آگے دھماکہ نہیں پھوٹتی۔کتنے مارو،کتنے اندھے کرو، کتنوں کو اپاہج بنادو کوئی سوال پوچھنے والا نہیں اور اگر کوئی جرأت کر ے بھی تو افسپا کا تھپڑ اس کے منہ پر رسید کردو کہ دانت ایک طرف اڑ جائیں جبڑا دوسری جانب بلکہاستفسار کرنے والا چاروںخانے چت ہوجائے۔اور جب بھی قانونی حجام اس کی حجامت کرنے کی بات کرتے ہیں کہ یہ تو بڑا ہی بھدا دکھتا ہے اسلئے اس کے بال تراشنے کی ضرورت ہے ، اس کے تیز دھار والے ناخن کترنے کی ضرورت ہے ، اس کے میلے کچیلے دانت صاف کرنے کا وقت آگیا ہے تاکہ یہ کسی کو ڈرائے نہ، کھرچے نہ، کاٹے نہ تو اس کی آڑ میں بیٹھے خاص کر وردی پوش فوراً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ یہ تو بڑا خوبرو ہے، کوئی اسے چھیڑے نا کیونکہ یہ تو ہماری ذاتی ملکیت ہے ، اس کے تمام تر کاغذات ہمارے نام بیع ہوئے ہیں بلکہ اس کا تمام حدود اربعہ ہمارے نام منتقل بھی ہوا ہے ۔ اور بیعہ ناموں سے اہل کشمیر بہت ڈرتے ہیں کہ انہیں امرتسر میں پونے دو روپے فی کس کے حساب سے خریدا گیا تھا۔کوئی اسے چھیڑے تو ہم چھیڑ خانی کے الزام میں داخل زندان کردیں گے، کوئی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھے تو باضابط کیس بنے گا پھر چھوٹنے کا سوال نہیں۔کوئی اس کے زلف تراشنے کی کوشش میں بس قینچی ہاتھ میں ، بھلے کوئی مو تراشی میں نہ پکڑا گیا لیکن اس کوشش میں فوراً سرکاری مہمان بن جائے گا پھر اس کی جان کی خیر نہیں ۔ افسپا کی زلفیں قیمتی ہیں کشمیری زلفوں کو کون دیکھے۔افسپا کی زلفیں وردی پوشوں کو بہت پیاری ہیں کہ اسی کے طفیل ۲۰۱۰ میں جہاں ایک سو بیس کو مارا تو کہیں پوچھ تاچھ نہ ہوئی، طفیل متو کو مارا تو کسی کے کان پر جوں نہیں رینگتی ۔ پتھری بل کیا مژھل کیا جو چاہیں سو آپ کریں ہم کو عبث بدنام کیا۔ خود کول کمیشن بھی انگشت بدندان ہے کہ جہاں مارا وہاں طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور تو اور اہل کشمیر اللہ میاں کی گائے ہی سہی لیکن کسی مجسٹریٹ کو بھی خاطر میں نہ لایا ، اجازت لینا اپنی بے عزتی سمجھا اور جو سامنے آیا اسے لٹا دیا، پٹا دیا سلا دیا ۔ افسپا کی زلفیں بچانے میں تو کنول بردار پیش پیش ہیں کیونکہ ان کے مونچھوں والے ہاف نیکر ، ناگپوری لیڈر نے مسلٔہ کشمیر کو طاقت اور طریق کار سے سدھارنے کا عندیہ دیا۔ خود وزیر داخلہ بھی مسلٔہ کشمیر کا دائمی حل نکالنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ قلم دوات والے زبانی جمع خرچی سے کام لیتے ہیں اور ہل بردار تو اس کے خلاف وہی حال کرتے ہیں جو انہوں نے سبز رومال والے کوہستانی نمک کا کیا تھا۔مانا کہ اب کی بار درانتی ہتھوڑے بردار میدان عمل میں کود پڑے ہیں اور ڈنکے کی چوٹ پر نہیں بلکہ درانتی کی کاٹ پر اور ہتھوڑے کی مار پر اعلان کردیا کہ اب کی بار مودی سرکار نے ملک کشمیر کو اسی کیچڑ میں دھکیلا جس میں کنول کے پھول کھلتے ہیں ۔ہونہ ہو اہل کاشمر کو کھاد کے طور استعمال کیا گیا تاکہ کنول کا پھول باقی بھارت ورش میں کھلتا رہے،یعنی کشمیری خون سے اپنے کھیت سیراب کرائے۔ کشمیری اور کہیں اپنے ہی فوجیوں کی میتیں ڈائی پوٹاش کھاد کا کام کر گئیں۔غریبوں کے گھر چراغوں سے محروم ہو گئے اور سیاسی کھلیان کھل اٹھے۔قلم برداروں نے دوہری کرنسی کا مطالبہ کیا تھا ہتھوڑے بردار دوہری انتظامیہ کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بے چارے ہتھوڑ برداروں کی حالت بھی آر پار پتلی ہی دُکھتی ہے، پر کبھی کبھی ملک کشمیر انہیں یاد آتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اپنے قلعوں میں عام خام لوگوں نے ہماری نہ سنی البتہ ہماری بات یہاں سنی گئی تو پھر دیکھنا اہل کشمیر کیسی سیاسی فصل درانتیوں سے کاٹ لیں گے۔
وردی پوشوں کے گرد تو افسپا کا مدافعتی جیکٹ ہے کہ اس کے سبب کوئی انہیں چھو نہیں سکتا، بھلے ہی وہ بھلے مانسوں کو ماریں پیٹیں ، اندھا کردیں اور کچھ تو ترنگا ہاتھ میں لئے بیٹی بچائو کے بدلے بیٹی پِٹائو بیٹی کٹائو کا نعرہ لگاتے ہیں۔کنول بردار تو ایک ہاتھ میں ترنگا لے کر قاتلوں اورالزام یافتہ بلات کاریوں کو بچانے نکلتے ہیں۔جے این یو ہو یا کٹھوعہ ، الور ہو یا دادری ترنگے کا میزائل ہاتھ میں رکھ کر ہر گناہ وغیرقانونی و حیوانی حرکت دفاع ہو تا ہے۔پھر سانجی رام کیا پروفیسر جوہری کیا قانون کو اپنی متعین راہ لینے سے روک ہی لیتے ہیں۔ایسے میں آصفہ کیا ، اخلاق کیا ، جنید کیا، پہلو خان کیا سب ترنگا یاترا کے شور میں گم ہوجاتے ہیں۔چلو کنول برداروں کے لئے اچھے دن تو آہی گئے۔اور اگر یوگی راج چل رہا ہو تو کنول برداروں کے خلاف کون کیس بنائے ۔مظفر نگر فسادات میں ایک سو اکتیس کیس واپس لینے کی تیاری مکمل ہے کہ بے چارے کنول بردار ایسے ہی سائیکل سواروں کے الزام فہرست میں شامل کئے گئے ۔ اور اب جو یوگی راج ہے تو کنول بردار گنگو تیلی چھوٹنے ہی چاہئیں جبھی تو یہ اگلے الیکشن میں من موافق تیل نکالیں گے، پھر دیکھنا نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی کیونکہ مودی یوگی راج میں رادھا کی انٹری پر پابندی ہے یعنی شرم و حیا کے ساتھ ترنگا بھی بیچ کھاتے ہیں ۔اور جب گجرات میں چلتی بس میں بھاجپا نیتا شانتی لال سولنکی اور چیتن ٹھاکر زنا بالجبر کے مرتکب ہوں تو کوئی کیا کرے، کیا سوچے ؟؟؟؟ ترنگے کی آڑ لے کر خود کو نہ بچائیں تو بھلا کیا کریں؟؟؟ترنگا اور جے سری رام کا نعرہ ان کا من بھایا ہے کہ اسی کے سبب بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔البتہ ہر سرشتہ بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔جھار کھنڈ میں علیم الدین لنچگ کیس میں گیارہ افراد کورٹ کی جانب جو لئے جا رہے تھے تو بھیڑ سے جے سری رام کے نعرے بلند ہوئے ،اور ملزمین جو بعد میں عمر قید کے مرتکب پائے گئے ،وہ بھی جے سری رام نعرے بازی میں شامل ہوگئے۔شاید یہی سوچ کر کہ بچائو کا یہی ایک طریقہ ہے ۔
ویسے کنول برداروں کا یہ محبوب مشغلہ ہے کہ عام خام آدمی کو بیوقوف بنایا جائے۔مانا کہ یوم احمقاں یعنی یکم اپریل کا رواج پہلے سے ہے لیکن کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ اس کا سیدھا رابطہ کنول برداروں کی اعلیٰ ترین قیادت سے ہے۔جبھی تو اکتیس مارچ تک عوام ٹیکس بھرتے ہیں اور اپنا فرض پورا کرتے ہیں ۔پر پہلی اپریل سے دوبارہ بیوقوف بن جانے کی راہ پر چل نکلتے ہیںکیونکہ ینرو مودی، مالیا اور دوسرے بھاجپا حمایت قرض داروں کا لوٹا پیسہ واپس کرنے کی سعی میں لگ جاتے ہیں۔بنک کم ڈیپازٹ رکھنے کی پاداش میں کھاتے داروں سے جرمانہ وصولتے ہیں۔ایک ہی بنک نے پچھلے چند مہینوں میں جرمانے کی صورت میں اڑھائی سو کروڑ سے زیادہ وصول کیا۔اس وصولی کے سبب وہ پیسہ واپس بنکوں میں جمع ہوگا جو مودی قبیل کے لوگ لوٹ کر نکل گئے اور پی ایم مودی کے ساتھ تصاویر لینے سے نہیں چوکے۔
سنا ہے مودی اور مالیا قبیل کے لوگ آج کل ٹھاٹھا ٹھا ہنستے رہتے ہیں کہ بھارت کے وزیر با تدبیر فیس بک چیف کو دھمکی دینے سے نہیں چوکے۔مارک زیوکربرگ یہ بات ذہن نشین کرلو کہ اب کی بار مودی سرکار تمہیں بھارت آکر صفائی دینے پر مجبور کرے گی بلکہ بھکت جنوں کے سامنے ناک رگڑ کر کہنا ہوگا کہ فیس بک سے کوئی بھارتی ذاتی ڈاٹا چوری نہیں ہوا۔مودی مالیا کے پیٹ میں گدگدی ہوتی ہے کہ انہیں سالہا سال سے کوئی بال بیکا نہ کرسکا، بھلا مارک پر دھمکی کیوں ؟اور اپنے دوست اس پر مزید کھلکھلائے کہ مودی سرکار نے یہ دھمکی ہندی میں دے ڈالی اور مارک فقط اَوَش اَوَش کہتے سر ہلاتے رہے ۔ایسے میں مودی سرکار یہی سمجھے کہ مارک کا جسم کانپ رہا ہے اور ہم سوچتے رہے کہ دھمکی دینا کوئی کنول برداروں سے سیکھے۔ مملکت خداداد کے نام دھمکیاں تو برسوں سے جاری ہیں کہ آئی ایس آئی کو قابو میں کر لو۔کون جانے کس پر کتنا اثر ہوتا ہے۔
آئی ایس آئی کی بات چلی تو پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی یہ بات دلچسپ محسوس ہوئی کہ ماحولیاتی آلودگی پاکستان سے آتی ہے، پنجاب ہریانہ سے ہو کر دلی پہنچتی ہے۔ہاں ہم بھی اس میں حصہ جمع کرتے ہیں۔ہم تو سوچ میں پڑ گئے کہ ہو سکتا ہے ماحولیاتی آلودگی بر آمد کرنے میں بھی آئی ایس آئی کا ہاتھ ہو۔جب جاسوس کبوتر بھیج سکتے ہیں ، ہیضہ پھیلانے والے چوہے در اندازی کرسکتے ہیں ، ڈینگو مچھر بھیں بھیں کرتے داخل سرحد ہوسکتے ہیں تو بھلا آلودگی ہوا میں تیر کر کیوں پہنچ سکتی؟
(رابط[email protected]/9419009169 )