گزشتہ ہفتہ ریاست جموں و کشمیر میں گورنر انتظامیہ کا ایک اور کارنامہ۔۔۔ ریاست میں ایک اور انتظامی ڈویژن کو معرض وجودمیں لانا۔۔۔ خطہ لداخ کو صوبائی حیثیت دینے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہ نیا صوبائی انتظامی یونٹ لداخ ڈویژن کے نام سے موسوم کیا گیا۔ریاست جموں و کشمیر میں عرصہ دراز سے دو ڈویژنل انتظامی امور چلا تے رہے ہیں۔ ان میں ایک تو جموں ڈویژن ہے اور دوسرا کشمیر ڈویژن ،جس میں لداخ بھی شامل تھا۔ریاست کے جغرافیائی خد و خال پہ نظر ڈالی جائے تو رقبے کے حساب سے لداخ کا مجموعی رقبہ کشمیر سے بھی کہیں زیادہ ہے اور جموں سے بھی، البتہ آبادی کے لحاظ سے یہاں بودوباش رکھنے و الوںکی تعداد انتہائی کم ہے۔ ہمالیہ کے بلند و بالاپہاڑی سلسلوں کے بیچوں بیچ لداخ میں سکونت اختیار کرنا ایک مشکل امر ہے۔یہاں کے انتہائی سرد موسم میں انسانوں کی اقامت گزیر ی لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے ۔ نیز پہاڑو سے گھر ے ہونے کے سبب لداخ میں آمد ورفت میں مشکلات کے سبب بھی جینا دشوار ہوتا ہے۔ عصر حاضر تک میںلداخ باہر کی دنیا سے موسم سرما کے دوران کم و بیش چھ ماہ بالکل کٹا رہتا ہے اور یہاں لوگوں کو آنے جانے کے لئے ہوائی رابطے پر انحصار کرنا پڑتا ہے ۔ حالیہ برسوں میں سویلین ائر سروسز کوکافی فروغ ملا ہے ،اس وجہ سے لداخ ایک اہم سیاحتی مقام بن چکا ہے۔پہلے یہاں دوردراز سرحدی علاقوں کی سیاحت پر سرکاری ممانعمت عائدتھی جس کا سبب سیکورٹی امور تھے لیکن اب یہ ممانعت قدرے کم ہے، باوجود یکہ لداخ کا علاقہ دفاعی نقطہ نظر سے کافی حساس مانا جاتا ہے۔
لداخ کو ایک نئے انتظامی ڈھانچے میں ڈالنے کے محرکات کو تب تک سمجھنا مشکل ہوگا جب تک کی اس خطے کی سوق الجیشی حیثیت کی معلومات نہ ہوں۔سوق الجیشی حیثیت یعنی جیو پولٹکل سچویشن میں کسی خطے کے مخصوص جغرافیائی حالات سے وابستہ جملہ امور شامل ہوتے ہیں، چاہے یہ سیاسی ، سفارتی یا فوجی امور ہوں۔ لداخ کے تاریخی و جغرافیائی تجزیے میں یہ حقیقت عیاں ہے کہ یہ ریاست جموں و کشمیر کا ایک اہم جُز ہے۔ریاست جموں و کشمیر ایک متنازعہ خطہ ہے جس کی سا لمیت پر 1947ء میں ایک کاری ضرب پڑی جب ریاست دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ریاست کا دو تہائی حصہ بھارتی انتظامیہ کشمیر اور ایک تہائی حصہ پاکستانی انتظامیہ کشمیر کہلاتا ہے۔اس مقنسم ریاست کے بیچوں بیچ ایک خونی لکیر وضع کی گئی ہے جو ایل او سی یا حد متارکہ کہلاتی ہے۔اس لکیر کو خونی اس لئے کہا جاتا ہے چونکہ یہاں پر آج تک کافی خوں بہا ہے اور متواتر بہتا جا رہا ہے۔یہ صورت حال ایک نا قابل بیان المیہ ہے جس سے بٹی ہوئی ریاست کے لوگ براہ راست یا بلواسطہ دو چار چلے آرہے ہیں ۔
بھارتی انتظامیہ کشمیر کوعرف عام یا عام اصلاح میںکو تین مخصوص خطوں پہ مشتمل مانا جاتا ہے:کشمیر،جموں او رلداخ جب کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر دو حصوں پر مشتمل ہے : ایک حصے کو عرف عام میں ’’آزاد کشمیر‘‘ اور دوسرے حصے کو گلگت بلتستان کہا جاتا ہے۔بھارتی انتظامیہ والے کشمیر میں گر چہ لداخ انتظامی طور پر ہفتہ عشرہ تک کشمیر ڈویژن کاحصہ تھا لیکن جغرافیائی ،مذہبی،نسلی و لسانی نوعیت سے اس کی حیثیت مختلف تصور کی جاتی تھی۔حدمتارکہ کے اُ س پار گلگت بلتستان کو 1948ء میں مسلم کانفرنس کے کراچی سیشن میں پاکستانی حکومت کی تحویل میں دیا گیا ،اوریہ ایک علحیدہ انتظامی یونٹ بن گیا۔گلگت بلتستان کو بھی لداخ کی مانند ایک حساس خطہ مانا جاتا ہے اور یہاں کے لوگ بھی مذہبی،نسلی ولسانی اعتبارات سے مختلف ہیں۔ بہ نظر غائر دیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر کی حساس حیثیت آر پارلداخ اور گلگت بلتستان کی وجہ سے ہے۔کم و بیش 87,000مربع میل پہ پھیلی ہوئی ریاست میں تقریباََ 52,000مربع میل لداخ اور گلگت بلتستان پر مشتمل ہے۔ ہمالیہ کے بلند و بالا کوہستانی سلسلے کی بیچوں بیچ یہ کہیں پامیرکی بلندیوں سے ٹکراتا ہے ،کہیں قراقرم کے دروں سے اور کہیں ہندو کش کی سنگلاخ چٹانوں سے، جس سے کثیر رقبے والے یہ علاقہ حساس حیثیت کا حامل بن گیا ہے ۔اس کی یہ حیثیت آج کی بات نہیں بلکہ یہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔
جموں و کشمیر کے اس پہاڑی سلسلے کے بارے میں کافی خامہ فرسائیاں ہوائی ہیں۔ ان میں مغربی مورخین کی تحریریں بھی شامل ہیں جو اُس زمانے میں رقم ہوئیں جب ہندوستان پہ فر نگی راج کا دور دورہ تھا۔ فرنگی راج نے ریاست کی شمالی سرحد پر اگر چہ ڈوگرہ راج کی حاکمیت کو تسلیم کیا تھا لیکن سچ تو یہ ہے فرنگی راج اس سرحد پر خود ہی نظر رکھے ہوئے تھا۔ لیفٹنٹ کرنل ڈیورینڈ(Lt. Col.Durand) لیفٹنٹ کرنل فرانسس ایڈورڑ ینگ ہسبنڈ (Lieutenant Colonel Sir Francis Edward Younghusband) اور ایف ایس نائٹ (FS Knight)کی مفصل کتابیں اس حقیقت کی منہ بولتی گواہ ہیں کہ شمالی سرحد کی فوجی حساسیت فرنگیوں کی نظر میں کیا تھی۔ اس بارے میں ایف ایس نائٹ کی کتاب Where Three Empires Meet:(جہاں تین سلطنتیںملتی ہیں) قابل ذکر ہے۔یہ سلطنتیں ہندوستان کے برطانوی راج،روس میں زار روس کی شاہی سرکار اور چینی سلطنت تھیں۔اکتوبر1947ء میں ریاست جموں و کشمیر ہندوستان اور پاکستان کے بیچ پیچیدہ سیاسی نزاع کا باعث بنی۔25؍اکتوبر کو پنڈت نہرو نے ایک برقیہ میں برطانوی وزیر اعظم کلیمنٹ اٹیلی پر شمالی سرحد کی ا ساسی اہمیت کو اُجاگر کیا جس کا مدعا و مفہوم یہی تھا کہ یہ سرحد ہندوستان کیلئے بطور رگ ِ حیات ہے۔انجام کار شمالی سرحد بھی باقی ریاست کی مانند دو حصوں میں بٹ گئی ۔لداخ ہندوستان کے حصے میں آیا اور گلگت بلتستان پاکستان کے حصے میںاور آج تین سلطنتوں کی جگہ تین مملکتیں ہندوستان،پاکستان اور چین شمالی سرحد کو گھیرے ہوئی ہیں ۔جہاں دو تہائی ریاست بھارتی انتظامیہ کا حصہ ہے اور ایک تہائی پاکستان کی تحویل میں ہے ،وہی پاکستان اور چین کے مابین سرحدی حد و بند کے سمجھوتے جو 2مارچ 1963ء کو طے پایا، میں چین کو جموں و کشمیر کی اراضی میں کم و بیش 2000مربع میل کا علاقہ حاصل ہوا ،جو سنکیانگ سے ملحقہ علاقہ ہے۔چین۔ پاکستان سمجھوتے میں یہ مذکور ہے کہ ریاست کے حتمی سیاسی تصفیے کے بعد اس پہ تجدید نظر ہو گی۔
لداخ میں حد متارکہ کا شمالی نکتہ سیاچن (Siachen)ہے ، جو لائن آف کنٹرول متنازعہ ہونے کے سبب ہند و پاک کے بیچ شدید نزاعات وجنگ وجدل کا باعث بناہوا ہے ۔ یہاں 18000ہزار فٹ کی بلندی پر دونوں ممالک کی افواج یخ بستہ برفانی چوٹیوں پر ایک دوسرے کے ساتھ بر سر پیکار ہیں۔یہاں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آتشیں اسلحہ سے زیادہ یہاں آر پار کی افواج شدید برف باری اور سردی کا شکار ہوتی ہیں جب کہ دنیا حیرت زدہ ہے کہ آخر اتنی فلک بوس بلندیوں پر آر پار کی افواج آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کیا حاصل کرنے کی سعی میں یا حالت ِ جنگ میںا یستادہ ہیں؟اس پہلو سے جہاں دنیا حیرت زدہ ہے، وہاں آر پار کی حساسیت بھی عیاں ہوتی ہے۔ لائن آف کنٹرول ((LoC) کے شمال ترین نکتے کے قریب ہی لائن آف اکچول کنٹرول ہے (LOAC)ہے جو ہند و چین کے مابین سرحدی حد و بند کی نشاندہی کرتی ہے۔ان خونی لکیروں کے بیچوں بیچ ریاست جموں و کشمیر کے شمالی علاقہ جات واقع ہیں اور اس خطے کے بارے میںجو روش برطانوی سرکار کی تھی، وہ آج بھی نئی رقابتوں کی شدت کے ساتھ قائم ہے۔ان علاقوں سے متعلق جو بھی امور ہیں، اُن کا فیصلہ دہلی اور اسلام آباد کے اعلیٰ ایوانوں میں براہ راست ہیں ۔
لداخ کو ایک علحیدہ ڈویژن کا درجہ دینے کا فیصلے کہنے کو گورنر ستیہ پال ملک سے منسوب ہے لیکن انہوں نے خود اعتراف کیا کہ ان کی تقریر بھی دلی سے لکھی آتی ہے ۔ ظاہر دور رس اہمیت کا حامل یہ تازہ فیصلہ بھی دہلی کی بھاجپا سرکار کی رضا ورغبت کا آئینہ دار ہے اور بس۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ گورنر ملک کی تقرری بھی ریاست میں بھاجپا ایجنڈے کو مسلط کرنے کے لئے کی گئی ہے۔ دستور کے مطابق گورنر راج کا نفاذ ریاست میںتب ہوتا ہے جب ایک منتخب شدہ سرکار آئینی طور حکومت چلانے کے قابل نہ رہے چاہے وجو ہات کچھ بھی ہوں۔ ریاست جموں و کشمیر میں موجودہ گورنر راج 19جون 2018ء کو نافذ ہوا جب بھاجپا نے اُس کولیشن سرکار سے ہاتھ کھنچ لیا جو اُس نے پی ڈی پی کے ساتھ تین سال قبل’’ ایجنڈاآف الائنس‘‘ کے تحت تشکیل دی تھی ۔چونکہ کولیشن سرکار میں بھاجپا کو اپنا س دیرینہ نگھی ایجنڈا مسلط کرنے میں بظاہر مشکلات کا سامنا تھا،اس لئے نئے گورنر کو سامنے لاکر اپنا کام اُن سے نکالا جارہاہے ۔کچھ ہی مہینوں میں یہ اب عیاں ہوا ہے کہ گورنر ملک دہلی کی بھاجپا سرکار کا ایجنڈا ریاست پہ لاگو کرنے کے کتنے درپے ہیں۔اُن کی تقرری کے دوران ہی یہ خبر آئی تھی کہ دہلی سرکار ایک سیاسی شخصیت کو گورنر کا عہدہ سنبھالنے کے لئے بھیج رہی ہے جب کہ سابقہ طریقہ کار یہ رہاتھا کہ ریاست کی گورنری یا تو کسی سابقہ سول سرونٹ یا سابقہ جنرلوں اور فوجی امور کے ماہرین کا مقدر بنتی تھی ۔ ایس پی ملک کوریاست جموں و کشمیر میں بہ حیثیت گورنر تعینات کر کے بڑا پروپگنڈا کیا گیا تھابلکہ کشمیر یوں پر’’ا حسان‘‘ جتلایا گیا تھا کہ اب ایک سیاسی شخصیت ان کے درد کا درماں بنے گی لیکن گورنر ملک نے جلد ہی اپنے سیاسی چمتکاروں کی نمائش شروع کر دی۔ چنانچہ ریاست میں سیاسی جماعتوں کی مخالفت اور عدم شرکت کے باوجود میونسپل اور پنچایتی الیکشن کروائے گئے۔گورنر نے اپنے ایسے صلاح کار مقرر کئے جن کو جموں و کشمیر کے مخصوص حالات کا بظاہر کوئی علم ہی نہیں، بجزخورشید گنائی اُن میں سے کوئی بھی ایک ریاستی باشندہ نہیں ۔
گورنر اور اُن کی ٹیم کے حالیہ اقدامات میں لداخ کو ڈویژنل اسٹیٹس دینے کا اقدام بھی ایک تاریخی فیصلے کے طور دستان ِ کشمیر میں رقم ہوچکا ہے۔ یہ ایک ایسا اہم سیاسی اقدام ہے جس کی ضرورت اگر ایک مسلمہ حقیقت بھی مانی جائے مگر اس کے لئے فیصلہ لینے قبل عوامی حلقوں میں بحث ومباحثے سے سیاسی فیڈ بیک حاصل کر نے کی ضرورت تھی ۔ بالفاظ دیگر یہ اقدام تمام سٹیک ہولڈروں یعنی لیہہ کرگل سری نگر کے تمام سیاسی وسماجی مکتبہ ہائے فکر سے مشاورت کے بعد اُٹھا یا جانا چاہیے تھا ۔ کیونکہ اِس فیصلے سے ان کا متاثر ہونا فطری امر ہے۔ لیکن اس فیصلے کو الل ٹپ لیا گیا۔ بنابریں اس پر جو رد عمل سامنے آیا ، خاص کر یہ بات دلی اور سری نگر کے اربا ِب ِ اقتدار کے واسطے غور طلب ہے کہ کرگل کی ناراضی کا سبب کیا ہے اورپیر پنچال ا ور وادی ٔ چناب میں اس بابت دکھ اور افسوس کا کیوں اظہار کیا جارہاہے کہ انہیں ڈیویژنل اسٹیٹس کیوں نہ دیاگیا ۔ اس سے یہ عیاں ہوتا ہے کہ یہ اقدام پہلے سے کسی سیاسی تیاری کے بغیر ہی کیا گیا ۔ لیہہ میں اس فیصلے پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا گیا لیکن کرگل کا رد عمل شدیدَ مخالفانہ ہے ۔ کرگل اس فیصلے میں معقول ردوبدل کرنے کا مطالبہ لے کرگلی عوام کی خواہشات کا احترام کر نے کے حوالے سے عوامی مہم چھیڑ چکاہے ۔ واضح رہے کرگل کی لیڈرشپ کو نیا ڈویژن بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے بلکہ وہ لیہہ کو مستقل ڈیویژنل ہیڈ کوارٹر بنانے پر معترض ہے اور مانگ کر رہی ہے کہ ڈیویژنل ہیڈ کوارٹر باری باری بالتریب چھ ماہ لیہہ اور چھ ماہ کرگل میں رکھا جائے ۔ ریاست کے دوسرے دور افتادہ علاقوں جن میں چناب بیسن اور پیر پنچال کے اضلاع شامل ہیں، شد و مد سے علحیدہ ڈیویژن کی مانگ لئے سامنے آر ہے ہیں۔گورنر کے اس تازہ فیصلے نے اختلافات کی پٹاری پوری کی پوری کھول کر رکھ دی ہے اور انواع واقسام کا بیانیے منظر عام پر آ ر ہے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ عرصہ ٔدراز سے زوجیلا کے اُس پار جو بھی سیاسی بیانیہ سامنے آتا رہا،اُس کا تعلق کم و بیش لیہہ سے مماثل ہوتا مگر کرگلی آواز ہمیشہ دبی دبی سی رہتی چلی آرہی ہے۔ یہاں یہ بتا تا چلوں کہ لداخ اور جموں کے چند اضلاع کا بیانیہ ہمیشہ ریاست جموں و کشمیر کی اکثریتی آواز کے بر خلاف ایک متوازی آواز کا روپ دھارے رہا ، جسے دلی سیاسی ہتھیار کے طور استعمال کرتی رہی ہے۔جہاں ریاست کی اکثریت مطلق مسلٔہ کشمیر کے ایک پُر امن، منصفانہ او حتمی حل کی خواہاں ہے، وہی مذکورہ متوازی بیانیہ حالات کو جوں کا توں رکھنے کے طور استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ا س بارے میں دورائے نہیں ۔
لیہہ کو کرگل پہ ترجیح دینے اور جموں ڈیویژن کے چند اضلاع کو چناب بیسن اور پیر پنچال کے دور افتادہ علاقوں پہ ترجیح دینے سے یہ متوازی بیانیہ عرصہ دراز سے اپنی بات منواتا رہاہے ۔ بایں ہمہ ریاستی اضلاع کے ترقیاتی گراف کو دیکھا جائے تو کرگل ہر لحاظ سے لیہہ سے پچھڑا ہوا نظر آئے گا ۔حال ہی میں جب وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ ٔلداخ کے دوران یونیورسٹی قائم کرنے کی بات آئی تو قرعہ ٔفال لیہہ کے نام نکل آیا، حالانکہ اقتصادی میدان کی مانند تعلیم میں بھی کرگل لیہہ سے کافی پیچھے ہے۔یہی بات چناب بیسن اور پیر پنچال اضلاع پر بھی صادق آتی ہے۔جب جب آئی آئی ٹی (IIT) آئی آئی ایم (IIM)جیسے تکنیکی اور منجمنٹ ادارے تعلیمی میدان میں اور صحت عامہ میں ایمز (AIIMS)جیسے طبی مراکز قائم کرنے کی بات آتی ہے تو یہ ان میں سے کوئی بھی ادارہ چناب بیسن اور پیر پنچال کے حصے میں نہیں آتا بلکہ یہاں بھی جموں کے میدانی اضلاع سبقت لے جاتے ہیںاور دُور افتادہ پہاڑی اضلاع ہاتھ مَلے جاتے ہیں۔ضلع کرگل کے لوگ لیہہ میں ڈیویژنل ہیڈ کوارٹر قائم کرنے سے اتنے نالاں ہیں کہ ان کی زبانی سنا یہ بھی جارہاہے اگر آپ یہی کرنا چا ہتے ہیں تو بہتر ہے کر گل کو پہلے کی طرح کشمیر ڈویژنل ہیڈ کوارٹر سے ہی منسلک رکھئے ۔ بہر حال گورنر انتظامیہ کے اس فیصلے کے پیچھے ویسے بھی بظاہر کوئی ایسی انتظامی مجبوری نہیں تھی جو عجلت میں فیصلہ لینے کی موجب بنتی۔ لیہہ اور کرگل اضلاع میں خو د مختار ترقیاتی پہاڑی کونسلیں (Autonomous Hill Development Councils قائم تھیںجو چناب بیسن اور پیر پنچال کو مانگنے سے بھی نہیں ملیں ۔ لہٰذا اس فیصلے سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ لیہہ میں ڈویژنل ہیڈ کوارٹر قائم کرنے کے فیصلے سے بھاجپا انتخابی فوائدسمیٹناچاہتی ہے ۔ نیز اس سے یہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ یہ کشمیر حل کے بیانیہ کے برخلاف متوازی بیانیہ کو بنائے رکھنے اور سنوارنے کی ایک اور کوشش ہے ۔ جہاں یہ صحیح ہے وہاں یہ بھی اپنی گرہ میں باندھ رکھئے کہ متوازی بیانیہ کبھی بھی ریاست جموں و کشمیر کے اکثریتی بیانیہ کو دبا نہ سکا۔ریاست کا اکثریتی بیانیہ وادی کشمیر تک محدود نہیں بلکہ اُس کی باز گشت کرگل سے چناب بیسن اور پیرپنچال تک سنائی دے رہی ہے۔
Feedback on: [email protected]