عقل ودانش عطیہ ٔ الہٰیہ ہے ، اس کے بہتر استعمال سے گتھیاںسلجھتی ہیں ، مسائل حل ہوتے ہیں اور نئے نئے امکانات کی نئی نئی راہیں کھوجی جاتی ہیں مگر مشہور کہاوت ہے کہ انسان کی زیادہ عقل مندی بھی کبھی اس کی دشمن بن جاتی ہے ۔ شاید ریاست کے ایک ہو نہار آئی ایس افسر شاہ فیصل پر یہ مثل صادق آتی ہے کیونکہ انہوں نے عقل وفہم کی قندیل روشن کرتے ہو اپنے ضمیر کی بات زبان پر لانے کی یہ کہہ کر بھول کی کہ انڈیا میںصنف ِنازک پر یشان ہراسان ہے اور بلات کاریاں عروج پر ہیں ۔ اس پر سرکاری سطح پر جو ردعمل ظاہر ہو ا،وہ انتہائی ناقابلِ برداشت ہے ۔ حق یہ ہے کہ انسان اپنے عقل وشعور کے دائرے میںرہ کر اپنا کام کرتا ہے، خدمات انجام دیتا ہے یافرائض سے سبکدوش ہوتا ہے۔ اب جس شخص کا ذہنی پیمانہ یا ظرف جتنا ہو، اتناہی وہ ان سے کا م لے گا ۔ اب کوئی اور اُسے غلط کہے یا صحیح ٹھہرائے ،وہ بات اس کے اپنے ظرف اور ذہنی صلاحیت اور دماغی وسعت کے مطابق ہوگی۔ یہ بھی ایک مسلمہ ہے کہ اگر کوئی شخص سقراط اور گلیلو کی طرح اپنی عقل و دانش کی بنا پراوروں سے آگے نکل رہا ہو تو کوئی اُسے روکنے کی کتنی ہی کوشش کرے، اس کے راستے میں مشکلات اور مسائل روڑا بناکر اٹکائے یا پھر طاقت کے بل پر اس کو پچھاڑنے کی کوشش کرے ، پھر بھی اگر وہ اُس کی پروازِ عقل پر قابو نہ پا سکے وت کیا کہاجائے ؟ آج تک دیکھا یہ گیا کہ عقل وفہم کے آسمان کی بلندیاں چھونے والوں کو دشمنان ِ عقل مات کھاکر اُسے بے ہودہ معاملات میں گھسیٹتے ہیں تاکہ یاتو یہ کج عقلی کے سامنے ذہنی سرینڈر کر ے، یااپنی اڑان روکنے پر آمادہ ہو جائے،یاعوام کی نظروں میںراندۂ درگاہ بنے ، یا اس کے عزم و ارادے میں کمی آئے ، یا وہ حالات کی شدت کے سامنے ٹوٹ جائے ۔ اس حوالے سے شا ہ فیصل( آئی اے ایس ) کی مثال قابل ذکر ہے کیونکہ انہوں نے اپنے متنازعہ ٹوئٹر ناقدین کا منہ بند کر نے کے لئے ا علاناً کہا کہ میں ماہانہ تنخواہ کے لئے اپنے ضمیر پر قفل نہیں چڑھا سکتا ۔ موصوف آج کل ایک اہم سماجی موضوع یعنی ریپ کے بارے میں اپنے تاثرات کی بنا پر پر متنازعہ بن چکے ہیں ۔ انہوں نے مبینہ طور ٹوئٹر پر ملک کو ’’ریپستان ‘‘ کہا جس کا حکومت ہند نے نوٹس لے کر ریاستی حکومت کو ہدایت دی کہ وہ شاہ فیصل سے اس بارے میں وضاحت طلب کر ے۔ شاہ فیصل ایک سینئر آفیسر ہیں جن کاعوامی حلقوں اور ملکی بیروکریسی میںبڑا احترام پایاجاتاہے ۔ انہوں نے ہندوستان کے سب سے بڑے مسابقتی امتحان آئی اے ایس میں اول نمبر پر آکر ریا ست جموں و کشمیر کے نوجوانوںکی خدا دادقابلیت کا ڈنکا بجایا ۔ ان کی کی مقبولیت کے چرچے کافی دیر تک بطور آئی اے ایس ٹاپر ملک اور بیرون ملک ہوئے۔ شاہ فیصل کے سر سے اپنے باپ کا سایہ بچپن میں اُٹھ گیا تھا۔ لہٰذا اُن کا آئی اے ایس میں اول درجہ حاصل کرنا ان کی ذاتی محنت کا نتیجہ اور نجی نجی کوشش کا ہی ثمرہ قرار پاتاہے ۔ نیز اُن کا ٹاپر ہونا کشمیری نوجوانوں کو تعلیم وتدریس کی طرف راغب کرانے میں ایک سنگ ِمیل ثابت ہوا ۔ وہ نہ صرف مقامی نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنے بلکہ ملک میں آبادہر اقلیت کے لیے روشنی کی کرن بنے ر ہے ۔ خطہ پیر پنچال کی بات کریں تو اس سرحدی علاقہ کی لڑکوں اور لڑکیوں نے آئی اے ایس میں بیٹھنے کا انساپائریشن شاہ فیصل کی کامیابی سے بھی پایا ،ان کے لیے شاہ ایک رول ماڈل ہیں کیونکہ انہوںنے ثابت کر دکھایا کہ چاہے حالات کچھ بھی ہوں محنت کرنے والا کبھی ناکام نہیں ہو سکتا اور محنت ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔
ہماری ریاست کے اندر اور ملک کے اندر جس قدر تشویش ناک صورت حال اس وقت پائی جا رہی ہے اس پر سوچنے کے لیے ہر حسا س ذہن انسان غور وفکر تا ہے ۔ میڈیا میں دیکھئے کہ ایسے دلدوز منظر روز ہمارے سامنے آتے ہیں کہ ا نہیںدیکھ کر انسانی روح کانپ جاتی ہے ۔ ایسے ایسے سنگین نوعیت کے جرائم کے چہار سُو رقصاں نظرآتے ہیں جن کا پہلے کہیں کو ئی تصوربھی نہ تھا ۔ ان حسا س معاملات پر مبصرین اور تجزیہ کاروں کے درمیان ہر چینل پر کئی دن بحثیں ہوتی رہتی ہیں۔ان مباحثوں سے رائے عامہ بنتی اور بگڑتی ہے جس کا سیدھا اثر ملک کے تمام شعبوںپر فطری طور پڑتا ہے ۔ خاص کرجب سوشل میڈیا پر ان جرائم کو براہ راست نشر کیا جا تا ہو تو دنیا والے بڑی مایوسی کے ساتھ ان چیزوں کو دیکھتے ہیں اور اس ملک کے بارے میں اپنی رائے قائم کر تے ہیں ۔ ان کے ذہن میں یہاں کے سماج اور اخلاقی سطح کے بارے میں طرح طرح کے خیالات جنم لیتے ہیں ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ملک میں جہاں نعرے تو دئے جاتے ہیں ’’بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو‘‘ کے مگر پھر ان ہی نعروں بازوں کی ناک کے نیچے کھٹوعہ کی آصفہ جیسے المیے جنم لیتے ہیں ،جہاں فرقہ پرستی کی تپش میں جھلس رہے لوگ اوروںکو مذہبی عناد کے سبب موت کے گھاٹ اتار تے ہیں ، جہاں کسی اقلیت کے کھانے پینے یا رہنے سہنے کے عادات اور سماجی طور طریقوں یا مذہبی عبادات پر اکثریت کا غصہ ٹوٹ پڑتا ہے، وہاں صرف میڈیا ہی ایک واحد ذریعہ رہتاہے جس کے سہارے ان منفی چیزوں کی حوصلہ شکنی کے لئے رائے عامہ منظم کی جاسکتی ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ایک ایسا ملک ہے جو دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک تصور کیا جاتاہے اوریہاں کبھی گنگا جمنی تہذیب کا ٹھاٹھے مارتا ہواسمند بہتا تھا، لیکن اب یہاں انسانوں کا ہجومی قتل اور عورتوں کی عزت ریزیاں معمولاتِ زندگی کا حصہ بنائی جا چکی ہیں اور حالات ایسے بنائے گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ملک میں اب شہر یوں کو ایک دوسر ے سے اجازت لے کر اپنے پہناوے اور خوردونوش کا فیصلہ لینا ہوگا ۔ایسے میں جمہوریت کی توہین اور جرائم کی تعظیم پر سوال کیوں نہیں اُٹھ سکتے، شاہ فیصل نے اگر اپنے ضمیر سے پوچھ کر یہ سوال اُٹھائے تو کیا اس پر برافروختہ ہونے کی ضرورت نہیں بلکہ اصلاح کا نشتر چلانے کی حاجت ہے ؟
پچھلے کئی سال سے ملک بھر میں ہمارے آگے پیچھے جو ناقابل برداشت حالا ت اور واقعات یکے بعد دیگرے رونما ہو رہے ہیں شاید ہی کوئی بیدارضمیر جرائم پیشہ ٹو لوں کو سماج میں برداشت کر پائے گا۔اس صورت حال سے اپنے ضمیر پر کچوکے کھاکر اگر کوئی اس نیت سے اس بارے میں ٹھیک ٹھاک تنقیدی چرچا کر تاہے کہ سماج میں اصلاح کے سوتے پھوٹ پڑیں ، قانون کا بولا بالا ہو تو اس کی بات سننی چاہیے ، چاہے یہ میٹھی لگے یا کڑوی ۔ ان واقعات پر ویسے بھی ہندوستان کے ہر باغیرت ، ہر باشعور اور ہر سچے شہری کے دل میں آگ لگ جاتی ہے اور جب اور جہاں ایسے ایسے جرائم اور گناہوں کا وہ صدور ہوتا ہوا دیکھتا ہے تو اس کی روح تھر تھر کانپ جاتی ہے ۔ اس صورت حال کو بدلنے کے لئے وہ مہذبانہ اور مصلحانہ زبان استعمال کر کے زیادہ سے زیادہ سوشل میڈیا پر انحصار کر ے اور غلط چیزوں اور شر انگیزی کے خلاف اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرے تو اس پر چیں بہ چیں ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اور اگر اپنے مافی الضمیر کو ظاہرکر نے کے واحدذریعہ یعنی سوشل میڈیاکوبھی ارباب اقتدار عام شہریوں سے چھین لیں تو جمہوریت اور انسانیت کا دم گھٹ جانا یقینی ہو گا ۔ دنیانے کچھ ہی عرصہ قبل یہاں ضلع کھٹوعہ جموں میں ایک آٹھ سالہ معصوم بیٹی آصفہ کی عصمت دری اور اس کے قتل کا دل دہلا دینے والا جو شرم ناک واقعہ تصویروں کی زبانی دیکھا، تو سب کے کلیجے پھٹ گئے مگر دنیا کی آنکھیں یہ دیکھ کر بھی پھٹی پھٹی کی رہ گئیں کہ عقل اور انسانیت سے عاری کچھ لوگوں نے زانیوںاور قاتلوں کی حمایت میں ترنگا بردار جلوس نکالے اور ہندوایکتا منچ جیسی فرقہ پرست تنظیم وجود میں لاکر اپنی خباثت کا بھر پور مظاہرہ کیا ۔ حد یہ کہ اس المیے پر قانون کا ساتھ ساتھ دینے کی بجائے بعض قانون دانوں نے خلاف ِقانون حرکات کر کے انصاف کی راہ میں رکاوٹ بننے سے بھی گریز نہ کیا۔ کورٹ کے اندر پولیس کو تفتیشی چالان دائر کرنے سے روک دینے کا کیا کوئی جواز بنتاتھا؟ ا س المیہ پر اگر کسی کا ضمیر جاگ گیا اور اس نے مجرموں کی کھلی ملامت کی تو کیا اس کے ضمیر اور زبان کو بند کر دینے کا مطلب یہ نہیں نکلے گا کہ مجرم کو جرائم کا مزید حوصلہ ملے گا؟چند دن پہلے بیرون ریاست ایک اور معصوم بچی کے ساتھ دو لڑکوں نے عصمت دری کرنے کے بعد اپنا جرم چھپانے کے لئے اس غریب کو مار ڈالا اورسرراہ پھینک دیا ۔ اس پر پورا ملک ایک ساتھ کھڑا دکھائی دیا کہ ایسے ظالم کو بغیر مقدمے چلائے پھانسی پر لٹکایا جائے بلکہ جس دھرم سے یہ تعلق رکھتا تھا ، اس کے پیروکاروں نے اس کی آخری رسومات پوری نہ کر نے کا بھی پیشگی اعلان کر دیا ۔ ہمیں مجرموں کے خلاف بیداریٔ ضمیر کی اشد ضرورت ہے۔ جرائم کا نہ کوئی مذہب ہوتاہے، نہ قومیت انہیں بیخ وبُن سے اکھاڑدنیا ضروری ہے ۔ مجرموں کو دنیا کے سامنے لانا ناگزیر ضرورت ہے، ظالم کی مذمت اور مظلوم کی حمایت انصاف کا بنیادی تقاضاہے ۔ عصمت دریوں اور قتل ناحق کے واقعات کو مذہب کی عینک سے نہیں دیکھا جانا چاہیے بلکہ ا ن میں ملوث لوگوں کو کڑی سزا ملنی چا ہیے تاکہ دوبارہ کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرأت نہ کرے۔حوا ؑ کی کسی بیٹی کی عصمت دری ایک بار ہو جائے چاہے وہ کسی بھی دین و مذہب سے ہو ، اس کی کھوئی ہوئی عزت اس کی زند گی میں لوٹ کے نہیں آسکتی ۔ ایسے جرائم کا پردہ چاک کر نا لازمی ہوچکاہے مگر یہ کون کرئے گا؟ کوئی جرائم پیشہ کرئے گا؟ کوئی عصمت دری کرنے والا کرئے گا؟ کوئی قاتل کرئے گا ؟ کوئی فرقہ پرستی پر اپنا سیاسی محل تیار کرنے والا کرے گا جس کے منہ سے کبھی سچی بات نکل ہی نہیں سکتی ؟بالکل نہیں اس کا پردہ چاک ہندوستان کا ہر پڑھا لکھا شاہ فیصل جیسا حسا س دل نوجوان کرے گا ۔ پو چھا جاسکتا ہے کہ اس میں کس گناہ کا صدورہو گیا کہ شاہ فیصل نے عصمت ریزیوں کے بڑھتے ہوئے واقعات پر لفظ’’ ریپستان‘‘ کا استعمال کیا۔ انہوں نے ضمیروں کو جنجھوڑنے کے لئے تعمیری جذبے سے تنقید برائے اصلاح کا لازمی فریضہ ادا کیا۔ انہوںنے ایسے ناقابل معافی جرائم میں ملوث مجرموں کوکیفرکردار تک پہنچانے کے لئے اپنی آواز بلند کی ۔ یہ ان کے ایمان اور انسانیت کی نشانی ہے ،ورنہ وہ بھی ایک اعلیٰ عہدے کے کروفر سے لیس زندگی بسر کر ر ہے ہیں، خواتین کے خلاف ظلم وجبر پر خاموش رہتے تو کون ان کی تنخواہ کم کرتا یا بند کر تا؟ انہوں ملالہ یوسف زئی کی طرح حق بات کہنے میں کوئی پس و پیش نہ کیا ، انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں رنگ، نسل، مذہب، ذات ، برادری سے بالاتر آدمیت کے حق میں آواز بلند کی ۔ کیا کسی گناہ گار کو گنہگارکہنا بھی گناہ ہے؟ کیا کسی معصوم کی عزت اور جان بچانے کے لیے آواز بلند کرنا کسی آئی ایس اے کے لیے جرم ہے ؟ کیا سماج سدھار کاکام ایک اعلیٰ سرکاری آفیسر کے لئے شجر ممنوعہ ہے ؟ اگر ایسا کچھ نہیں ہے، تو اگر شاہ فیصل نے سماج کی دُکھتی رگ پر انگلی رکھا ہے تو عقل کے اندھے ان پر محکمانہ کاروائی کی کتنی بے تُکی مانگ کر رہے ہیں ؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اُن کو شاباشی ملتی مگر ہو ایہ کہ ان سے explination مانگی گئی۔ اگر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ بولنے والے ہی صفائی کے کٹہرے میں کھڑے کئے تو سچ کون بولے گا حق کی بات کون کرئے گا ؟ ریاست کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا اور کہا کہ شاہ فیصل کے خلاف کسی بھی غلط اقدام کو برداشت نہیں کیا جائے گا ۔ایک ذمہ دار سرکا ری آفیسر کی نگاہ میں ہر شہری ایک جیسے مساویانہ حقوق رکھتا ہے ۔ اُ س کے لئے ہر کسی کا دکھ درد برابر ہوتا ہے، یہ نہیں کہ امیر کا درد زیادہ اور غریب کا درد کم ۔ ایک مذہب سے تعلق رکھنے والے کی ہمدردی زیادہ اور دوسرے مذہب والے سے کم ، کالے سے بیر اور گورے سے پیار۔ نہیں ایساہوتا ہے ۔ا س کی قلم سب کے لیے انصاف کے حق میں یکسان طور اٹھتا ہے ۔ اس کے لیے کسی بھی معصوم بچی یا خاتون کی جان اور عصمت اپنے سگے سمبندھیوں جیسی ہوتی ہے۔ کسی بھی ایک شخص کا مسئلہ ان کی راتوں کی نیند اور چین اڑا دیتا ہے۔امید ہے کہ شاہ فیصل میں یہ اوصاف اُن کی شخصیت میں پنہاں ہوں گی ،اسی لئے سوشل میڈیا مین اپنی عقل و دانش کے مطابق حق بات کہی ۔ اس کے ردعمل میں شاہ فیصل پر محکمانہ کاروائی کی جو ہدایت مرکزی سرکار نے ریاستی سرکار سے کی ہے اس کا لوگوں میں کوئی اچھا تاثر نہیں گیاہے ۔ نیزہر ملازم سماج ہی کا رُکن ہوتا ہے ،اُسے اچھے کوا چھا کہنے اور برے کو برا کہنے کی آزادی ہونی چاہیے ، یہی دورجدید کا جمہوری مزاج کہلاتا ہے ۔
………………..
9419170548