۔ 3ڈاکٹروں اور کھاد ڈیلر کو پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا
سرینگر// لال قلعہ کار بم دھماکہ کیس کے ایک اہم ملزم عامر رشیدساکن سانبورہ پانپور کو پیر کے روز10 دن کی این آئی اے تحویل میں بھیج دیا گیا ۔ایجنسی بین ریاستی “وائٹ کالر” ملی ٹینسی ماڈیول کے پیچھے کی سازش کو بے نقاب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔عامر کو سخت حفاظتی انتظامات کے درمیان پٹیالہ ہائوس کورٹس احاطے میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج انجو بجاج چاندنا کی عدالت میں لایا گیا۔میڈیا والوں کو عدالت کے احاطے میں داخل ہونے سے روک دیا گیا جس سے کارروائی عملًا ان کیمرہ ہوگئی۔بعد میں جج نے قومی تحقیقاتی ایجنسی کی درخواست کی اجازت دے دی جس میں ملزم سے 10 دن کی تحویل میں پوچھ گچھ کی جائے گی۔دہلی پولیس اور ریپڈ ایکشن فورسکی بھاری تعیناتی عدالت کے احاطے کے باہر دیکھی گئی۔عامر ممکنہ طور پر ڈاکٹر عمر نبی کے ساتھ رابطے میں رہنے والا آخری شخص تھا، جو بارود سے بھری کار چلا رہا تھا ۔یہ ریمانڈ ایک دن بعد آیا ہے جب این آئی اے نے اس کی گرفتاری کا اعلان کیا تھا کہ وہ مبینہ طور پر “خودکش بمبار” کے ساتھ حملے کو انجام دینے کی سازش رچ رہا تھا۔این آئی اے کی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ دھماکے میں استعمال ہونے والی گاڑی عامر کے نام پر رجسٹرڈ تھی، جس نے گاڑی کی خریداری میں سہولت فراہم کرنے کے لیے خاص طور پر دہلی کا سفر کیا تھا۔ اس گاڑی کو بعد ازاں حملے کو انجام دینے کے لیے “وہیکل برن امپرووائزڈ ایکسپلوسیو ڈیوائس (VBIED)” کے طور پر استعمال کیا گیا۔ڈاکٹرعمر کے “وائٹ کالر” ماڈیول کے ساتھ روابط معلوم تھے جسے حال ہی میں 10 نومبر کو ہریانہ کے فرید آباد سے دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے بعد بے نقاب کیا گیا تھا۔اس معاملے میں جموں و کشمیر پولیس نے اب تک آٹھ لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔
ایک اور گرفتاری
جاسر بلال وانی عرف دانش، جو ایک قاضی گنڈ کا 22سالہ نوجوان ہے،کو جموں و کشمیر میں NIA کی ایک ٹیم نے گرفتار کیا ۔این آئی اے کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ جاسر نے مبینہ طور پر خوفناک کار بم دھماکے سے قبل ڈرون میں ترمیم کرکے اور راکٹ بنانے کی کوشش کرکے حملوں کو انجام دینے کے لیے تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔این آئی اے کے مطابق ملزم، حملے کے پیچھے ایک سرگرم شریک سازش کار تھا اور اس نے ڈاکٹرعمر کے ساتھ مل کر ملی ٹینسی کی منصوبہ بندی کی تھی۔انسداد دہشت گردی ایجنسی کی متعدد ٹیمیں متعدد لیڈز کا تعاقب کر رہی ہیں، اور حملے میں ملوث ہر فرد کی شناخت کے لیے ریاستوں میں تلاشی لے رہی ہیں۔
۔2000سے پوچھ تاچھ
فرید آباد پولیس نے پیر کے روز کہا کہ شہر میں کرائے پر رہنے والے تقریباً2000 کشمیریوں سے پوچھ تاچھ کی گئی ہے، جن میں سینکڑوں طلاب بھی شامل ہیں۔پولیس کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی اس لئے انجا م دی جارہی ہے کہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ دھماکے کیلئے ذمہ دار مبینہ وائٹ کالر ٹیرر ماڈیول میں کوئی اور ممکنہ لیڈ اور لنکس مل سکے۔پولیس حکام کے مطابق شہر میں رہنے والے کم از کم 2000 کرایہ داروں اور طلباء سے اب تک پوچھ گچھ کی جا چکی ہے جن سے مزید پوچھ گچھ جاری ہے۔
۔4افراد رہا
لال قلعہ دھماکے کے سلسلے میں حراست میں لئے گئے تین ڈاکٹروں سمیت چار افراد کو این آئی اے نے رہا کر دیا ہے کیونکہ تفتیش کاروں کو ان کا ڈاکٹر عمر سے جوڑنے والا کوئی ٹھوس ربط نہیں ملا۔ رہائی پانے والے افراد، ڈاکٹر ریحان، ڈاکٹر محمد، ڈاکٹر مستقیم، اور کھاد ڈیلر دنیش سنگلا کو حالیہ دنوں میں ہریانہ کے نوح میں گرفتار کیا گیا تھا۔تین دن کی شدید پوچھ گچھ کے بعد، حکام کو ان چاروں کو ملوث کرنے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت یا ڈیجیٹل فوٹ پرنٹ نہیں ملا۔ ان کے اہل خانہ نے ان کی رہائی کی تصدیق کی لیکن مزید تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔اس دھماکے کے سلسلے میں اب تک میوات سے 7 افراد کو حراست میں لیا گیا ہے، جن میں سے چار کو اب رہا کر دیا گیا ہے۔