بالآخرالیکشن کمیشن نے گجرات میں انتخابات کی تاریخوں کا اعلان کرہی دیااور اس کے فوراً بعد ہی بی جے پی نوازنیوز چینلوں نے بی جے پی کی ممکنہ بھاری جیت کی پیش گوئی بھی کر دی۔ایک چنل نے ۱۸۰؍ میں سے ۱۱۵ تا ۱۲۰؍ نشستیں بی جے پی کی جھولی میں ڈال دیں ، دوسرے نے ۱۲۰؍ سیٹوں سے زیادہ پر بی جے پی کے جیت کا امکان ظاہرکیا۔ان کے نزدیک جو کچھ بھی اس سے پہلے گجرات میں چل رہا تھا یا دکھائی دے رہا تھا،وہ سب ہَوا تھا خواہ وہ راہل گاندھی کی مختلف سبھائیں ہوں جن میں آئی ہوئی لاکھوں نفری کی بھیڑہو یا خود راہل گاندھی کا بدلا ہوا تیور اور اوتار ہویا ۳؍ نوجوان لیڈروں یعنی ہاردک پٹیل،الپیش ٹھاکور اور جِگنیش میوانی کا اپنے اپنے سماج میں اثر و رسوخ ہو۔سب کچھ اِن چینلوں کے سامنے پانی ہو گیااور وہ بھی ۵؍سے ۶؍ہزار افرادسے بات چیت کے نتیجے میں۔اِن چینلوں کو شاید پتہ نہیں کہ ان کی ایسی حرکتوں سے سماج کا ایک بڑا طبقہ ان سے نہ صرف متنفر ہے بلکہ ان کی خبروں کو دیکھنا بھی پسندنہیں کرتا اور اگر دیکھ بھی لے تو ان پریقین نہیںکرتا۔ یہ ہندوستانی الیکٹرانک میڈیا کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے کیونکہ لوگوں کو ابھی سے یہ پتہ ہے کہ ۲۰۱۹ء کے عام انتخابات میں ایسے چینلوں کا رجحان اور اندازِ گفتار کیا ہوگا؟لاکھ مسائل اِس مودی حکومت نے اُس وقت تک پیدا کئے ہوں لیکن ان کے نزدیک ان مسائل میں بھی خوبیاں نظر آئیں گی اور مودی بھکتی میں یہ آسمان و زمین کے قلابے ملاتے رہیں گے۔یہ ایسا کیوں کر رہے ہیں ، اِس کا جواب بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔آج بی جے پی پارٹی فنڈ کے معاملے میں سب سے زیادہ پیسوں والی پارٹی ہے۔یہی سبب ہے کہ اس کے ذرائع بھی دوسری پارٹیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہو گئے ہیں۔یہ روپے پیسے سے متاثر تو کرتی ہی ہے ،بڑے بڑے اشتہارات بھی مہیا کرا سکتی ہے۔حکومت کے تمام اشتہارات اسی کے قبضے میں ہیں کہ جس کو چاہے مالا مال کردے۔
گجرات میں پاٹیدار آندولن میں شگاف ڈالنے کے لئے بی جے پی نے ہاردک پٹیل کے دست راست نریندر پٹیل کو ۱؍کروڑ روپے کالالچ دے کر اپنے پالے میں کر لیا تھاجس میں سے ۱۰؍لاکھ روپے بیعانہ کے طور پر ادا کئے تھے ،اس کے نتیجے میں نریندر پٹیل بی جے پی میں شامل ہو گئے تھے لیکن وہ ایک سی ڈی لے کر آئے ہیں اور بی جے پی کی کارستانی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ کس طرح بھاجپا نے انہیں پیسے کے بل پر خریدا۔ہاردک پٹیل نے تو یہاں تک کہا ہے کہ جب وہ جیل میں تھے تو بھاجپا نے ۱۲۰۰؍ کروڑ روپے کی پیش کش کی تھی کہ وہ اپنا تیور اور وفاداری بدل لیں اور بی جے پی کے ساتھ آجائیں،یعنی بی جے پی کے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں ہے۔اگر ان ابھرتے ہوئے لیڈروں کی مانیں توگجرات میں اپنی حمایت میں کرنے کے لئے بی جے پی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے کیونکہ اُسے پتہ ہے کہ گجرات ہارنے کے بعد ۲۰۱۹ ء کا عام چناؤ اس کے لئے جیتنا آسان نہیں رہ جائے گا۔
بی جے پی نے یہ خیال بھی خود سے پیدا کر رکھا ہے کہ فلاں انتخاب اسے وہاں تک پہنچا دے گا ،فلاں اسے نیچے گرا دے گا۔اتر پردیش کے الیکشن میں بھی اس نے سب کچھ داؤ پر لگا رکھا تھا۔خود وزیر اعظم بنارس کی گلیوں کی خاک چھانتے پائے گئے۔یہ اور بات ہے کہ انہیں اس کا فائدہ بھی ملا کہ پارٹی بھاری اکثریت سے یوپی میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی لیکن اُس وقت بھی یوپی کے انتخابات کو وقار کا مسئلہ بنا لیا گیا تھا اور تجزیہ نگار یہ کہتے اور لکھتے تھے کہ یوپی کے نتائج ۲۰۱۹ء کے پارلیمانی انتخابات کے سمت متعین کریں گے اور آج یہی بات گجرات کے اسمبلی الیکشن کے تعلق سے کہی جا رہی ہے۔ کل مدھیہ پردیش اور راجستھان میں بھی الیکشن ہونے والے ہیں اور جو شاید عام انتخابات سے کچھ مہینوں پہلے ہوں گے۔تو کیا اُن انتخابات کے لئے بھی اسی طرح کی باتیں نہیں کہی جائیں گی کہ وہ ۲۰۱۹ء کے انتخابات کا سمت طے کریں گے؟بالکل اسی طرح کی باتیں ہوں گی اور یہ سب میڈیا کے ذریعے بی جے پی ہی کہلواتی ہے تاکہ مقابلہ دلچسپ ہو اور اُس کے کیڈر ہمہ وقت جیت کے موڈ میں رہیں۔در اصل بی جے پی نے جیت کا مزہ چکھ لیا ہے اورہار ا س سے برداشت نہیں ہوسکتی۔جیتنے کے لئے جو بھی طور طریقے ہوں ،یہ اپنائے گی خواہ وہ طور طریقے بے جا ہوں یا بجا۔ماضی قریب میں تو یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ کس طرح گوا اور منی پور ہارنے کے بعد بھی پی جے پی وہاں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی تھی ۔یہی واردات گجرات میں بھی دہرائی جائے گی۔خدشہ اس بات کا بھی ہے کہ گجرات میں کانگریس کے جیتنے کی صورت میں بھی بھاجپا حکومت بنانے کی پوری کوشش کرے گی۔تو کیا یہاں اشوک گہلوٹ منہ دیکھتے رہ جائیں گے جس طرح دِگ وجے سنگھ کے ساتھ گوا میںہوا تھا اور منی پور میں ایک دوسرے سِنگھ جو ۱۵؍برسوں سے اقتدار میں تھے؟پتہ نہیں ۱۵؍برسوں میں انہوں نے سیاست میں کیا کھیل کھیلا تھاکہ نومولود امیت شا سے چت ہو گئے۔ کانگریس کے اندر سب سے بڑا مسئلہ فوری فیصلہ لینے کا فقدان ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام تر نام نہاد ہائی کمان پر منحصر ہے۔کانگریس میں ہائی کمان تو اب تک سونیا گاندھی کو مانا جاتا رہا ہے لیکن کیلیفورنیا (امریکہ) سے واپس آنے کے بعد جس انداز میں راہل گاندھی نے اپنے کو پیش کیا ہے اور مودی اور ان کی حکومت کو جس طرح آڑے ہاتھوں لیا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہائی کمان وہی ہیں اورسونیا گاندھی پس منظر میں چلی گئی ہیں۔یہ تو کانگریس کے لئے اچھاشگون ہے لیکن اس کام میں بھی دیر نہیں کرنی چاہئے اور راہل کو جلد از جلد پارٹی صدر کے عہدے پر براجمان کر دینا چاہئے تاکہ کوئی ذ ہنی اُلجھن برقرار نہیں رہے۔
ٹی وی چینل والوں نے بی جے پی کی زبان میںیہ راگ الاپنا شروع کر دیا ہے کہ کانگریس کے پاس کوئی لیڈر نہیں ہے اور اسی لئے وہ گجرات میںچین کے مال یعنی امپورٹیڈ لیڈروں (ہاردک،کلپیش اور جِگنیش) پر تکیہ کر رہی ہے۔اِس راگ کو زیادہ سے زیادہ تشہیر دینے پر زور دیا جا رہا ہے کیونکہ بھاجپا نواز چینلوں کی نظر میں راہل گاندھی کوئی قابل ذکر لیڈر نہیں ۔انہیں جتنا اور جس طرح سے damageکیا جاجا سکتاہے،کیا جائے لیکن جس طرح کعبے کو صنم خانے سے پاسبان مل جاتے ہیں ،اُسی طرح شیوسینا نے راہل گاندھی میں ایک باصلاحیت لیڈر کو تاڑ لیا ہے اور یہ بیان دیا ہے کہ راہل گاندھی ہی مودی کو چیلنج پیش کر سکتے ہیں ۔یہ بھلے ہی بغض ِحریف میں دیا گیا بیان ہو لیکن راہل گاندھی کی لیڈر شپ کو تقویت پہنچاتا ہے۔اِس کے ساتھ ہی راج ٹھاکرے نے بھی راہل گاندھی کو پپو یا کچھ اور کہے جانے پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے،نیز راج نے بھی راہل کی ممکنہ قائدانہ صلاحیت کی توثیق کر دی ہے۔گجرات میں چینلوں نے کانگریس کو ۶۰؍ سے ۶۵؍ سیٹوں کی پیش گوئی کی ہے جو ۲۰۱۲ء کے مقابلے میں صرف ۵؍زیادہ ہیں، وہیں ہاردک پٹیل و دیگر کو صفر سیٹیں دی ہیں ۔واضح رہے کہ ہاردک نے ابھی تک کوئی پارٹی نہیں بنائی ہے اور نہ ہی کسی پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس کا کیا مطلب سمجھا جائے؟ یہی نا کہ چینلز والے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں اورگزشتہ ۶؍ماہ سے جو گجرات میں چل رہا ہے وہ کچھ بھی نہیں ہے۔اگر کانگریس کے حق میں ۲۵۔۲۰ سیٹوں کا اضافہ ہو جاتا ہے تو؟؟؟زمینی حقائق تو یہی کچھ کہہ رہے ہیں ۔یہی سبب ہے کہ وزیراعظم کو گزشتہ ۱یک؍برس میں ۱۰؍ اور ایک ماہ میں ۴؍بار گجرات جانا پڑاہے۔پچھلے دنوںایک معاصر اخبار کے مطابق وزیر اعظم گجرات الیکشن کے پیش نظر ۵۰؍سے زیادہ سبھائیں کریں گے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنا کام کب کریں گے؟ کیا صوبہ در صوبہ جیتنے کے چکر میں ملک کا بٹہ نہیں لگتا جا رہا ہے؟
ٹی وی چینلوں کو کیا یہ نظر نہیں آتا کہ بی جے پی کے پاس گجرات میں کون سا لیڈر ہے؟الیکشن کی تاریخوں کا اعلان ہونے کے بعد ایک صاحب ٹی وی پر آرہے تھے اور دعویٰ کر رہے تھے کہ بی جے پی اِس بار ۱۵۰؍ سے زیادہ سیٹیں جیت لے گی۔گھر میں ،میں نے پوچھا کہ پہچانتے ہو یہ کون ہیں ؟ جواب ’ناں‘ میںملا۔یہ روپانی تھے ،گجرات کے وزیر اعلیٰ جنہیں شکل سے شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں۔یہی حال یوپی ،ہریانہ اور اترا کھنڈ کا ہے۔وہاں بھی بی جے پی کا کوئی مقامی لیڈر نہیں اور مودی کے بل بوتے پر انتخابات جیتے گئے۔اترا کھنڈ کا وزیر اعلیٰ کون ہے ، کون جانتا ہے؟ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ کو گرمیت کی بدولت لوگوں نے جان لیا، ورنہ ان کا حشر بھی اُتراکھنڈ کے وزیر اعلیٰ جیسا ہی ہوتا۔ مطلب یہ ہے کہ بی جے پی والے اور سنگھ نواز میڈیا راہل گاندھی کو نیچا دکھانا چھوڑ دیں کیونکہ’ ڈٹے رہنا ‘بھی ایک بہت بڑی صلاحیت ہے اور اس کا پھل راہل گاندھی ضرور کھائیں گے۔
نوٹ :مضمون نگار ماہنامہ تحریرِ نو، نئی ممبئی کے مدیر ہیں
رابطہ 9833999883