دوسرے دن پروفیسرماہان مرزاکے ریسرچ گروپ نے میدان میں مورچہ لیا،اس کے سورمائوںمیں :شہزاداحمدنے نظریہ ارتقاء کے سلسلہ میں علماء دیوبندکاموقف بتایااوراس پرسخت تنقیدکی ۔اس سلسلہ میں انہوںنے فتاوی کی کتابوںسے جومواداستعمال کیاوہ بڑاخام قسم کا تھا۔اس سلسلہ میں اصل کام وحیدالدین خاں کا ہے جن کی کتاب’ مذہب اورجدیدچیلنج،‘مذہب اورسائنس‘ اور’اظہاردین ‘میں سائنسی موضوعات پر وسیع مطالعہ کی روشنی میں اظہارخیال ملتاہے اورانہوںنے ریشنل بنیادوںپر ارتقاء کومستردکرنے کی کوشش کی ہے۔روایتی علما اورمفتیان نے سائنس کے بارے میں چندمفروضات سنی سنائی باتوںپر قائم کرلیے ہیںاس لیے ان کی کتابوںیافتاوی میں اس کے بارے میں کوئی کام کی بات موجودنہیں۔شہزاداحمدنے البتہ عالم عرب کے بارے میں بتایاکہ وہاںارتقاء وغیرہ کے بارے میں اتناتوحش یابے خبری نہیںپائی جاتی جتنی برصغیرمیں پائی جاتی ہے۔یادرہے کہ ڈاکٹرمحمدحمیداللہ نے ارتقاء کے بارے میں مثبت رائے دی تھی اوراپنے خطبات بھاولپورمیں ایک جگہ بتایاہے کہ مسلم فلاسفراورصوفیاء کے ہاںیہ تصورکسی نہ کسی شکل میںپایاجاتاہے اس کے لیے انہوںنے ابن مسکویہ کا حوالہ دیاہے۔
دوسرے انقلابی تحقیق کاروقاص احمدنے تاریخ عظیم The Big History کا تعارف کرایااوربتایاکہ کس طرح اس سے پورا ورلڈویوتبدیل ہوکررہ جاتاہے اورمذہب کے سامنے کیساشدیدچیلنج پیداہوجاتاہے ۔ان کے مطابق تاریخ عظیم ارتقاسے بھی آگے کی چیز ہے اوراس سے مذہب کی جڑبنیادہی ختم ہوکررہ جاتی ہے۔تاہم اس پر راقم کا سوال یہ ہے کہ تاریخ عظیم کی بنیادBig Bang تھیوری ہے۔سائنس کے نزدیک کائنا ت کی پیداپش بگ بینگ کے ذریعہ تقریبا13بلین سال پہلے ہوئی ۔اب سوال یہ ہے کہ یہ انفجارعظیم کس نے کیایہ کیوںکرہوا،یہ اسی وقت کیوںہوااس سے پہلے یابعدمیں کیوںنہیں ہوا؟سائنس کہتا ہے کہ اندھے قوانین فطرت کے مطابق خودبخودہوا،مذہب کہے گاکہ خدانے کیا۔اسی طرح سائنس اس سوال کا جواب بھی نہیں دیتی کہ قوانین فطرت کس نے بنائے اوران کوکون حرکت دیتاہے؟سائنس کہے گا کہ یہ قوانین خودنیچرکے اندرسے برامدہوئے مذہب کہے گاکہ خدانے بنائے ۔اس لیے مجھے ایسالگتاہے کہ تاریخ عظیم وغیرہ سے متوحش یاخوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔
محمدتہامی بشرعلوی نے اپنے معنی خیز پیپر’’سائنسی دوراورمذہبی بیانیے ‘‘ میں اب تک پیش کیے گئے مذہبی بیانیوںاوران پر واردہونے والے اشکالات کا جائزہ لیا۔ان کے مطابق مذہبی متون کی تعبیرمیں جومناہج اختیارکیے گئے ان میں ایک یہ ہے کہ متن کوکثیرالمعانی جان کرلغت کے اشتقاقات کی بنیادپر معنی متعین کیاجائے ۔یہ منہج غلام احمدپرویزنے اختیارکیااوراس پر سب سے بڑااعتراض تویہی واردہوتاہے کہ اس میں بغیرکسی دلیل کے لغت کے واضح اورمتبادرمعنی کوچھوڑکرغیرمتبادرمعنی کی طرف جایاجاتاہے جس کی کوئی بنیادنہیں ہے۔دوسرامنہج سرسیدکا ہے کہ معانی میںارتقاتسلیم کیاجائے اورجس زمانہ میں جومعنی فٹ بیٹھے اس کوقبول کرلیاجائے ۔انسانی علم وتجربہ بڑھے گاتوواحددرست معنی بھی سمجھ میں آجائے گا۔یہ منہج پہلے سے بہترہے مگراشکالات سے خالی نہیں۔اس میں فرض کیاجاتاہے کہ ورک آف گاڈاورورڈ آف گاڈ میں تضادنہیں ہوسکتااس لیے ورڈ آف گاڈکوورک آف گاڈ کے مطابق سمجھاجائے گا۔سوال یہ ہے کہ اس کا الٹاکیوںنہیں ہوسکتاکہ ورک آف گاڈکوورڈ آف گاڈ کے مطابق سمجھاجائے، جیساکہ روایتی علماء کہتے ہیں؟ایک منہج یہ ہے کہ صریح عقل اورصریح نقل میں تعارض نہیں ہوگایہ مولاناتھانوی کا نقطہ نظرہے ۔ انہوںنے اس کی چارصورتیں بیان کی ہیں۔البتہ آج تاریخ عظیم اورارتقاء کوتسلیم کرلینے کے بعدعقل ونقل میں تعارض پایاجارہاہے تواس کوکیسے دورکیاجائے گا؟اس سوال کا کوئی جواب اس نقطہ نظرکے پاس نہیں ہے۔ایک بیانیہ یہ ہے کہ سائنس اورمذہب دونوںکا مقصداوردائرہ کارالگ الگ مان لیاجائے ۔یہ مولاناانورشاہ کشمیری کی رائے ہے۔
ایک بیانیہ ڈاکٹرفضل الرحمن کا ہے کہ سامعین کے شعورکی جوسطح تھی اس کوسامنے رکھ کرایک بات مذہبی متن میں کہ دی گئی ۔اس تعبیرکومان لینے کے نتیجہ میںکائنات کی تفہیم سائنس سے ہوگی مذہب سے نہیں ہوگی ۔ بلاشبہ فضل الرحمن کے ہاںجدیددورکا گہراادراک پایاجاتاہے مگریہ سارے بیانیے اشکالات سے خالی نہیں ان پر غوروفکرکا سلسلہ جاری رہناچاہیے۔البتہ راقم کا رجحان ابھی تک مولاناانورشاہ کشمیری کی رائے کی طرف ہے۔بلکہ کشمیری اورفضل الرحمن کی رایوںمیں مطابقت دی جاسکتی ہے۔
اگلی مقالہ نگارمریم مدثرکی غیرموجودگی میں سمیرہ رابعہ نے ان کامقالہ پیش کیاجس میں بتایاگیاتھاکہ علاج اورInhancement میںفرق یہ ہے کہ مؤخرالذکرمیں انسان کی صلاحیت کوفطری حدسے بڑھادیاجاتاہے مثلا اس کی نیندمیں کمی لائی جاسکتی ہے۔اس کی اغلاط کی شرح میں کمی آئے گی ،اس کے فہم میں اضافہ ہوگا۔جنین کی بیماریوںکوختم کیاجاسکے گا۔بولنے اوریادرکھنے کی صلاحتیںبڑھیںگی۔نیوروسائنس میں اس سے کام لیاجاسکتاہے ۔مثال کے طورپر3 Dپرنٹنگ ترکیب سے انسانی دماغ میں مطلوبہ تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔انہوںنے بتایاکہ پہلے صحت و مرض کا تصوریہ تھاکہ اگرکوئی بیمارنہیں ہے تووہ صحت مندسمجھاجاتامگرآج انسان صحت مندتب سمجھاجائے گاجب بیماربھی نہ ہواوروہ اپنے معاشر ہ میں فٹ ہوجائے اورخوش رہ سکے ۔مقالہ بڑامعلوماتی تھااوراس سے اندازہ کیاجاسکتاہے کہ سائنس اورخصوصاً میڈیکل سائنس اب کس رخ پر جانے والی ہے۔اوراس سے انسان کے مستقبل پر کیامثبت ومنفی اثرات پڑیںگے ۔
پروفیسرماہان مرزاکا مقالہ Egalitarian Turn as Copernican Revolution: Theorizing Continuity and Change in Islamic Theology and Law پرتھا۔
اس اہم مقالہ میںکہاگیاکہ ہمیںاپنی روایت کومحبت کے ساتھ لینے کے ساتھ ہی اس پر تنقیدکا عمل بھی جاری رکھنا چاہیے۔ان کا سوال تھاکہ کیااسلامی لاء میں تبدیلی اورcontiniuty برابرجاری رہ سکتے ہیں۔انہوںنے بتایاکہ ارسطوکے ورلڈویومیں نالج کی تشریح الگ تھی آج اس کا تصوربالکل بدل چکاہے۔ماہان صاحب کے مقالہ کا خلاصہ یہ تھاکہ کسی قوم کی تھیولوجی موجودہ دورکی Cosmology کے مطابق ہی ہونی چاہیے۔انہوںنے مزیدکہاکہ ارسطوکے ورلڈویوکے مطابق فقہاء نے معاشرت وغیرہ کے جواحکام مرتب کیے ان کے جوجوازہم دیتے آئے ہیںوہ اب کام نہیںکریںگے کیونکہ اب ورلڈویوتبدیل ہوچکاہے۔
انہوںنے بتایاکہ کیسہ علی کے مطابق خودقرآن سے ایسے اصول مل سکتے ہیںجن سے ماڈرنیٹی کے مسائل حل کیے جاسکیں۔سائنس کے مفکرتھامس کہن ( Kuhn)کہتے ہیںکہ جب روایت سے مختلف آراء اتنی زیادہ ہوجائیںکہ ان کونظراندازکرنامشکل ہوجائے توپھربحران پیداہوجاتاہے اوربحران سے نکلنے کے لیے ایک کلی تبدیلی (paradigme shift)کی ضرورت ہوتی ہے۔ماہان صاحب کہتے ہیںکہ آج ہماری روایت بھی بحران سے گزررہی ہے اس لیے پیراڈائم شفٹ کی ضرورت ہے۔تاہم اس پوزیشن پر سوال یہ بنتاہے کہ سائنسی حقائق اوردینی حقائق دونوںیکساںکیسے ہوسکتے ہیں اوردونوںمیں ایک ہی طرح کے tools کیسے استعمال کیے جاسکتے ہیں؟زیادہ صحیح پوزیشن یہ معلوم ہوتی ہے کہ سائنس کی بنیادپر مذہب کوثابت نہیں کیاجاسکتااورنصوص کی سائنٹیفک اصولوںپر تاویل سے مذہب اورسائنس دونوںکے ساتھ انصاف نہ ہوسکے گا۔
ونٹرانٹینسِوکے دوسرے دن رات میں قاری صدیق صاحب نے انڈین ٹیم کودعوتِ طعام دی تھی۔قاری صاحب موصوف مرادآبادکے ہیں،ان کے چھوٹے بھائی مولاناخلیق رحمانی مدرسہ ڈسکورسز کے پروگرام کے ہمارے ساتھی ہیں۔قاری صدیق صاحب یہاںمؤذن ہیںاوران کومحکمہ اوقاف کی طرف سے کشادہ گھراورکاروغیرہ ملی ہوئی ہیںجس سے اندازہ ہوتاہے کہ ائمہ ومؤذنین کے حالات یہاںبہترہیں۔قطرایک فلاحی ریاست ہے ۔یہاںنہ صرف قطری باشندوںکی بلکہ باہرسے آئے ورکرزکی فلاح وبہودکا خیال رکھاجاتاہے۔ہاںترجیحاً ملازمت میں قطرکے باشندوںکودی جارہی ہے ۔تعلیم وصحت کی سہولیات فراہم کی گئی ہیں۔قطرمیں متعددمغربی یونیورسٹیوںنے اپنے کالج ،فیکلٹی اورشعبے یہاںکھول رکھے ہیں۔متعددرفاہی ادارے بھی یہاںکام کررہے ہیں۔ڈاکٹرعلامہ یوسف القرضاوی کے اثرات امیرفیملی پر ہیںاوران کے تلامذہ متحرک ہیں۔قطراپنی خاجہ پالیسی میںآزادہے۔سعودی عرب ، بحرین اورامارات سے جوکشمکش اس وقت ہے، اس کے اثرات جگہ جگہ دیواروںپر لکھے نعرے قطرستبقی حرۃ(قطرتوآزادرہے گا )سے نظرآئے۔سعودی داداگیری پر مبنی معاشی بائیکاٹ کا اثرابھی زیادہ نہیں دکھائی دیتاکہ ایران اورترکی کی مددحاصل ہے ۔آغازمیں اس کا بُرااثرپڑاتھالیکن پھرمتحرک اورنوجوان امیرتمیم نے ہزاروںگائیںباہرسے منگوائیںاوراب دود ھ کے پروڈکشن میںقطرخودکفیل ہوچکاہے ،یہی نہیںبلکہ اس کوکریڈٹ دیاجاناچاہیے کہ حال ہی میں آئی ایم ایف نے کہاکہ قطرمعاشی حصارکوmanageکرنے کی صلاحیت رکھتاہے ۔
بہرکیف انٹینسِوکے تیسرے دن ڈاکٹروارث مظہری اوران کی ٹیم نے اپنے مقالے پیش کیے۔
وارث مظہری صاحب کے رسرچ پیپرکا عنوان تھا: قرآنی نصوص کی تاویل کا مسئلہ ابن رشدکے حوالہ سے ‘‘ انہوں نے تاویل کے قدیم مناھج سے یکسرمختلف جدیدمنھج کا جائزہ لیاجوآج کے ماڈرنسٹوںکا ہے۔اس کے نمائندہ نام ہیں:نصرحامدابوزید،حسن حنفی ، محمدسہروش وغیرہ ۔یہ منہج اس کا قائل ہے کہ قرآن کی ازسرنوقرأت عہدجدیدکے ذہن کوسامنے رکھ کرکی جائے۔یہ منھج قدیم روایت کوپوری طرح مستردکرتاہے۔ڈاکٹروارث کا کہناتھاکہ ماڈرنسٹوںکی یہ مستردکرنے والی فکرتوصحیح نہیں البتہ قدیم وجدیدکے درمیان ایک درمیانی منہج ابن رشدکا ہوسکتاہے۔اس کے بعدانہوںنے ابن رشدکے منھج کا تفصیل سے جائزہ لیا۔راقم کا اس پر سوال یہ ہے کہ ابن رشدبنیادی طورپر ارسطوکے مقلداورشارح ہیں۔آج جبکہ ارسطوکا ورلڈویومستردہوچکاہے توہم ان کے منھج کوکس طرح follow کرسکتے یااس سے فائدہ اٹھاسکتے ہیں؟
محمدفرقان نے اپنے پیپرمیں احترام انسانیHuman Dignity کے تصورکا جائزہ لیا۔انہوںنے بتایاکہ تھامس اکویناس کے خیال میں گنا ہ کی وجہ سے انسان کا احترام جاتارہتاہے۔بودھ ازم میں احترام انسان ،حیوان اورشجروحجرسب کوحاصل ہے ۔اسلام میں امام شافعی اس کواسلام سے جوڑتے ہیںاورغیرمسلم کے لیے احترام نہیں مانتے۔جبکہ آلوسی اورامام ابوحنیفہ اس کوعام رکھتے ہیں،ان کے ہاںیہ نیک وبدمسلمان غیرمسلم سبھی کوشامل ہے۔اسلامی تاریخ اورفقہ میں احترام انسانی کی خلاف ورزیوںکی جومثالیںملتی ہیںان کے بارے میں تحقیق کارکا کہناتھاکہ یہ ہوئی ہیںاوران کا اعتراف کرناچاہیے مگراس کا ذمہ داراسلام نہیں خودمسلمان ہیں۔
28دسمبرکوجمعہ تھااورانٹینسوکا چوتھادن ،اس دن چھٹی رکھی گئی اورفیلڈٹرپ کاپروگرام بنایاگیا۔سب سے پہلے جامع امام محمدبن عبدالوہاب میں جمعہ کی نمازاداکی گئی پھراس کے بعدسیروتفریح کونکلے۔جامع امام محمدبن عبدالوہاب ایک کشادہ اوروسیع مسجدہے۔ہزارہانمازی ایک ساتھ نمازپڑھ سکتے ہیں۔واش روموںاوروضوخانہ میں صفائی ستھرائی کا اہتما م نظرآیا۔قطرمیں ہرمسجدمیں صفائی کرمچاری متعین ہیںجووضوکرنے والے کے ہٹتے ہی اس جگہ کوصاف کردیتے ہیںاس طرح صفائی وستھرائی کا پورااہتمام رہتاہے۔جوقابل تقلیدہے۔نمازکے بعدہم لوگ متحف الفن الاسلامی (میوزیم )گئے جہاںقطرنے جنوب ایشائی ملکوںکے کچھ نمونے جمع کررکھے ہیں مگرخودقطرسے متعلق بہت کم نمونے ہیںکہ اس کی تاریخ قدیم نہیں ہے۔وہاںسے کچھ فاصلہ پر متحف بن جلمودتھاجہاںغلامی کے مختلف نمونے قطراورآس پاس کے علاقوںاورخاص کرافریقہ کے زنجباروغیرہ کے visiualsدکھائے گئے ۔اس میں غلامی کی تاریخ سے مختصرڈاکیومنٹری فلمیںبھی دکھاتے ہیںجن میں غلامی کے مارے مردوزن اوربچے Animated شکل میں اپنی داستان کچھ یوںسناتے ہیںکہ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔دکھایاجاتاہے کہ کس طرح قزاق اورڈاکولوٹ مارکرتے اورچھوٹے بچوںاوربچیوںکوقبیلہ سے اوران کے ماںباپ سے چھین لیتے ہیں ،ان کے پیروںمیں بیڑیاںاورزنجیریںپڑی ہیں اوروہ مالکوںکی مختلف خدمتیںانجام دیتے ہیںاس میں ان کی زندگی گزرجاتی ہے۔منظربڑادل گدازاورکربناک بن جاتاہے۔بن جلمودایک اسکول کانام تھاجس کوبعدمیں غلامی کے میوزیم میں بدل دیاگیاہے۔بعض کمروںمیں غلاموںکی تمثیل ان کی مختلف حالتوںاورکیفیتوںکی سنگی مجسموںکے ذریعہ کی گئی ہے۔وہاں سے نکلنے کے بعددی ویلیج ہوٹل سوق واقف میں ڈنرکیاگیااورہوٹل واپسی ہوئی ۔
دی ویلیج میں جانے سے قبل ایک گھنٹہ ابھی خالی تھااس لیے سوق واقف میں گھوماگیا۔اندازہ ہواکہ کچھ قطری آج بھی بدوہیں۔وہاںقطرکا المہرجان الثقافی ایک ماہ کے لیے لگاتھا۔اس میں روایتی رقص،ڈانس میوزک اورڈیجے بج رہاتھا۔مختلف طائفے اپنااپنافن پیش کررہے تھے۔کچھ طائفوںکے ساتھ نوجوان لڑکیاںبھی تھیں۔زیادہ ترطائفوںکے ممبران اپناروایتی عربی ڈریس پہنے ہوئے تھے۔
بہرحال عربی روایتی رقص میں کوئی Attraction نہیں لگا۔ہوسکتاہے لوکل عربوںکے ذوق کی چیز ہو۔ویسے بھیڑبھاڑامڈی ہوئی تھی ۔اس بھیڑمیں اورنمازوںکے اوقات میںقدیم طرز کے قطریوںکواوروہاںکے عام شہریوںکودیکھنے کا موقع ملا۔اگرچہ قطری بھی سعودی عرب کی طرح وہابی ہیںمگرعورتوںکوزیادہ آزادی حاصل ہے۔وہ لمبی عبایاپہنتی ہیںجبکہ مردعموماًعربی لباس میں عقال کے ساتھ ہی دکھائی دیے ۔قطری بہت کم مغربی لباس پہنتے ہیں۔ڈنرکے بعدکورنیش گئے جوساحل سمندرپر واقع ہے ،سمندرکے عین کنارے بڑے بڑے ٹاوراوربلڈنگیںبنی ہوئی ہیںجورات میں روشنی میں نہائی ہوئی تھیں۔کشتیاں لوگوںکوکرایہ پر سمندرمیںگھمارہی تھیں۔یہ غالباًخلیج عرب ہے جوبحرہندسے جاملتاہے ۔بڑاخوبصورت منظرتھا۔ہمارے گروپ کے سب لوگ مختلف ٹکڑیوںمیں بنٹ کرآہستہ آہستہ ٹہلتے رہے ۔ اورتقریباایک گھنٹہ بعدواپس ہوٹل پہنچے ۔
ونٹرانٹینسوکے پانچویں دن پروفیسرابراہیم موسیٰ کے گروپ نے اپنی جولانئی طبع کا مظاہرہ کیا۔عادل عفان نے مختصراً ارتدادکی سزاپرنئے سرے سے غوروفکرکی ضرورت پر اپنی فائنڈنگ پیش کیں۔ان کا خلاصہ تھاکہ قرآن کے مطابق ارتدادکی کوئی سزانہیں ہے۔تاہم بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ توایشوسے نہایت ظاہری اورسرسری سا گزرناہوا۔معاملہ یہ ہے کہ اس مسئلہ میں متعددروایات ثابت ہیں۔اکثرفقہاء کا اس پر اجماع ہے۔
نوٹ : مضمو ن نگارریسرچ ایسوسی ایٹ مرکزفروغ تعلیم وثقافت مسلمانان ہند علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہیں
(باقی باقی)