سید مصطفیٰ احمد
قدرت کا معنیٰ کیا ہے یا قدرت کے معنی کیا ہیں، اس گرداب میں پھنسنے کے بجائے بہتر ہے کہ قدرت سے پھر سے رشتہ استوار کرنے کی کوششیں کی جائیں۔ پچیس مئی کو UPSC Prelims کا امتحان منعقد کیا گیا۔ Preliminary Examination دو پرچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔S Paper 2 کے پرچے میں ایک passage شامل کئی گئی تھی جو پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس پسیج میں capitalism کی بات کرتے ہوئے ایک حقیقت کی طرف ہمارا دھیان مبذول کروایا گیا تھا۔ حقیقت اس معنی میں کہ موجودہ اقتصادی نظام ہر چیز کو فائدے یا پیسوں کی نگاہوں سے دیکھتاہے۔ بالفاظ دیگر دنیا میں پائی جانے والی ہر شٔے اب پیسوں کی بھینٹ چڑھ گئی ہے۔ قدرت کا ہر نظارہ اب مادیت اور نفع و نقصان کے تنگ زاویے سے دیکھے جاتے ہیں۔ Aesthetic beauty کو بے رحم مادیت نے کب کا زمین میں گھاڈ دیا ہے۔ اب صرف پیسے اور فائدے کی بات ہوتی ہیں۔ روح کی تسکین کی خاطر نظاروں سے پیسے بٹورے جاتے ہیں۔کسی بھی قسم کی خوبصورتی چیزوں کے اندر پائی نہیں جاتی ہیں۔ پیسوں کے انبار لگاؤ اور پھر خوبصورتی خود ہماری دیوانی ہوگی۔ یہاں پر میں نے کچھ الفاظ کا اضافہ خود ہی کیا ہے۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے مجھے ایک اور نفیس بات یاد آئی۔ میرے ایک استاد نے مجھے نصیحت کرتے ہوئے بولا کہ تم کماتے ہو، اس لئے زندہ ہو۔ دوسرے الفاظ میں تم کسی بڑے شاپنگ کمپلیکس میں جب شاپنگ کرتے ہو، تب تم زندہ ہو۔ یہ بات میرے ذہن کی وادیوں میں گھومتی رہی۔ میں نے ارادہ کیا تھا کبھی ان سب باتوں کو الفاظ کو روپ ضرور دوگا، آج موقع ملا۔ اس کے علاوہ The Hindu Publications House کی طرف سے The Hindu in School چھپ کر آتا ہے۔ کچھ دنوں سے اس میں droughts, ocean heat-waves,coral bleaching, global warming, the Hindukush Glacier Melt، وغیرہ مضامین پر باتیں ہورہی تھیں۔ میں نے بھی سوچا کہ کیوں نہ اپنے ناقص علم کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ الفاظ قلمبند کرو ںتاکہ قدرت کے تئیں میرا تھوڑا سا فرض ادا ہوسکے۔
جیسے کہ اوپر اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ مادیت کی دوڑ نے انسانی کو انسان سے دور کرنے کے علاوہ اس کو قدرت سے بھی دور کیا ہے جو انسان کی ساری ضروریات کا منبع ہے۔ ایک دانا شخص کبھی بھی اس حقیقت کو جھٹلانے کی غلطی نہیں کرسکتا کہ جس چیز پر اس کی ساری زندگی کا دارومدار ہو،وہ اسی چیز کا گلا کاٹ دے۔ ایک مؤقر اخبار یا میگزین میں، میں نے قدرت سے دور ہوتے ہوئے انسان کے بارے میں پڑھا تھا۔ اس مضمون میں لکھا گیا تھا کہ انسان کہاں قدرت اور قدرتی چیزوں سے دور ہوتا جارہا ہے۔ وہ تو قدرت میں رہ کر قدرتی چیزوں کا بہترین استعمال کررہا ہے۔ اگر قدرتی چیزوں کا استعمال نہ کیا جائے اور فوائد کے ڈھیر نہ لگائے جائیں، تو کیا فائدہ اس قدرت کا۔ ہاں! یہ صحیح بات ہے کہ قدرت ہماری زندگی ہے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ترقی کے دروازے بند کر دیے جائیں اور the Ice Ages کے ادوار میں جاکر قدرت کو pristine اور Virgin رہنے دیں۔ مضمون نگار کے مطابق قدرت کو dominate کرنا ہی زندگی کے essence میں شمار ہوتا ہے۔ اس مضمون سے ساری باتیں سامنے آئیں اور مادیت کے اثرات کا صحیح ادراک ہوگیا۔ بیشتر لوگ کثافت کے لفظ سے ہی نفرت کرتے ہیں۔ گرمی بڑھتی ہے تو بڑھنے دو۔ جانوروں اور پودوں کا خاتمہ ہورہا ہے تو ہونے دو، یہی سوچ مادیت کی پہچان ہے۔ اَنا پرستی بھی انسان کو قدرت سے دور کرتی ہے۔ جھوٹی اَنا کا مزاج ہی نرالا ہوتا ہے۔ اصلی محور کے اردگرد گھومنے کے بجائے، یہ مرض ایک انسان کو غلط محور کے اردگرد گھومنے پر مجبور کرواتا ہے یا پھر گھومنا ہی بند کروا دیتا ہے۔ جب ایسی صورتحال ہو، تب قدرت کو کوئی بھی حیثیت نہیں رہ جاتی ہے۔ جھوٹی اَنا کا مریض پرندوں کی چہچہاہٹ سے بھی نفرت کرتا ہے۔ وہ بارشوں سے بھی نفرت کرتا ہے کیوں اس کے کپڑے گیلے ہوجاتے ہیں اور جب گیلے کپڑے سورج کی روشنی سے سوکھ جاتے ہیں تو وہ اَنا کی تیش میں آکر سورج کو گالیاں دینے لگتا ہے اور پوری قدرت کو نیست و نابود کرنے کی ٹھان لیتا ہے۔ اس کے علاوہ قدرت کے بارے میں ناقص علم بھی انسان کو قدرت سے دور کرنے میں بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔قدرت کے تعلق سے ہماری معلومات بہت کم اور ناقص ہیں۔ Phytoplanktons or Microalgae سے لے کر the blue whale تک ہر قدرتی چیز نہایت اہمیت کی حامل ہے۔ آنکھوں سے عام طور پر اوجھل رہنے والے coral reefs کے فوائد دیکھ کر انسان کی عقل دھنگ رہ جاتی ہے۔ Biofuels اور بیٹریاں جو اب micro organisms کے بدولت کام کرتی ہیں، انسان کی عقل کو حیران کردیتے ہیں۔ اس کے برعکس ہمارا تصور قدرت کا کچھ نرالا ہی ہے۔ ہم نے کبھی بھی نہ خود پر غور کیا اور نہ چڑھتے اور ڈوبتے سورج پر۔ پیٹ کی زہریلی آگ نے ہم سب کو حیوانیت کی معراج پر پہنچا دیا ہے۔ بس اس پیٹ کوبھرتے رہو اور گندگی کو زمین کے اندر خوشبو کے ساتھ دفناتے رہو۔
انسان کو چاہیے کہ ترقی بھی کرے، لیکن قدرت سے کھلواڑ نہ کرے۔ Permafrost کے پگھلنے سے ایسے ایسے viruses نمودار ہونگے جو mutations کے اونچے پائیدان پر براجمان ہیں۔اس کے علاوہ ان آسمان کو چھوتے ہوئے پہاڑوں سے لڑائی مول لینا موت کے منہ میں چلے جانے کے مترادف ہے۔
The Hindukush Mountains میں پائے جانے والے glaciers اگر سارےپگل جاتے ہیں تو ہم سب کو بھی پگلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ہے۔ہمالیہ کے اندر پائے جانے والے magma سے ہمارا جھلس جانا یقینی ہے اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور بھی بہت کچھ کہنا ہے لیکن دل چاہتا ہے یہی پر اختتام کروں۔ کوئی ماحول کے تحفظ کے بارے میں لکھتا ہے، ماحول کی افادیت کے بارے میں پہاڑوں کے پہاڑگاڑ دیتا ہے، لیکن بات عمل کی ہے۔ اگر کوئی قدرت سے اپنا رشتہ استوار کرنا چاہتا ہے، تو چپ چاپ کرکے ایسا کرے۔ تھوڑا ہی سہی لیکن قدرت کی گود میں سر رکھ کر اپنے آپ سے پوچھے کہ اے انسان! تو دانائی کا منبع تھا، تجھے کس کی بری نظر لگ گئی۔ تیرا ذکر تو اعلیٰ القاب سے کیا جاتا تھا لیکن تجھے کیا ہوا۔ کونسی ایسی چیز ہے جس نے تجھے جابر اور پتھر دل بنا دیا۔ اس مضمون کو پڑھنے والے لوگوں سے گزارش ہیں کہ ایک بار آپنے آپ سے سوال کریں کہ ہم نے آج تک قدرت کی بہبودی کی خاطر کیا کیا؟ لکھنے میں کوئی غلطی، دانستہ یا نادانستہ طور پر در آئی ہو، میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔اگر کوئی بھی حوالہ اس مضمون کے تعلق سے دیا گیا ہے، مہربانی کرکے دوبارہ چیک کرے۔ اللہ ہمارا رشتہ قدرت کے ساتھ کبھی منقطع ہونے نہ دے۔
رابطہ۔7006031540
[email protected]