تہذیب سے مرادانسانی دل ودماغ کی آرائش ہے ۔ اسلامی تہذیب سے مراد کسی ایک خاص قوم کی تہذیب نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کی شائستگی ہے کیونکہ اسلام کا اصل مقصد سلامتی اور امن عالم کا قیام عمل میں لانا ہے ۔ اس لحاظ سے اس تہذیب میں کو ئی اختصاص Specialityنہیں ہے ۔ اسلام ایسے نظام تہذیب کا متمنی ہے جو انسان کی شخصیت کو نکھارنے کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر مخصوص اصول و ضوابط و ضع کر تا ہے تا کہ انسان تخلقواباخلاق اللہ کا عملی نمونہ بن کر اللہ کی نیابت کا فریضہ انجام دے سکے ۔ رسول اکرمﷺ کی بعثت بھی مکارم اخلاق کی حیثیت سے ہو ئی اسی لئے آپ ﷺ نے فرمایا’’بعثت لاتمم حسن مکارم الاخلاق‘‘ یعی مجھے مکارم اخلاق بناکر مبعوث کیا گیا۔
صحابہ کرامؓ نے جب حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پو چھا کہ رسول اللہ ﷺ کے اخلاق کیسے تھے تو انہوں نے برجستہ فرمایا کہ’’کان خُلقہ‘‘ قرآن‘‘۔ فرمایا کیا آپ قرآن نہیں پڑھتے حضوررﷺ مجسم قرآن ہیں یعنی قرآن مقدس کی اخلاقی تعلیمات کے حقیقی آئینہ دار حُضورِ پر نُورہی کی ذات بابرکت ہے ۔ اس لئے اسلام کی تمام علمی ، ادبی اور فنی ذخیر ے اعلیٰ اخلاقی قیودوضوابط کے پابنددکھائی دیتے ہیں ۔ تاریخ کے ہر دور میں اسلام کے ان منابع (Sources)سے ہر انسان نے بغیر کسی نسلی ،تہذیبی ،مذہبی ،یالسانی حد بندیوں کے فیوض وبرکات حاصل کیں ہیں ۔
بہترین اخلاق نہ صرف زندگی کا آلہٰ کار ہی بلکہ جزولاینفک ہے اور اسلام چونکہ دین فطرت ہے لہٰذاخلاق اس کے بطن سے پھوٹا ہے اور غیر مسلم اقوام دملل نے ماضی میں اس سلسلے میں اسلام ہی سے اخذداستفادہ کر کے کامیابی حاصل کی ہے ۔ دراصل اپنے اعلیٰ اخلاقی اصول وضوابط ہی کی وجہ سے اسلامی تہذیب و تمدن نصف سے زائد دنیا پر ایک محدودوقت ہی میں حاوی ہو گیا۔
علامہ اقبال چونکہ فکر اسلامی ہی کے نقیب اعلیٰ رہے ہیں لہٰذا آپ کے بیشتر اُردو اور فارسی کلام کے علاوہ خطبات اور مکاتیب کا نچوڑا خلاق سازی ہی قراردی جاسکتی ہے ۔ا ٓپ کے نزدیک اسلامی تہذیب و تمدن کی اساس اخلاق عالیہ پر منحصر ہے اور یورپی تہذیب وتمدن اس دولت سے یکسر محروم ہے ۔ اسی لئے اس تہذیب میں اعلیٰ انسانی اقدار(Values) ناپید ہیں ۔ اس کی روح مردہ ہو چکی ہے ۔ مادّیت نے اس کے احساس مردّت کو کچل کر رکھ دیا ہے اور اب وہ اغراض اور مفادات کے بندے بن کر رہ گئے ہیں ۔ اس نے وطن پر ستی ، نسل پرستی ، لسانی برتری اور مفاد پرستی کو پروان چڑھا کر اپنی ترقی اور تحفظ کی خاطر دوسری قوموں کے وسائل لوٹنے کے لئے انہیں تاراج کرنے کی پالیسی اپنارکھی ہے ۔ دراصل علامہ نے قیامِ یورپ کے زمانے میں مغربی تہذیب کی بنیادی کمزدریوں اور اس کی لادینی فکر اور اخلاقی قباحتوں کا بچشم خودمشاہدہ کیا تھا ۔اس لئے اُن کے خیال میں مغربی تہذیب کا شعار انسانیت کی تباہی اور اس کا پیشہ تجارت ہے ۔ اُن کے خیال کے مطابق مغربی تہذیب کے سبب دنیا میں امن وامان خلوص اور پاکیز گی ناممکن ہے ۔ اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ؎
آہ یورپ زیں مقام آگاہ نیست
چشم اُو ینطربنور ِاللہ نیست
اُو نداند از حلال و از حرام
حکمتش خام است کارش ناتمام
علامہ اقبال کہتے ہیں کہ یو رپ میں علم وفن تو بہت زیادہ عروج پر ہے لیکن فی الحقیقت وہاں انسانیت کے اعلیٰ اقدار موجود نہیں ۔ اس کی مادہ پرستی تمام چیزوں سے بڑھ کر خطرناک ہے ۔ وہاں زندگی محض تاجرانہ اہمیت رکھتی ہے ۔ علم و حکمت اور سیاست جس پر یورپ کو فخر ہے ، محض دکھادے کی چیزیں ہیں ۔یہ لوگ انسانیت کے بظاہر ہمدردہیں لیکن انسانوں کا خون بہاتے ہیں اور بظاہرانسانی مساوات اور اجتماعی عدل وانصاف کی تعلیم دیتے ہیں ۔ بے کاری ،عریانی ، شراب نوشی اور بے غیرتی و بے مردّنی مغربی تہذیب ہی کی دین ہے ۔ علامہ اس بارے میں شکوہ سنج ہو کر کہتے ہیں ؎
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیوان ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں رونق میں صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کالاکھوں کے لئے مرگ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیم مسادات
بیکاری و عریانی و میخواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حداس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
مغرب کی مادّی تہذیب اور اس کے پیدا کر دہ مسائل کا تجزیہ کرتے ہو ئے اقبال اپنے انگریزی ’’خطبات‘‘ میں کہتے ہیں:۔
’’عصر حاضر کی ذہنی سرگرمیوں سے جو نتائج نکلتے ہیں ان کے زیر اثر انسان کی روح مردہ ہو چکی ہے ۔ اس کا و جود خود اپنی ذات سے متصادم ہے اور سیاسی اعتبار سے افراد باہم ودیگر دست و گربیاں ہیں ‘‘
علامہ کے نزدیک اخوت انسانی کی تعمیر مادّی و معاشی مساوات پر ممکن نہیں بلکہ اسکے لئے قلبی محبت، انسانی احترام اور معنوی وروحانی بنیادوں کی اشد ضرورت ہے ۔ اسی لئے آپ کا رل مارکس کے نظریہ کو بھی باطل قرار دیتے ہیں کیونکہ اُس کا تمام فلسفہ ٔ حیات نفس کے اردگرد گھومتا ہے ۔ اس سلسلے میں آپ فرماتے ہیں : ؎
غربیاں گم کردہ اند افلاک را
در شکم جو یند جان پاک را
رنگ وبو از تن نیگرد جان پاک
جزبہ تن کارے ندارد اشتراک
دینِ آں پیغمبر ِ حق نا شناس
بر مساواتِ شکم دارد اساس
تا اخوت را مقام اندر دل است
بیخ اُو در دل، نہ در آب و گل است
علامہ اقبال کے خیال کے مطابق یو رپی تہذیب و تمدن کے برعکس اسلام کا فلسفہ اخلاق پوری نوع انسانی کو اللہ کا کنُبہ تصور کرتا ہے ۔ دین اسلام پو رے نوع انسان کے اتحاد واتفاق کا داعی ہے ۔ اس بے نظیر تصور ِ اخلاق کے بموجب تمام انسان بلالحاظ مذہب وملت ، رنگ ونسل ، تحفظ ذات اور روحانی استخلاص کی اعلیٰ قدروں کے برابر حقدار ہیں ۔ علامہ اقبال نے اپنے منفرد تصور خودی کی جو صفات بیان کی ہیںاُن کو اپنانے سے انسان دراصل اعلیٰ اخلاقی مراتب پر پہنچ سکتا ہے ۔ اسی لئے آپ ارمغانِ حجاز میں کہتے ہیں کہ:۔
مسلمان از خودی مردِ تمام است
بخاکش تا خودی میرد غلام است
اگر خود را متاع خویش دانی
نگہ را جز بخود بستن حرام است
یعنی خودی ہی سے مسلمان ایک کامل مرد یعنی مؤمن ہے ۔ جب اس کے جسم میں خودی مر جاتی ہے یعنی وہ خودی سیء عاری ہو جاتا ہے تو وہ غلامی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اگر تو خود کو اپنی متاع یا دولت و سرمایہ سمجھتا ہے تو اپنے کسی دوسرے پر نظر جمانا چھوڑدے یعنی دوسروں سے توقعات رکھنا تیرے لئے حرام ہے ۔ اپنا مقام خود پیدا کر اور کسی کا دست نگر نہ بن ۔
اس ضمن میں علامہ اقبال نے محض نظریہ ہی پیش نہیں کیا بلکہ اس کے حصول کے لئے قواعد و ضوابط بھی بتائے ہیں ۔ مثلاً خودی کے استحکام کے لئے وہ اطاعت ، ضبط نفس اور فریضۂ نیابت الٰہی کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان ضوابط پر عمل پیرا ہونے سے اخلاق کی بنیادیں استوار ہونا شروع ہوتی ہیں ۔
اخلاقی تربیت کیلئے علامہ نے انفرادی اور اجتماعی دونوں اقسام بیان کی ہیں ۔ انفرادی تربیت کے لئے انہوں نے سب سے پہلے عشق کو ترجیح دی ہے ۔ انسان کو ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے سب سے پہلے اپنے ماحول سے آمادۂ پیکار ہونا پڑتا ہے ۔ اس پر فتح یاب ہو کر اعلیٰ مقاصد متعین ہو سکتے ہیں ۔ عشق ان مقاصد کی نہ صرف تخلیق کرتا ہے بلکہ ان کے حصول میں ایک فرد کا رہنما بن جاتا ہے ۔
دراصل خودی کے استحکام کے لئے عشق ایک لازمی شئے ہے ۔ بال جبرئیل میں علامہ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں ؎
مردِ خدا کا عمل عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام
دوسری انفرادی تربیت کے لئے علامہ عقل کو لازمی شرط قرار دیتے ہیں کیونکہ عشق و محبت کے ساتھ عقل، نظر اور علم و ہنر کا ہونا بھی لازمی ہے ۔ اگر چہ علامہ نے عقل کی کوتاہیوں اور خامیوں پر اپنے کلام میں بہت کچھ کہا ہے ۔ لیکن وہ عقل و خرد کی اہمیت سے قطعاً انکار نہیں کرتے بلکہ اپنے شہرۂ آفاق انگریزی خطبات کا آغاز انہوں نے "Knowledge and Religious Experience"ہی کے عنوان سے کیا ہے ۔
اور بال جبرئیل میں آپ نے کھل کر کہا ہے کہ ؎
خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیثِ رندانہ
مرد کامل کے لئے علامہ دونوں صفات کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں ۔
عقل کی منزل ہے وہ عشق کا حاصل ہے وہ
حلقۂ آفاق میں گرمیٔ محفل ہے وہ
اخلاق سازی اور کردار سازی کی تیسری اہم شرط علامہ اقبال فقر کو قرار دیتے ہیں ۔ فقر سے مراد غریبی و مسکینی کے نہیں بلکہ فقر و استغنا اور بے نیازی ہے ۔ اگر مادی وسائل نہ ہوں تو گلہ نہ کیا جائے اور اگر ہوں تو زیادہ کی ہوس نہ کی جائے ۔ علامہ اقبال فقر کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہیں ؎
فقر ذوق و شوق و تسلیم و رضاست
ما امینیم ایں متاع مصطفی است
فقر مؤمن چیست؟ تسخیر جہات
بندہ از تاثیر او مولا صفات
٭٭٭
مرا فقر بہتر ہے اسکندری سے
یہ آدم گری ہے وہ آئینہ سازی
اخلاق کو محکم و مستحکم بنانے کے لئے ایمانیات پر یقین لازمی ہے ۔ایک مسلمان کو شک و تخمین و ظن سے مبرا ہونا ضروری ہے ۔ وہ اپنی شخصیت اور خلیفتہ الارض ہونے پر یقین و قوت حاصل کرتا ہے ۔ اس لئے اقبال یقین محکم پیدا کرنے کیلئے ایک مسلمان کو یوں تلقین کرتے ہیں ؎
خدائے لم یزل کا دست قدرت تو زبان تو ہے
یقین پیدا کرا اے غافل کہ مغلوب گماں تو ہے
یقین ِ محکم کے نتائج سے وہ ہمیں یوں آگہی دلاتے ہیں ؎
غلامی میں نہ کام آتی ہیں شمشیریں نہ تدبیریں
جو ہو ذوق یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
اس طرح جب ایک فرد مذکورہ بالا خوبیوں سے آراستہ و پیراستہ ہو جاتا ہے تو اسکا یہ فرض بن جاتا ہے کہ جب ملت اور قوم سے اُس کا تعلق پیدا ہو جائے تو اسے بھی ایسے اجتماعی اخلاق سے آراستہ کرے کہ وہ امن و سکون اور آرام و راحت کی زندگی بسر کرے۔ علامہ نے جہاں ایک فرد کو اس کام کی ترغیب دی ہے وہیں وہ رہنما اصول بھی بتائے ہیں جن سے ملت کی تشکیل نو ہوتی ہے اور یوں ایک بہترین امن پسند معاشرہ وجود میں لایا جا سکتا ہے ۔ اسی لئے وہ ایک فرد کو اپنا یہ فریضہ یاد دلاتے ہیں کہ ؎
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں بیرونِ دریا کچھ نہیں
ملت کی باہم پیوستگی کیلئے دو بنیادی دینی اصول اقبال کے یہاں وضع کئے گئے ہیں ۔ ایک توحید دوسرا رسالت۔توحید سے یک جہتی اور ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے ۔ عقیدۂ رسالت سے حرّیت، مساوات اور اخوت وجود میں آسکتی ہے ۔ ملت کے لئے ایک مکمل آئین ہونا چاہئے اور ملت اسلامیہ کا آئین (Constitution)قرآن حکیم ہے جس سے سیرت میں پختگی آتی ہے جس کا بہترین نمونہ رسول کریم ﷺ کا اسوۂ حسنہ ہے اور اسی لئے ہمیں قرآن حکیم کے ذریعے تلقین کی گئی ہے کہ تمہارے لئے رسول ؐ کی ذات اقدس میں بہترین اسوۂ حسنہ ہے۔ (الاحزاب آیت ۲۱)
اس ملت کا مرکز کعبہ ہے ۔ ملت کا کمال یہ ہے کہ وہ بھی فرد کی طرح شعور خودی پیدا کرے۔ ملت کی تنظیم کے لئے حریت، مساوات اور اخوت ضروری ہے جس سے مقاصد میں اتحاد پیدا ہوتا ہے ۔ گویا اسلامی نظام معاشرت اخلاقی طور پر تین بنیادی وسیع اصولوں پر استوار ہے ۔ پہلا اصول اتحادِ انسانیت "Human Solidarity"ہے ۔ دوسرا اصول مساوات ہے یعنی Equalityتیسرا اصول حریت فکر و عمل یعنی Freedom of Thought and Actionہے ۔ علامہ اقبال کے نزدیک اسلام میں روحانی و مادّدی دنیا الگ الگ خانوں میں تقسیم نہیں ہیں ۔ یہ درست نہیں ہے کہ دین و سیاست دو مختلف چیزیں ہیں ۔ اسلام ایک ایسی واحد حقیقت ہے جس کا تجزیہ ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ اسلام روح اور مادّے کی ثنویت کو نہیں مانتا ہے نہ ہی عیسائیت کی طرح چرچ کی حکومت میں یقین رکھتا ہے بلکہ غائر مطالعہ سے یہی حقیقت مترشح ہو تی ہے کہ ریاست یا مملکت اسلام کے مخصوص تصورات کی ترجمان ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اسی پس منظر میں توحید اور ریاست کے باہمی تعلق کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہو ئے خطبات میں کہتے ہیں:
"The essence of "Tawhid "as a working idea is equality,solidarity and freedom.The State,from the Islamic stand point,is an endeavour to transfrom theír ideal principles into space-tíme forces,and aspiration to realize them in a definite human oranganisation."
درج بالا اقتباس سے یہی حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ علامہ واضح کرتے ہیں کہ توحید کی اساس یہی تین اصول ہیں یعنی اتحادِ انسانیت ،مساوات اور حرّیت۔
ایک ایسی واحد حقیقت ہے جس کا تجزیہ ہی نہیں کیا جا سکتا ۔ اسلام روح اور مادّے کی ثنویت کو نہیں مانتا ہے نہ ہی عیسائیت کی طرح چرچ کی حکومت میں یقین رکھتا ہے بلکہ غائر مطالعہ سے یہی حقیقت مترشح ہو تی ہے کہ ریاست یا مملکت اسلام کے مخصوص تصورات کی ترجمان ہوتی ہے۔ علامہ اقبال اسی پس منظر میں توحید اور ریاست کے باہمی تعلق کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہو ئے خطبات میں کہتے ہیں:
"The essence of "Tawhid "as a working idea is equality,solidarity and freedom.The State,from the Islamic stand point,is an endeavour to transfrom theír ideal principles into space-tíme forces,and aspiration to realize them in a definite human oranganisation."
درج بالا اقتباس سے یہی حقیقت مترشح ہوتی ہے کہ علامہ واضح کرتے ہیں کہ توحید کی اساس یہی تین اصول ہیں یعنی اتحادِ انسانیت ،مساوات اور حرّیت۔
علامہ اقبال یہاں مسلمانوں کے اتحاد کے بجائے اتحاد انسانی پرزوردیتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کے یہاں مذہبی رواداری کا وسیع تصور ہے کیونکہ اُن کے نزدیک ’’اسلامی نظام حکومت نہ جمہوریت ہے۔نہ ملوکیت ہے ، نہ ارسٹو کریسی ہے اور نہ ہی تھیو کریسی ہے بلکہ ایک ایسا مرکب ہے جو ان تمام محاسن سے متصف اور قبائح سے منزہ ہے ‘‘۔ آپ کے نزدیک قرآن مسلمانوں پر یہ فرض عائد کرنا ہے کہ وہ دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کا تحفظ کریں ، یعنی قرآنی تعلیمات کے مطابق ضرورت پڑنے پر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کرنا مسلمانوں کا فرض ہے ۔ غور طلب معاملہ یہ ہے کہ ایک ایسی ریاست جہاں مسلمانوں میں تو اشتراکِ ایمانی ہو اور غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ اشتراکِ وطنی کی بنیاد پر رشتہ استوار ہونا چاہئے۔ لہٰذا اُن کے نزدیک اشتراکِ ایمانی اور اشتراکِ وطنی کی بنیاد پر ہی تو اتحاد انسانیت قائم ہو سکتی ہے ۔
علامہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ’’اسلام تو مجھ پر یہ فرض عائد کرتا ہے کہ میں غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کروں ‘‘۔ اس بارے میں ان کے اپنے الفاظ یوں ہیں :
"I entertain the highest respect for the customs, laws religious and social institutions of other comunities, Nay, it is my duty, according to teachings of the Quran, even, to defend of their places of worship, if need be."
دراصل یہاں علامہ اقبال نے قرآن شریف کے سورہ الحج آیت نمبر ۴۰ سے استدلال کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ’’ اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع نہ کرتا رہے تو خانقاہیں اور گرجاگر اور عبادت گاہیں ، جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے ، سب مسمار کر ڈالی جائیں ‘‘۔ اس آیت میں مساجد کی اصطلاح سب سے آخر میں آئی ہے ۔ پہلے عیسائیوں کے کلیسا کا ذکر ہے ۔ پھر یہود کے عبادت خانے کا ہے ، خانقاہ کا ہے اور مسجد سب سے آخر میں آئی ہے ۔ جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے مطابق عام طور پر ابتدائی ایام کے فقہا اس آیت کی تعبیر اس طرح کرتے ہیں کہ اس میں صرف اہل کتاب ہی شامل ہیں جن کی حفاظت کرنا مسلم ریاست کا فرض ہے لیکن جب ایران فتح ہوا تو فقہا نے پارسیوں یا زرتشنی مذاہب کے ماننے والوں کو بھی اس تحفظ میں شامل کیا اور ان کے عبادت خانوں کی حفاظت کی۔ ان کے لئے اصطلاح وضع کی گئی’’ کمثل اہل کتاب‘‘۔ یہی صورت ہندوستان میں ہوئی۔ جس وقت ہندوستان پر مغل بادشاہوں کی حکومت تھی تو یہاں بھی بعض فقہاء نے ہندوؤں کو کمثل اہل کتاب کے زمرے میں شامل کر کے مسلم ریاست پر یہ فرض عائد کر دیا کہ وہ غیر مسلموں کا تحفظ کرے۔
(بقیہ بدھوار کے شمارے میں ملاحظہ فرمائیں)