سرینگر// مشترکہ مزاحمتی قیادت سید علی شاہ گیلانی، میرواعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے مزاحمتی قیادت کو لگاتار تھانہ و خانہ نظر بندرکھنے ، جنوبی کشمیر کے متاثرہ اضلاع کے ساتھ ساتھ شہر خاص کے بیشتر علاقوں میں بندشوں اور قدغنوں کے نفاذ اور مرکزی جامع مسجد سرینگر کو مقفل رکھ کر مسلمانان کشمیر کو نماز جمعہ جیسے اہم فریضہ الٰہی سے طاقت کے بل پر روکنے پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک طرف نہتے کشمیریوں کے قتل و غارت کا سلسلہ دراز کیا جارہا ہے اور دوسری طرف ان مظالم اور تشدد کیخلاف پر امن احتجاج کرنے پر بھی طاقت کے بل پر پابندی عائد کی جارہی ہے ۔مزاحمتی قائدین جنہیں حالیہ سانحہ شوپیاں میںجان بحق کئے گئے مہلوکین کیلئے غائبانہ نماز جنازہ ادا کرنااور اہلیان شوپیاں کے ساتھ اظہار یکجہتی کا پروگرام تھا، نے حکمرانوں کی جانب سے پرامن پروگرام کو بزور طاقت ناکام بنانے کو استعماری سوچ اور بالادستی سے عبارت سیاست کاری قرار دیتے ہوئے کہا کہ فوجی قوت اور طاقت کے استعمال سے مزاحمتی قیادت اور حریت پسند عوام کو دبانے کے حربے ایک لاحاصل عمل ہیں کیونکہ جتنی قوت کے ساتھ یہاں کے عوام کے جذبہ مزاحمت کو دبانے کی کوشش کی جائیگی اتنی ہی شدت کے ساتھ یہ جذبہ ابھر کر سامنے آئیگا۔انہوں نے کہا کہ کشمیری عوام اپنے جائز اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ حق کیلئے برسر جدوجہد ہیں اور حکومت ہندوستان اور اسکے ریاستی اتحادیوں نے یہاں کے عوام کو اپنی فوجی قوت کے سہارے دبانے کی جو جارحانہ پالیسی اختیار کررکھی ہے اُس سے نہ تو مسئلہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت اور ہیئت تبدیل کی جاسکتی ہے اور نہ یہاں کے عوام کو اپنے مبنی برحق جدوجہد سے دستبردار کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ بھارتی فوجی سربراہ کا کشمیر کے حوالے سے حالیہ بیان کشمیری عوام کے تئیں بھارتی حکمرانوں کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتا ہے تاہم اس حقیقت کو تسلیم کیا جانا چاہئے کہ مسئلہ کشمیر کے حوالے سے Military Might سے عبارت پالیسی ایک لاحاصل عمل ہے کیونکہ عوامی تحریکوں کو کسی فوجی قوت کے بل پر نہ تو دبایا جاسکتا ہے اور نہ حریت پسند عوام سے ان کا جذبہ آزادی چھینا جاسکتا ہے ۔