بھارت کے آرمی چیف جنرل راوت کے اُس بیان کہ کشمیر میں جنگجومخالف آپریشن کے دوران جو کوئی بھی سڑکوں پر نکل کر نعرہ بازی کرے گا یا آپریشن والے علاقے کے پاس سنگ بازی میں مصروف عمل رہے گا اس سے جنگجوئوں کا بالائی کارکن تصور کرکے نپٹا جائے گاکے بعد لگتا ہے کہ سارا ہندوستان کشمیریوں کے ساتھ حالات جنگ میں ہے اور وردی پوش اہلکاروں کو اب نہ کشمیریوں کے مارنے کیلئے کسی سے اجازت مانگنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی کشمیریوں کے قتل عام میں کسی بے گناہ نہتے کشمیری کے مظاہرے یا کسی اور واقعہ کے دوران ہلاکت کیلئے کسی کو رسمی معافی مانگنی ہوگی ۔ ظلم کی چکی میں پسے جانے والے، ہمالیائی دل رکھنے والے اہل کشمیر ویسے کبھی بھی کسی غلط فہمی کا شکار نہ تھے لیکن جنرل صاحب کی کھلی کھلی دھمکی کے پس منظر میں اب انہوں نے رسمی طور سے کسی بے گناہ کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرنا چھوڑ دیا ہے اور انہیں اس بارے میں کوئی غلط فہمی نہیں کہ ہندوستانی فوج کے نزدیک ہر کشمیری جنگجوئوں کا ہمدرد ہے اور جنرل راوت کے فتوے کے بعد کسی بھی کشمیری مرد، عورت، بوڑھے یا بچے کا خون کرنا اب کسی بھی وردی پوش کا قانونی حق بن چکا ہے ۔یہ کسقدر قابل مذمت بات ہے کہ جنرل راوت کے منہ سے نکلی ہوئی اس بات کو لیکر کہ عسکری تصادموںکے جائے وقوع کے ارد گرد نعرہ بازی کرنے والوں کو جنگجوئوں کا OGWتصور کیا جائے گا سارے ہندوستان میں کشمیریوں کے خلاف نفرت کا ایسا ماحول تیار ہوا ہے کہ جیسے جنرل راوت نے کسی اور مقدس کتاب کے ان اوراق کو کہیں سے ڈھونڈ لیا ہو جو کہ کہیں گم ہو گئے تھے اور ان اوراق میں موجود تعلیمات یا ہدایت نامہ کی روشنی میں کشمیریوں کو مارنے کا عمل اب امن و قانون کا نہیں بلکہ مذہبی فریضہ بن چکا ہے ۔ جنرل صاحب کے بیان کو ماضی کے واقعات کو ذہن میں رکھ کر زیادہ آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے 1947کے الحاق کے بعد جب شیخ صاحب کو اپنی معذولی کے بات رائے شماری یاد آگئی تو انہیں دبانے کیلئے بخشی صاحب اور صادق صاحب کو تیار کیا گیا۔ پھر جب مختلف تنظیموں بشمول جماعت اسلامی نے شیخ صاحب کے اندارا عبداللہ ایکارڈ کے خلاف آواز اٹھائی تو ان کے خلاف پروپگنڈہ کرکے کشمیریوں کو یہ کہکر گمراہ کیا گیا کہ جماعت اسلامی وغیرہ صوفی ازم اور زیارت پرستوں کے خلاف ہیں۔مقبول بٹ شہید نے عسکری تحریک کی داغ بیل ڈالی تو انہیں تختہ دار تک لیجانے کے وقت تک ان کے ہی نزدیک ساتھیوں کے ذریعہ ان کی شبیہہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ جب ان کے تختہ دار کو چومنے کے رد عمل میںکشمیری قوم نے عسکری تحریک کا آغاز کیا تو مختلف عسکری جماعتوں کو آپس میں لڑایا گیا اور جان بوجھ کر یہ تاثر دیا گیا کہ کچھ عسکری جماعتیں سیکولر ہیں اور ہندوستان کے نزدیک ہیں ۔ جب اس سے بھی کام نہ چلا تو اخوان اور مسلم مجاہدین کے نام پر سرکاری عسکری گروپ بنا کر کشمیریوں کو تہہ تیغ کیا گیا ۔ جب اس سے بھی کام نہ نہ چلا تو فاروق عبداللہ کو 1996ء میں فرضی الیکشن کے ذریعہ کشمیریوں کی تحریک مزاحمت کا توڑ کرنے کیلئے کشمیریوں کے سروں پر سوار کیا گیا اور جب انہو ںنے اٹانومی قرار داد پاس کرکے اپنے آقائوں کو ناراض کیا تو کانگریس کی گود میں پلنے والے سب سے زیادہ دل سے ہندوستانی مفتی صاحب کو PDPکے نام پر کشمیریوں کو کنفیوز کرنے کی کوشش کی گئی اور اس کا نتیجہ آج کی تاریخ میںیہی ہے کہ محبوبہ جی اور عمر عبداللہ میں سے کسی نہ کسی کو ووٹ دینا اب بیشتر کشمیریوں کی مجبوری بن گیا ہے باوجود اس حقیقت کہ ہر کشمیری کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ یہ دونوں شہسوار گوڑھے پر تو دور کی بات گدھے پر سوار ہونے سے بھی کتراتے ہیں۔ اسی طرح متحدہ حریت کو اس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کی گئی کہ وہ عسکریت کے بجائے عوامی تحریک چلائے تو ہندوستان کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اور جب متحدہ حریت کی بیشتر اکائیوں نے دلی کے جھانسے میں آکر اپنی اپنی عسکری جماعتوں سے ہاتھ کھینچ لیا تو دلی نے انہیں اعتدال پسند اور انتہا پسند جیسی اصطلاحات کے نام پر اپنے گماشتوں کے ذریعے تقسیم کیا۔ کچھ وقت اعتدال پسند حریت کی ظاہر ی تواضح بھی کی گئی اور جب لگا کہ ہندوستانی لیڈروں سے چند ملاقاتوں کے بعد ان کی عوام میں ساخت کمزور ہوئی تو انہیں بے یار و مددگار چھوڑ دیا گیا ۔ مجبور ہو کر ان میں سے کچھ کشمیریوں کے سب سے بڑے دشمن مودی جی کے منہ بولے بھائی بننے کیلئے تیارہوئے اور کچھ نے گیلانی صاحب کے پاس جا کر توبہ کی ۔ ادھر جب عسکریت پسندوں نے اعتدال پسند کہلانے والے دھڑے کی دلی سے بڑھتی ہوئی نزدیکیوں پر اپنا اعتراض جتایا تو عسکری کمانڈروں کو دن میں سپنے دکھا کر نہرو گیسٹ ہائوس مدعو کرکے نہ صرف انہیں صفحہ ہستی سے مٹانے کا انتظام کیا گیا بلکہ پوری عسکری تحریک کے متعلق بے جا بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ۔ جیسا کہ پہلے ہی عرض کیا گیا ہے کہ حریت کو عسکری تحریک کے بجائے سیاسی تحریک چلانے کی ترغیب دی گئی اور شبیر شاہ سے لیکر گیلانی صاحب اور یٰسین ملک سے لیکر پروفیسر غنی صاحب تک کو ہر جگہ جانے کی کھلی چھوٹ دی گئی لیکن اہداف پورے ہوتے ہی اب کوئی دلی کے نزدیک نہ اعتدال پسند رہا اور نہ انتہا پسند بلکہ ہر کشمیری کو لگ بھگ ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جانے لگا۔ غرض نئی دلی نے عوامی بغاوت کو کچلنے کیلئے وہ سب کچھ کیا جو اس کے بس میں تھا ۔ اسی طرح عسکریت پسندوں کو پہلے سرینڈر کے لئے آمادہ کیا گیا اور جو جو بھی نئی دلی کے جھانسے میں آگئے سرینڈر کے بعد ان کی زندگیاں جہنم بنا دی گئی ۔ پھر جس بھی نوجوان نے عسکری تحریک میں شمولیت اختیار کی ان کے اہل خانہ پر چنگیز اور ہلاکو کے مظالم سے بھی بڑھکر مظالم ڈھائے گئے۔ جن لوگوں کو 2002ء تک ووٹ ڈالنے کے احترام اور اعتراف میں تھانہ کے SHOسے لیکر علاقہ کے فوجی میجر تک اکثر اوقات تنظیم و تکریم سے نوازتے تھے آج کی تاریخ میں ووٹروں کی تو دور کی بات منتخبہ MLAکی کوئی حیثیت دلی کے آگے نہیں ۔ لیکن ان تمام سازشی اقدامات سے مطلوبہ نتائج برآمد ہونے ہوئے دیکھ کر جنرل راوت کے ذریعہ ہر کشمیری کو یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ وہ کب تک زندہ رہے گا اس کا دارومدار وردی پوشوں کی منشا اور مرضی پر منحصر ہے ۔ غرض 1947ء میں شروع کئے گئے شرمناک منصوبے جن کا مقصد کشمیریوں کو رائے شماری کے مطالبہ سے دستبردار ہونے کیلئے مجبور کرنا تھا اب 2017ء میں انتہا کو اس وقت پہنچ گئے جب جنرل راوت نے لگ بھگ تمام کشمیریوں کو جنگجوئوں کا OGWقرار دیکر انہیں نتائج سے باخبر کیا ۔ جنرل راوت کی دھمکی جہاں اس بات کا اعتراف ہے کہ جنگجوئوں کو وسیع تر عوامی حمایت حاصل ہے وہاں اس سے یہ بات بھی صاف ہے کہ شائد ایسا تیز حکمنامہ ان کی بے بسی کو بھی ظاہر کرتا ہے اور ساتھ ہی دلی کیلئے کھلا پیغام ہے کہ اس کے بعد بھی اگر کشمیر یوں کی مزاحمت جاری رہتی ہے تو اس کا علاج کم از کم فوج کے پاس وہی کچھ ہے جو امریکیوں نے ویت نام میں اور روسیوں نے افغانستان میں کیا۔ جنرل صاحب کی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن قومی TVچینلوں میں بحث و مباحثوں میں مصرف تجزیہ نگاروں سے لیکر مختلف سیاسی جماعتوں کے لیڈران جس بے شرمی کے ساتھ جنرل کی تعریف کرکے چاڈورہ اور دیگر ہلاکتوں کو با جواز بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں وہ باعث شرم ہے اور اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ دلی نے اب کشمیریوں کو ’اپنے ناراض لوگ ‘کہنے کی رٹ لگانا چھوڑ دیا ہے ۔ ایسے میں اگرہر کشمیر ی کو ہندوستان عسکری جماعتوں کا OGWکہے تو اس میں دلبرداشتہ یا غصہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بلکہ ان کی بچی کھچی ساری خوش فہمیاں دور ہو جانی چاہئیں کہ دلی کبھی بھی انہیں اپنانے کی کوشش کرے گی۔ پھر جب ہندوستان برق رفتاری سے ’’ہندو دیش‘‘ بننے کی طرف رواں دواں ہے اور یوگی جی UPکو رام راج کا ماڈل بنانے میں جٹ گئے ہیں تو ہندوستانی فوج بھی سیکولر ہونے کے دعویٰ کے نقاب کو از خود ہی اتار کر کیوں نہ پھینکے۔یہ سارے حالات و واقعات صاف بتا رہے ہیں کہ ہندوستانی فوج کیلئے اب کشمیر نہ سیاسی مسئلہ ہے اور نہ امن و قانون کا مسئلہ بلکہ کشمیریوں کو مارنا ، اندھا کرنا، گالی گلوچ کرنا اور گھسیٹنا ان کو مذہبی فریضہ بن چکا ہے۔ ایسی صورتحال میں کشمیری قوم کیا کرے یا کدھر جائے اس سوال کا جواب ان لوگوں کو سوچنا چاہئے جنہیں اپنے سوا سارے غدار اور تحریک دشمن نظر آئے ہیں۔
فون نمر9906663777