رافیعہ رسول
ہماری وادی ٔ گل پوش وہ سرزمین ہے جہاں نامور شاعر ،قلم کار، افسانہ نگار اور ڈرامہ نگار پیدا ہوئے ہیں۔ فنکارانہ صلاحیت رکھنے والے قلم کاروں نے اس دنیا سے جانے کے بعد بھی ایسے نقوش چھوڑے ہیں جن کو ہم انمٹ کہہ سکتے ہیں، یعنی وہ ایسے کام کر گئے ہیں کہ ان کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے اُن کے گیت گنگنائے جاتے ہیں۔ ان کے کی کہانیاں سنی جاتی ہیں، پڑھی جاتی ہیں۔ اپنی تحریر اور اپنے کام کی وجہ سے وہ آج بھی حیات ہیں اور تا ابد حیات رہیں گے۔
فلک ریاض وادی ء کشمیر کے وہ نوجوان قلم کار ہیں جن کو ہرفن مولا بھی کہا جاتا ہے۔ان کو ہر ایک صنف پہ عبور حاصل ہے۔یہ کہانیاں بھی لکھتے ہیں، مختصر افسانے بھی لکھتے ہیں غزلیات بھی ان کے قلم سے گوہر کی مانند زمین ِ قرطاس کی زینت بن جاتی ہیں۔ انہوں نے ماہیے بھی لکھے ہیں۔ان کی نظموں کا اپنا ایک منفرد انداز ہے۔ حال ہی میں میں نے ان کے سو لفظی اور پچاس لفظی مختصر افسانے پڑھے۔ عرق ریزی اور بہت ہی محنت سے لکھے گئے یہ افسانے اتنے جدا گانہ ہیں کہ پچاس لفظوں میں سارا منظر پیش کیا گیا ہے۔ یوں تو سبھی کہانی لکھتے ہیں افسانے لکھتے ہیں لیکن یہ فن کسی کسی کو حاصل ہے۔ اس کو قدرتی بھی کہا جا سکتا ہے کہ صرف سو لفظوں میں اور پچاس لفظوں میں کہانی پیش کرنا۔۔یہ کمال کی بات ہے۔
فلک ریاض کا جنم 1988میں نمچہ بل شمسواری خانقاہ مولا سری نگر میں ہوا۔وہیں محلہ میں ہی قائم انگلش میڈیم اسکول کوئنز لیپ ہائی سکول میں تعلیم حاصل کی اورمحلے میں ہی قائم گاندھی میموریل کالج سے ڈگری اور اس کے بعد کشمیر یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔۔دسویں جماعت سے ہی ان کے مضامین روزنامہ آفتاب روزنامہ سری نگر ٹائمز روزنامہ چٹان وغیرہ میں شامل اشاعت ہونے لگے۔۔۔ان کے والد محترم ملک مشتاق معصوم بھی ایک اچھے شاعر اور قلم کار ہیں۔ شاعری کا فن اپنے والد محترم سے ہی ان کو حاصل ہوا۔کالج کے دنوں میں ہی انہوں نے افسانے اور نظمیں اور غزلیات لکھنا شروع کی۔ قارئین کو ان کا منفرد انداز بہت ہی پسند آیا ۔روزنامہ کشمیر عظمیٰ جب پہلی بار شائع ہوا تو فلک ریاض صاحب نے اخبار کے لئے ایک مضمون لکھا جو اس وقت کے نامساعد حالات پہ مبنی تھا۔مضمون کا عنوان تھا کھو گیا لخت ِ جگر خم کمر یہ ہو گئی۔۔یہ مضمون وادی کشمیر کے قارئین کو بہت بہت زیادہ پسند آیا ۔اس کے بعد انہوں نے کشمیر عظمی کے لیے اپنا پہلا افسانہ دھماکہ لکھا۔۔۔جس کو پڑھ کر قارئین کرام کی آنکھیں نم ہوئیں۔۔مجھے یاد ہے میں بھی ان دنوں روزنامہ آفتاب کے لئے کام کر رہی تھی تو ان کا وہ مختصر افسانہ پڑھا تو میری بھی آنکھیں نم ہوئی تھی۔۔افسانہ کے ساتھ فلک ریاض صاحب کا فون نمبر موجود تھا تو میں نے ان کو فون کیا تھا اور ان کو مبارکباد پیش کی تھی۔۔ایک قلم کار ہونے کے ساتھ ساتھ فلک ریاض ایک بہترین انسان بھی ہیں۔ پر خلوص نرم گو ہمدر انسان۔ مجھے اپنی بہن کا درجہ دیا تو اچھا لگا۔ میں ان کی ہر ایک تحریر پڑھتی ہوں۔ ان کی تحریروں میں زیادہ تر سماجی کوتاہیوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔ ان کی کہانیاں نہ صرف وادی ٔکشمیر کے اخبارات و رسالوں کے اندر چَھپتی ہیں بلکہ نیشنل لیول کے اخبارات و رسالوں میں متواتر طور پہ پرنٹ ہوتی رہتی ہے۔۔۔جارکھنڈ، بہار،جموں، دلی، ممبئی اور کرناٹک وغیرہ کے اخبارات اور رسالوں میں ان کی غزلیات نظمیں اور کہانیاں چھپتی رہتی ہیں۔ انہوں نے جو ایک نظم بیٹی کے عنوان پہ لکھی تھی وہ وادی بھر میں بہت مشہور ہوئی تھی۔
کچھ اس طرح سے تھی
خدارا نہ بیٹی کو تم بوجھ مانو
خدا کی طرف سے ایک رحمت ہے بیٹی
یہ مانا کہ بیٹا جگر کا ہے ٹکڑا
ہاں آنکھوں کی ٹھنڈک و راحت ہے بیٹی
اور ان کی ایک اور نظم عورت عنوان پہ ہے۔۔۔
ابھی تک حل نہ کر پایا بڑا ہی سخت معمہ ہے
کبھی تو پھول ہے عورت کبھی تلوار ہے عورت
وفا کی ایک دیوی ہے اگر سیتا کہ جیسی ہو
بہن راون کی صورت میں بڑی مکار ہے عورت۔
ان کی ایک نظم مارچ کی دھوپ کو پڑھتے پڑھتے گویا یوں گماں ہوتا ہے کہ انسان مارچ کی نرم دھوپ میں بیٹھ کر اپنے آنگن میں قدرت کے انعامات کا مزہ لے رہا ہے۔۔مطلب اس نظم میں ایسا کرشمہ ہے، ایسا جادو ہے کہ انسان تخیل میں سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ وہ مارچ کی دھوپ کا مزہ لے رہا ہے۔ فلک ریاض صاحب کو میں اس لئے ہرفن مولا قلمکار سمجھتی ہوں کہ یہ جب کسی حساس موضوع پہ لکھتے ہیں تو قارئین سوچنے پر اور آنسو بہانے پہ مجبور ہو جاتے ہیں اور جب مزاحیہ نظمیں لکھتے ہیں تو اداس چہروں پہ ہنسی کے پھول کِھل جاتے ہیں۔۔
ان کی ایک مزاحیہ نظم میں روزہ دار ہوں۔۔ وردِ زبان ہے۔۔۔
دفتر سے بھاگ جاؤں مسجد کے بہانے
آرام کے تکیے کو رکھ کے میں سرہانے
گھر بھاگنے کے دیکھتا ہوں خواب سہانے
گھر جا کے میں سنوں گا سب نغمے پُرانے
آفس سے نِکل جاؤں میں بے قرار ہوں
کیوں کام کروں بھائی میں روزہ دار ہوں۔
اس نظم میں طنز بھی پایا جاتا ہے اور ہنسانے والی چاشنی بھی موجود ہے۔۔۔مجھے ان کا ایک اور مضمون یاد آ رہا ہے جو روزنامہ کشمیر عظمیٰ میں آج سے چھ سال پہلے شائع ہوا تھا۔
عنوان تھا ’’اور میرا فاتحہ ہو گیا۔‘‘
اس میں قلم کار کی روح جب مرنے کے بعد گھر آجاتی ہے تو وہ دیکھتی ہے کہ فاتحہ خوانی پہ کیا کیا باتیں کر رہے ہیں اس کے قرابت دار دوست وغیرہ۔ چائے وازہ وان اور کھانے پینے کا دور چل رہا ہے۔ اس کو میں مضمون نہیں بلکہ طنز و مزاح کہوں گی۔ اس کو جب میں نے پڑھا تھا تو ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہو گئی تھی۔ بہترین طریقے سے لکھا گیا تھااور منفرد انداز میں۔
فلک ریاض نے دو سو سے زیادہ نوحے بھی لکھے ہیں اور محرم کے ایام میں ان کے لکھے ہوئے نوحے کشمیر کے شیعہ آبادی والے کئی محلوں میں مجالس اور جلوسوں میں پڑھے جاتے ہیں۔
ان کا ایک نوحہ
ابھی بھی عابد کو گھیرے ہیں زنجیریں
چلو اٹھائے نام پہ ان کے زنجیریں
اور
اب ہے تنہائی میں جینا میری مظلوم سکینہ میری لاچار سکینہ میری مظلوم سکینہ
بہت ہی مشہور نوحے ہیں۔
وادی کشمیر کے نامور گلو کار قیصر نظامی صاحب نے ان کی ایک اردو غزل گائی ہے اور کرونا وباء پہ انہوں نے دو گیت لکھے تھے۔جن کو راجہ بلال صاحب اور ارشد حسیں عرف عرش رفیع صاحب نے گایا تھا۔ جمیلہ خان صاحبہ نے بھی فلک ریاض کی ایک غزل کو گایا اور ایک نوحہ ان کا پڑھا ہے۔
مجھے ان کی ایک دل کو چیر دینے والی نظم یاد آ رہی ہے۔۔جو انہوں نے ایک آٹھ سالہ معصوم بچی ریپ وکٹم کے نام لکھی تھی۔۔۔جس کو عصمت دری کے بعد قتل کیا گیا تھا۔
عمر میری ہاں کچی تھی
میں ایک معصوم بچی تھی
مجھے امی نے پالا تھا
اور بابا نے سنبھالا تھا۔۔
فلک ریاض صاحب کی یہ دل سوز نظم پڑھ کر میں اتنا روئی تھی کہ پھر تین دن تک مجھے بخار رہا اورشاعر کا کہنا ہے کہ جب میں نے نظم لکھی تھی تو میں بھی اتنا رویا تھا کہ بار بار میرا کاغذ آنسوں سے بھیگ جاتا تھا اور مجھے نیا کاغذ استعمال کرنا پڑتا تھا۔ جب راجہ بلال صاحب نے یہ نظم گائی تھی تو وہ بھی بہت روئے تھے۔
آخر میں فلک ریاض صاحب سے میری یہی ناراضگی ہے کہ اتنے اچھے شاعر اور افسانہ نگار ہونے کے باوجود وہ اپنی کتاب شائع نہیں کر رہے ہیں۔شاید اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ اپنا کاروبار ریاست سے باہر ہندوستان کی ایک دوسری ریاست بنگلور میں سنبھال رہے ہیں مگر نئے قلم کاروں کو ان کی کتابوں کی ضرورت ہے۔ میں جاتے جاتے فلک ریاض صاحب سے گزارش کرنا چاہوں گی کہ وہ جلد جتنی جلد ممکن ہو سکے اپنی تخلیقات کو کتابی صورت بخشیں تاکہ میرے ساتھ ساتھ نئے قلم کار حضرات آپ کی فنکارانہ صلاحیت سے مستفید ہو سکیں۔۔۔
شکریہ۔۔۔
���
آرٹیسٹ و کارٹونسٹ،جموں و کشمیر
ای میل؛[email protected]