افتخاراحمدقادری
اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ’’شعبان المعظم ‘‘ ہے اس ماہِ مبارک کی وجہ تسمیہ یہ ہے:کہ’ شعبان‘ تشعب سے ماخوذ ہے اور تشعب کے معنیٰ تفرق کے ہیں، چونکہ اس ماہِ مبارک میں خیر کثیر متفرق ہوتی ہے نیز بندوں کو رزق اس ماہِ مبارک میں متفرق اور تقسیم ہوتے ہیں۔ حدیث شریف میں ہے: شعبان کو اس لیے شعبان کہا جاتا ہے کہ اس میں روزہ دار کے لیے خیر کثیر تقسیم ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوتا ہے۔ (رواہ الرافعی ،صفحہ141)
ماہ شعبان المعظم کی پانچ تاریخ کو حضرتِ سیدنا امام حسینؑ کی ولادت ہوئی اور اسی ماہ کی پندرہ تاریخ کو شب برأت یعنی لیلہ مبارکہ ہے، جس میں امت مسلمہ کے کثیر افراد کی مغفرت ہوتی ہے اور اس ماہِ مبارک کی سولہویں تاریخ کو تحویل قبلہ کا حکم ہوا۔ پہلے ابتدائے اسلام میں کچھ عرصہ بیت المقدس قبلہ رہا، پھر الله رب العزت نے حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مرضی کے مطابق کعبہ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنا دیا، اس وقت سے اب تک مسلمان کعبہ شریف کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے ہیں۔ (عجائب المخلوقات )
فضائلِ ماہ شعبان المعظم:ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم بعض اوقات بکثرت روزے رکھتے، اور میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو رمضان المبارک کے علاوہ مکمل مہینہ روزہ رکھتے نہیں دیکھا اور ماہ شعبان المعظم کے علاوہ کسی مہینے میں زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ یہ حدیث صحیح ہے امام بخاری ؒ نے اسے حضرتِ عبد الله بن یوسف کے واسطہ سے حضرتِ مالکؒ سے نقل کیا ہے۔
حضرتِ ہشام بن عروہؓ ام المومنین حضرتِ عائشہ صدیقہؓ سے روایت کرتے ہیں: آپ فرماتی ہیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کثرت سے روزے رکھتے، حتیٰ کہ ہم کہتے اب نہیں چھوڑیں گے اور آپ روزہ رکھنا چھوڑ دیتے یہاں تک کہ ہم کہتے اب روزہ نہیں رکھیں گے اور آپ شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنا پسند فرماتے تھے، میں نے عرض کیا یارسول الله! کیا وجہ ہے کہ میں آپ کو شعبان میں روزہ رکھتے ہوئے دیکھتی ہوں ؟آپؐ نے فرمایا:اے عائشہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں فرشتوں کو ایک تحریر دی جاتی ہے، اس میں ان لوگوں کے نام ہوتے ہیں جن کی آئندہ سال روح قبض کی جاتی ہے، پس میں چاہتا ہوں کہ جب میرا نام لکھا جائے تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔
حضرتِ عطا بن یسارؓ، ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت کرتے ہیں: آپ فرماتی ہیں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم رمضان المبارک کے بعد شعبان کے مہینے میں دوسرے مہینوں کی نسبت زیادہ روزے رکھتے تھے، اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شخص نے اس سال مرنا ہوتا ہے شعبان کے مہینے میں اس کا نام زندوں کی فہرست سے مرنے والوں کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے۔ کوئی شخص سفر کر رہا ہوتا ہے، ادھر اس کا نام مرنے والوں کی فہرست میں لکھ دیا جاتا ہے۔ حضرتِ ثابت حضرتِ انسؓ سے روایت کرتے ہیں: نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے بہترین روزوں کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: رمضان المبارک کی تعظیم کے لیے شعبان المعظم کے روزے رکھنا۔ حضرتِ انس بن مالکؓ فرماتے ہیں: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: شعبان کو اس لیے شعبان کہتے ہیں کہ اس میں رمضان المبارک کے لیے بہت زیادہ کلیاں پھوٹتی ہیں اور رمضان المبارک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ گناہوں کو جلا دیتا ہے۔ (غنیتہ الطالبین ،صفحہ441/442)
[email protected]