دائروں کے قیدی نہ بنو !
ترک نڑاد ناول نگار الف شفق اپنی خدادوست نانی کے بارے میں کہتی ہیں کہ ان کے بچپن میں ا?س پڑوس کے کئی لوگ چہرے یا دوسرے جسمانی اعضاء پر چھالوں ،کیل منہاسی یا پھوڑے پھنسیوں پر جھاڑ پھوک کے لئے ا?تے تھے۔
’’میری نانی منہاسی یا متاثرہ حصہ پر گلاب کا کانٹا چبھو کر اس کے گرد گہری سیاہی والے قلم سے ایک دائرہ کھینچ لیتی تھیں۔ پھر تھوڑے کلمات پڑھ کر مریض کو رخصت کرتی تھیں۔ چند دن بعد مریض ٹھیک بھی ہوجاتا تھا اور تحائف لے کر ا?جاتا تھا۔‘‘ الف نے نانی سے پوچھا کہ کیا عربی کے چند الفاظ میں اتنی طاقت ہے؟ نانی نے جواب دیا کہ بے شک دعا میں روحانی تاثیر ہے، لیکن تم دائروں کی طاقت سے ابھی لاعلم ہو۔نانی کی حکیمانہ دانش سے الف شفق نے جو کچھ سیکھا اسے انہوں نے ایک تقریر کے دوران یوں سمیٹ لیا:
’’اگر اس دنیا میں ا?پ کسی چیز کو ختم کرنا چاہتے ہوں، چاہے وہ جسمانی جلد پرلگا پھوڑا ہو، منہاسی ہو، کوئی نظریہ ہو یا انسانی روح، بس ایک دائرہ اس کے گرد کھینچ لو، اندرہی اندر سڑ جائے گا۔‘‘
تہذیب تشکیل پانے کے بعد سے ہی انسانی معاشرہ گروہ بندی کا شکار ہوگیا۔ پہلے پہل تو گروہ بندیاں معاشی مفادات پر مبنی ہوتی تھیں، لیکن بتدریج یہ تقسیم خیالات، نظریات، عقائد اور طرزحیات کی بنیاد پر ہونے لگی۔ان ہی سماجی، معاشرتی اور مذہبی دائروں میں فی الوقت دنیا بٹی ہوئی ہے۔اور ہر دائرے کے اندر سرگرم رضاکار مسلسل اس کوشش میں رہتے ہیں کہ وہ ’’ہم خیال‘‘ لوگوں کو اپنے گروہ میں شامل کریں۔ یہی ہم خیالی، یک رنگی، یکسانیت اور ایک جیسی سوچ کا جنون کسی زمانے میں ہٹلر کے سر پر سوار تھا، جس نے لاکھوں یہودیوں کو اس لئے تہہ تیغ کردیا کہ وہ اس کے ’’دائرے ‘‘ میں نہیں تھے۔ اسی جنونی دائرے میں فی الوقت بھارت کی ا?ر ایس ایس اور بی جے پی ہے ، جو دائرے سے باہر سب لوگوں کو وطن دشمن کہتی ہے۔دائرہ بندی کا یہی روگ مسلمانوں کے ایک طبقے کو بھی لگا ہے، جو دائرے سے باہر سب مسلمانوں کو کافر سمجھتا ہے۔
الف شفق اور دوسرے دانشور دائرہ سازی کے اسی کلچر کو دنیا میں فسطائیت اور جنونیت کا موجب مانتے ہیں۔ خیالات، نظریات اور خودساختہ عقائد کی اونچی دیواروں کے پیچھے رہنے والوں کی اپنی الگ دنیا ہوتی ہے۔ و ہ انسان کے اجتماعی مذاق سے نابلد ہی نہیں بلکہ متنفر بھی ہوتے ہیں۔کہانیاں، سچی ہوں یا ناول نگار کی فنی اختراع، ان دیواروںکو توڑ تو نہیں سکتیں، دائروں کو منہدم نہیں کرسکتیں۔ لیکن ان دیواروں میں سْوراخ کرکے اندر جھانکنے کا موقع فراہم کرسکتی ہیں۔ اپنے مطالعے پر دائرے کا دھیمک نہ لگنے دیں۔
سب کو شک کرنے کا حق ہے
فرانسیسی دانشور، فلسفہ دان اور ماہر ریاضیات رینے ڈیکارٹ (1594-1650)کے بارے میں کہتے ہیں کہ نطشے کے بعد وہ پہلا شخص ہے جس نے مغربی تہذیب کے عروج اور تحقیقی دبدبے کی بنیادیں استوار کیں۔فلسفہ میں اس کے منہاج کو تشکیک یعنی Method of Doubt کہتے ہیں۔ ڈیکارٹ کا جملہ صدیوں سے مشہور ہے: I Think, Therefore, I am یعنی اگر میں سوچتا ہوں، تو میں ہوں۔ یعنی غور وفکر ہی انسانی وجود کی ضمانت ہے۔ اس جملے کو اسلامی مفکروں نے قران کی اْن تلقینوں کے ساتھ جوڑ کر خوب اْچھالا جن میں انسان کو غور و فکر، تدبر اور ذہنی مشقت کی ترغیب دی جاتی ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ اہل دانش کے یہا ں ڈیکارٹ کا جو جملہ استعمال کیا جاتا ہے، وہ ا?دھا جملہ ہے۔ پورا جملہ جو ڈیکارٹ نے سترہویں صدی میںلاطینی زبان میں لکھے گئے ایک مقالے میں استعمال کیا تھا ، وہ یوں ہے:Dubito Ergo Cogito; Cogito Ergo Sum یعنی ’’اگر میں شک کرتا ہوں، تو میں سوچتا ہوں؛اگر میں سوچتا ہوں تو میں ہوں۔‘‘
اکثر مسلم دانشوروں نے شک کو قدیم فلسفیوں کی ا?وارہ خیالی تصور کرکے اسے تفہیم ِ دین یا تفہیم ِ دْنیا کا علمی ا?لہ نہیں بنایا۔ اصل میں شک اور تجسس کو انسانی فطرت میں اسی لئے ودیعت کیا گیا ہے کہ وہ خدا کی کائینات کے راز اور تخلیقی اسرار کو دریافت کرسکے۔اس میں خواہ مخواہ قران شریف کی ا?یت لاریب فیہ کو سامنے لانا غیرعلمی رویہ ہے۔ قران چونکہ خدا کا کلام ہے، اور خدا کا کلام مشکوک نہیں ہوسکتا۔ لیکن قران سے باہر والی ہر شے تشکیک کے مراحل سے نہ گزرے تو انسانی رویوں پر جنونیت سوار ہوجاتی ہے۔ یہی جنونیت اور عدم تشکیک کا رویہ دراصل دنیا میں مسلکی دنگوں، نظریاتی جھگڑوں اور گروہ بندیوں کی بنیاد ہے۔امام بخاری نے صحابہ پر شک کیا تو حدیث بہت حد تک محفوظ ہوگئی،جدید علما نے اپنے اسلاف پر شک کیا تو کئی گھتیاں سلجھ گئیں۔ہر انسان کو شک کرنے کا فطری حق ہے۔
کشمیر میں تو محض اس بات پر بھی کوئی گردن زدنی قرار پاتا ہے اگر وہ کہے کہ الحاق پاکستان ہی مسلہ کشمیر کا حل ہے، یا کشمیر کو مکمل طور پر ا?زاد رہنا چاہیے یا یہ کہ موجودہ صورتحال کے بیچ ایک حل دریافت کیا جائے۔ کجا کہ شرعی، یا دینی روایات کے بارے میں کوئی شک کی انگلی اْٹھائے۔ انسان کے شک کو ایکنالج کرنا بالغ سماج کی نشانی ہوتا ہے۔ مغرب نے انسان کے اسی حق کو تسلیم کرکے وہ سبھی اقدار تخلیق کئے جن کے بل پر وہ فی الوقت دنیا کی غالب تہذیب ہے۔مجھے شک ہے کہ عمدہ رویہ ہمارے ہاں مقبول ہوگا۔ اوہ، معاف کیجئے گا، غلطی سے شک کربیٹھا!
( بشکریہ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)