حسب حال
سیدین وقار
نوجوان قوم کے معمار ہوتے ہیں اور ان معماران کی بہترین تعمیر میں جہاں والدین، معاشرہ اور استاد کردار ادا کرتے ہیں وہیں نصاب تعلیم کا کردار بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوا کرتا ہے۔ کیوں کہ نصابِ تعلیم ذہنی پرداخت اور فکری تشکیل کے ساتھ ساتھ شخصیت کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بچے کے ناپختہ اور صاف ذہن میں جو تصویر درسگاہ میں ابتدائی سال سے اپنے نقش و نگار ابھارنا شروع کرتی ہے تعلیم سے فراغت تک وہ تصویر اس حد تک پختہ ہو جاتی ہے کہ اس کے نقوش انمٹ ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کسی بھی ملک میں نصاب سازی کے کام کو بنیادی اہمیت دی جاتی ہے۔ نصاب سازی کا کام پختہ، تجربہ کار اور ماہرین نفسیات کو سونپا جاتا ہے تا کہ ایسا نصاب تیار ہو جو ملکی و ملی مفاد سے ہم آہنگ ہو اور مطلوبہ افراد کار کی تیاری میں ممد و معاون ہو۔ لہٰذا یہ کہنا کسی طور غلط نہ ہو گا کہ تعلیم کا اہم ہدف انسان سازی ہے۔ جس نے اس صنعت پر توجہ دی اس نے دنیا سے اپنا لوہا منوایا اور جس نے اس معاملے میں نا اہلی اور عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا غلامی اس کا مقدر ٹھہری۔
یوں توجموں کشمیر میں اس وقت دو نظام تعلیم رائج ہیں ۔ ایک حکومتی یا سرکاری نظام تعلیم، دوسرا پرائیویٹ نظام تعلیم جس میں بیش ترمستند اور ماہر افراد کا تیار کردہ نصاب رائج ہے ۔اگر سرکاری نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ انسان سازی کی یہ صنعت اپنی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے بانجھ پن کا شکار ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی کمی ضرور ہے جس کی وجہ سے یہ تعلیمی ڈھانچہ عصری تقاضوں اور معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ افراد فراہم کرنے سے قاصر ہے ۔ اس ساری صورتحال کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان نصاب ہائے تعلیم کی تیاری ہماری قومی و معاشرتی نفسیات اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ سرکاری نظام تعلیم لارڈ میکالی کے “سنہری اصولوں” پر کاربند ہے تو پرائیوٹ نظام سارا کا سارا ہے ہی درآمد شدہ۔ کسی بھی ملک کا نظام تعلیم جن مقاصد و اہداف کے حصول کے لیے کوشاں ہوتا ہے مذکورہ بالا نظام ہائے تعلیم ان مقاصد و اہداف کے حصول میں مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے سے تا حال قاصر ہیں۔ اس ناکامی میں جو عنصر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے وہ نصاب تعلیم ہے۔ نصاب کا نفسیات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم طلبہ کی ذہنی پرداخت پر نفسیاتی پہلو سے اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ ان کی ظاہری و باطنی شخصیت میں غیر محسوس انداز سے ایک خاص نفسیاتی طرز عمل غالب آ جاتا ہے اور اس نفسیاتی طرز عمل کا رنگ معمولات حیات میں جا بجا نظر آتا ہے۔
ہمارے یہاں نصاب سازی کا کام جموں وکشمیر بورڈ آف سکول ایجوکیشن کے سپرد ہے جہاں ایک شاخ محض اس لئے بنائی گئی ہے تاکہ سکول میں اول سے لے کر ثانوی سطح تک مختلف مضامین کا نصاب مرتب کیا جائے ۔مذکورہ شاخ نے مختلف مضامین میں نصاب سازی کے لئے ماہرین کی کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ اس کے علاوہ مختلف سکولوں او ر کالجوں سے وقت وقت پر مضامین پڑھانے والے حضرات کو مدعو کیا جاتا ہے جن کی آرا ء لے کر ہی کسی بھی جماعت کے لئے کسی بھی نصاب تیار کیا جاتا ہے ۔ لیکن بہ غائر نظر مطالعہ کیا جائے تو ہمارے یہاں گزشتہ 30پنتیس برسوں سے ایک ہی جیسا نصاب رائج ہے ، جس کی مثال زبانوں اور خصوصاً ریاست کی سرکاری زبان اردو کی ہے ،جو سبق ہم نے خود 8ویں جماعت میں پڑھے تھے ۔آج تیس سال بعدوہی اسباق 11ویں اور بارہویں جماعت کے لئے مخصوص کردہ کتاب بہارستان اردو میں پائے جاتے ہیں ۔تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی نصابی کتابیںاغلاط اور حقیقت سے کوسوں دور معلومات سے پُر ہیں۔ ان نصابی کتابوں کے حوالے سے مضامین کے ماہر اساتذہ کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں کسی بھی طرح اکیسویں صدی کے مسائل سے طلبا کو نبرد آزما ہونے میں مددگار ثابت نہیں ہوں گی۔اگرچہ قومی درسیات کا خاکہ (NCF)2005میں سفارش کی گئی تھی کہ بچوں کی سکول کی زندگی ،ا ن کی باہر کی زندگی سے ہم آہنگ ہونی چاہئے ۔یہ زاویہ نظر کتابی علم کی اس روایت کی نفی کرتا ہے جس کے باعث آج تک ہمارے نظام سکول ،گھر اورسماج کے درمیان فاصلے حائل ہیں ۔لیکن جس طرح کی نصاب سازی ہماری ریاست میں ہورہی ہے وہ خود اس خاکے کے خلا ف ہے ۔