موجودہ دور سائنس و ٹکنالوجی کا دور ہے ۔ انسان نے نت نئے تجربات اور تحقیقات سے جملہ انسانوں کے لیے طرح طرح کی آسائش اور سہولیات بہم رکھی ہیں ۔ ہر طرف دولت و علم کی فراونی ہے ۔ انسان نے معاشی و مادی طور یقینا تراقی کے مرا حل طے کئے ہیں لیکن پھر بھی ہر قوم ، ہر فرد اور سماج اَن گنت مسائل سے دوچار ہے، جن سے نکلنے کی وہ کوئی راہ نہیں پا رہا ہے ۔ ہر طرف جھوٹ ، فریب کاری ، رشوت ستانی ، چوری ، قتل و غارت ، بے حیائی ، ظلم و ستم دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ آج کل انسان تلاشِ مال ، حُب جاہ وحشمت اور دُنیوی چیزوں کے حصول میں اس قدر حدود پھلانگتا جاتا ہے کہ وہ حلال و حرام کی تمیز کھو رہا ہے ۔سماجی و معاشی نابرابری ، سرمایہ داروں کے ہاتھوں متوسطہ کا استحصال وغیرہ وغیرہ جیسے مسائل کے جنگل نے ہمارے معاشرے کو بری طرح گھیر لیا ہے۔ اگر حقیقت بین نگاہوں سے دیکھا جائے تو یہ بات یقینی طور پر کہی جاسکتی ہے کہ جہاں بے روزگاری،والدین کی غلط تعلیم و تربیت ،دینی فہم کا فقدان ، ساس بہو کی رسہ کشی ، رشوت ستانی ،حکومت وقت کی نااہلی اور رسم و رواج کی پابندیاں، نیز اسلامی معاشرت کی عدم موجودگی ہمارے کمزور اعصاب والے افراد کو خود کشی کی طرف دھکیل رہے ہیں ، وہیں کسی حدتک سماج کا اعلیٰ طبقہ یا نو دولتیے بھی اس برائی کی ترویج و فروغ کے لیے برابر کا ذمہ دار ہے ۔ ان کی کوئی بھی مذہبی یا سماجی رسم کی ادائیگی معاشرئے کے متوسطہ طبقے کے لیے ایک سند بن جاتی ہے ۔ ان کے لایعنی طرزِ عمل اور طریقہ زندگی سے معاشرہ اندھا دُھند ان کی روشِ حیات پر چل پڑتا ہے ۔ شادی بیاہ کی رسم ہوں یا غمی کا موقع، یہ حضرات بے جا اسراف سے سماج میں باقی طبقات کے لیے مصیبت کا سامان تیار کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بڑے بڑے قصبوں میں لڑکے لڑکیاں شادی کی عمریں بھی عبور کرچکے ہیں کیونکہ خود ساختہ رسم ورواج ان کی خواہشات کی تلمیل میں رکاوٹ کا باعث بنتے ہیں ۔ نوجوان نسل کی بات کریں ان میں بھی برداشت کا مادہ معدوم ہوکر رہ گیا ہے ۔اس کے لیے حکومت وقت کی ناقص روز گار پالیسیاں اور نوجوان نسل کے تئیں اس کی سرد مہری بنیادی طورذمہ دار ہیں ۔ ریاست میں بے روزگاروں کی ایک بہت بڑی فوج کھڑی ہے، یہ بے روزگار طبقہ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرکے حصول ِروزگار کے لیے مختلف محکموں کی خاک چھان رہتے ہیں ۔ اسلامی معاشرہ کی عدم موجودگی میں معاشرہ کے افراد میں پھوہڑپن اور بد سلیقہ مندی کاعنصر پروان چڑھا کیونکہ جھوٹی شان اور دکھاوئے نے لوگوں کو بنکوں سے موٹی موٹی اور خطیر رقمیں قرضہ لینے پر آمادہ کرتے ہیں اور قرضوں کے بوجھ تلے دب کر یہ لوگ اپنے لیے خود مفلسی و ناداری اور ذہنی خلفشاری کا سامان تیار کرتے ہیں ۔ گھروں میں ساس بہو کے رشتوں کی بات کی جائے تو یہاں بھی ان کی رسہ کشی اور تنا تنی جنت نما گھرانوں کے امن و سکون کو درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے کیونکہ ساس بہو کو کبھی اپنی بیٹی اور بہو کبھی ساس کو اپنی ماں کا درجہ دینے سے قاصر رہ جاتے ہیں ۔ یوں یہ گھرانے دکھوں اور غموں کی آماج گاہ بن جاتے ہیں ۔ ادھر دور جہیز جیسی لعنت اور وبا بھی پروان چڑھتی رہتی ہے ۔ بنابریں مردوں کے مقابلے میں اکثر عورتیں احساسِ کمتری کا شکار رہتی ہیں جس کا اثر ان کی زندگی پر لازماً پڑتا ہے کہ ان کا سکون وچین غارت ہو کر رہ جاتا ہے ۔ چنانچہ آئے روز ہم اخباروں میںپڑھتے رہتے ہیں کہ فلاں کم نصیب لڑکی نے سسرال والوں کے بُرے سلوک اور جہیزی مطالبے سے تنگ آکر خودکشی کرلی۔ نہ جانے امیر طبقے کے رسومات ِ بد آنے والے دنوں میں کتنے گھرانوں کی خوشیاں چھین لیں گے ۔ موجودہ دور میں عدل و انصاف جیسی اصطلاحیں اربابِ اقتدار اور سماج کے اعلیٰ طبقے کے پیروں تلے روندی جارہی ہیں حالانکہ اسی پر سماج کی کامیابی و کامرانی کا انحصار ہے ۔ عصر حاضر میں نفسا نفسی کی خود غرضانہ آوازین چاروں جانب گونج رہی ہیں، مادہ پرستی نے اُمت کے آنکھوں پر بھاری پردہ ڈال دیا ہے ، والدین اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اسلامی نظریات و عقائد کے تحت کرانے سے کوتاہی برت رہے ہیں ۔ تاریخ کے اور اق میں ہمارے لیے سلف صالحین کی بہت سی ایسی پاکیزہ روایات محفوظ ہیں جو دوسروں کی حاجات و ضرورِیات پوری کرنے کی فضیلت اُجاگر کرتے ہیں ۔ امامِ حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ مجھے حاجت مند مسلمان کی کوئی حاجت پوری کرنا ایک ہزار رکعت نماز پڑھنے سے زیادہ محبوب ہے اور کسی بھائی کی حاجت روائی دوماہ کے اعتکاف سے زیادہ پسندیدہ ہے ۔ آج نوعِ انسانی کی سب سے بڑی ٹریجڈی یہ ہے کہ وہ اوصاف حمیدہ سے تہی دست ہوچکی ہے ،مذموم اوصاف و منکرات وبا کی طرح عام ہوگئے ہیں ، اخلاقی تعلیم کی طرف بے رغبتی اور اچھائی سے بیزاری ا س کاشیوہ بن چکا ہے ۔ آدمی حصول معاش کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو وہ محنت کے باعث جسمانی طور تھک جاتا ہے اور بڑی شدت سے گھر لوٹنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ تھکاوٹ سے چور جسم کو آرام و سکون ملے ۔ جب وہ دن بھر کی مشقت کے بعد گھر میں داخل ہوتا ہے تو اپنی بیوی کے برتاؤ میں کوئی خوش کن پہلو نہ دیکھے تو اُس کی بے رُخی دیکھ کر گھٹن اور تنگی محسوس کرکے آدمی کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے ۔ بہر صورت ان تمام بُرائیوں کی روک تھام کے لیے سماجی اورحکومتی سطح پر ٹھوس اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں مختلف محکموں میں روزگار کے مواقع بروئے کار لاکر بھرتی عمل میں شفافیت لانے کی اشد ضرورت ہے ۔ سماج کے بالائی طبقہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ شادی بیاہ اور سوگ وغم کی رسموں میں بے جا اسراف سے اجتناب کرے ، وہ سماج کے متوسط اورپچھڑے طبقات کے لئے از راہ ِا نسانیت متفکر ہونے کی صفت اپنے اندر پیداکرے تاکہ موخرالذکر طبقے میں یہ احساس پیداہو کہ وہ ہمارے معاشرے کا جز وِلاینفک ہیں، ان کے جذبات و احساسات کی قدر کرے،ان کو عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے، ان کووہ مقام دلائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ گھر کے ذمہ داران پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بسا اوقات گھر میں لڑائی جھگڑے اور باہمی رقابت واختلافات کا ازالہ کریں ۔ گھر کے بڑوں کو اپنی رائے ہر معاملے میں مسلط کرنے کے بجائے افہام و تفہیم اور محبت ومودت کا راستہ تلاش کریں۔ ہر آنی والی پریشانی و مصیبت کو خندہ پیشانی سے برداشت کرنے کی خُو اپنائیں۔ حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کا طرز عمل اختیار کریں ، گھر کے افراد کو جرأت و بسالت اور صبر و استقلال اپنانے کی نصیحتیں کریں۔اور صبر و تحمل و ضبط و نفس کو ہاتھ سے جانے نہ دیں ۔ افراد خانہ کی امنگوں اور خواہشات کو جانے کی کوشش کریں۔ محنت و جفاکشی جیسے صفات سے خود کو متصف ہو کر حزن و یاس کے پردوں کو چاک کریں، نیز میٹھے بول اورخوشگوار تاثرات ، مفید علم کے مذاکرے میں مشغول ہو جائیں ، سب سے بڑھ کر یہ کہ خیر خواہی ،شفقت و محبت کے جذبے اپنے رواں رواں میںبیدار کریں تا کہ ہمارے گھروں میں خوشیوں کی دئیے روشن ہوں۔
فون نمبر9858529817
������