ایجنسیز
پیرس//فرانس کے رن آف الیکشن میں بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد نے سب سے زیادہ 180 نشستیں حاصل کی ہیں۔صدر ایمانوئل میخواں کی اتحادی جماعتوں کا اتحاد 160 سے سیٹیں حاصل کر سکا ہے۔انتہائی دائیں بازو کی حامی پارٹیاں صرف 140 سیٹیں جیت سکی ہیں۔کوئی بھی سیاسی اتحاد 577 ارکان کے ایوان میں 289 نشستوں پر مشتمل اکثریت کا مطلوبہ ہدف حاصل نہیں کر پایا۔کسی بھی جماعت یا اتحاد کو اکثریت نہ ملنے سے ایک معلق پارلیمان کے وجود میں آنے کا امکان ہے۔فرانس کے بائیں بازو کی پارٹیوں پر مشتمل اتحاد نے قانون ساز اسمبلی کے انتخابات میں سب سے زیادہ 180 سیٹیں حاصل کرلی ہیں۔ لیکن دائیں بازو کی جماعتوں کی شکست کے باوجود یہ اتحاد واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔نتائج کے مطابق انتہائی دائیں بازو کے حامی صرف 140 سیٹیں جیت سکے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کی یہ کارکردگی 2022 کے انتخابات میں حاصل کی گئی 89 نشستوں کے مقابلے میں کہیں بہتر رہی۔ یہ سیاسی صورتِ حال یورپی یونین کی دوسری بڑی اقتصادی طاقت فرانس کی معیشت اور مارکیٹوں پر منفی اثرات مرتب کر سکتی ہے۔فرانس کا سیاسی ابہام کا منظر نامہ یوکرین میں جاری جنگ، عالمی سفارت کاری اور یورپ کے اقتصادی استحکام پر بھی اثرات مرتب کر سکتا ہے۔فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں نے دائیں بازو کے اتحاد کی یورپی پارلیمان میں کامیابی کے بعد ملک میں قبل از وقت قومی انتخابات کا اعلان کیا تھا تاکہ میں ملک کا سیاسی منظر نامہ واضح ہو سکے۔تاہم ان کا یہ سیاسی اقدام ہر سطح پر نقصان دہ ثابت ہو رہا ہے۔ اب الیکشن کے بعد کوئی بھی سیاسی جماعت ایوان میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔فرانس کی حالیہ تاریخ میں معلق پارلیمان کی مثال نہیں ملتی۔ دوسری جانب فرانس 26 جولائی سے اولمپکس مقابلوں کی میزبانی بھی کرے گا۔فرانس کے صدر ایمانوئل میخواں کی صدارت کے ابھی تین سال باقی ہیں جب کہ حکومت کے رہنما وزیرِ اعظم گیبریئل اتال اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔فرانس میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد لگ بھگ ساڑھے چار کروڑ ہے۔نئے تناظر میں پچھلی پارلیمان کے مقابلے میں الیکشن کے بعد بننے والے نئے ایوان میں کہیں استحکام نظرنہیں آتا۔ان سیاسی حالات میں جب صدر میخواں اس ہفتے واشنگٹن ڈی سی میں مغربی عسکری اتحاد نیٹو کے اجلاس میں شرکت کے لیے آئیں گے تو انہیں یہ علم نہیں ہوگا کہ ملک کا اگلا وزیرِ اعظم کون ہوگا۔اس کے برعکس ان کو ایک ایسی صورتِ حال در پیش آ سکتی ہے جس میں صدر کو کسی ایسے سیاست دان کے ساتھ اختیار بانٹنا پڑے جو ان کی پالیسیوں سے شدید اختلاف رکھتا ہو۔