روبینہ میر ۔جموں و کشمیر
خِطۂ پیر پنچال بھی زمانہء قدیم سے علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔اس سرزمین نے زندگی کے الگ الگ شعبوں سے تعلق رکھنے والی بہت سی عظیم شخصیات کو جنم دیا ہے،
جن کے ناموں کی طویل فہرست ہے۔فاروق مُضطر جیسی قدآور شخصیت بھی اسی سرزمین کی پیدا وار ہے۔جموںو کشمیر ایسی مایہ ناز سپوت پر ہمیشہ ناز کرے گی، جو صدیوں کے بعد پیدا ہوتی ہیں۔ہر انسان کے لئے خوش اخلاق و خوش اخلاص ہونا ایک پُر کشش جذبہ ہے۔اگر اس جذبے کو آپ نقطۂ کمال پر دیکھنے کے خواہش مند ہیں تو آپ محترم فاروق مُضطر صاحب سے ایک بار ضرور ملیںاور کُچھ وقت اُن کی صحبت میں گزاریں۔
فاروق مُضطر کسی فردِ واحد کا نام نہیںبلکہ اُس تحریک ،اُس انجمن کا نام ہے۔جس نے 80 کی دہائی میں ہمالین ایجوکیشن مِشن نام کا ایک پودا لگایا،جو ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیااورجس کی شاخیں راجوری کے گردونوح میں پھیلی ہوئی ہیں۔اس درخت کے پھل اور سائے سے خطۂ پیر پنچال ہی نہیں بلکہ ریاست اور مُلک کے کئی خِطوں کے لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں۔
کُچھ لوگ اتنے عظیم ہوتے ہیں کہ اُن کی تعریف و توصیف بیان کرتے الفاظ کم پڑ جاتے ہیں،موصوف بھی انہی خوش نصیب شخصیات میں سے ایک ہیں،جو عظیم دانشور ،صاحبِ اسلوب ادیب ،اعلیٰ پائے کے شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مہذب انسان ہیں،جنہوں نے اپنی محنت اور لگن سے ایک ایسا علمی ،ادبی اور فکری جہاں تشکیل دیا جو نئی سوچ اورفِکر کا ایک انوکھا منظر نامہ پیش کرتا ہے۔وہ کہتے ہیں:
دیکھو میری جبیں پر میرے عہد کے نقوش
رکھو مجھے سنبھال کے اِک آئینہ ہوں میں
یہ بات مسلم ہے کہ راتوں رات کوئی شخص شخصیت کا روپ نہیں دھار سکتا، بلکہ یہاں تک پہنچنے کے لئے خاک کے پُتلے کو خاک میں ملنا پڑتا ہے۔ بقول شاعر؎
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کُچھ مرتبہ چاہئے
کہ دانہ خاک میں مل کر گُل و گُلزار بنتا ہے
انسان کسی بھی شعبے کے ساتھ جڑا ہو اُس کا منفرد کردار ہی اسے شخصیت بنانے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ لکیر کے فقیر اور غیر مُستقل مزاج افراد نمایاں ہوتے ہوئے بھی دنیا کے منظر نامے پر اپنا عکس نہیں چھوڑ سکتے ،بلکہ اُن کا کردار دنیا کے منظرنامے پر گرد آلود نظر آتا ہے۔ایسے افراد اپنے کام اور نام کی شہرت کے لئےبہت ساری تدبیریں کرتے ہیں،جن کا حاصل صفر کے برابر رہتا ہے۔اس حوالے سے فاروق مضطر صاحب اپنی خوش اخلاقی، دور اندیشی ،باریک بینی ،روشن خیالی ،نیک نیتی اور مُستقل مزاجی کے سبب علمی اور ادبی دنیا میں اپنا منفردد مقام رکھتے ہیں۔ان کی یہ صِفات ہی ان کی اصل پہچان ہیں۔
خواب تو ہر کوئی دیکھتا ہے مگر خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کا جنون کسی کسی کے سر میں ہوتا ہے۔اس ضمن میں یہی کہا جا سکتا ہےکہ کم وقت میں زیادہ سفر طے کر کے اس علمی وادبی دانشگاہ کو اس مقام تک پہنچانے میں اس جنون کا سہرہ اس ادارے کے سرپرست و بانی جناب فاروق مُضطرکے سر ہی جاتا ہے۔خطۂ پیر پنچال کے اہلِ علم حضرات کے لئے ہمالین ایجومیشن مِشن کا ترقی کی یہ منازل طے کرنا کسی خواب کے سچ ہو جانے جیسا ہے،لیکن سچ یہ ہے کہ یہ خواب کبھی پورا نہ ہوتا،اگر اس ادارے کے سرپرست و بانی مُضطر صاحب اس مِشن کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا اہم رول ادا نہ کرتے۔
اچھے اِخلاق اور سچے جذبوں میں اخلاص ایک بیش بہا نعمت ہےجو آج کے دور میں ہر کسی کے پاس نہیں۔انسان کے احساس کا ترجمان اُس کا رویّہ ہوتا ہے۔الفاظ کتنے بھی خوبصورت کیوں نہ ہوں انسانی احساس کی ترجمانی نہیں کر سکتے،اگر انسان کا رویّہ ٹھیک نہیںتو اُس کی زبان سے ادا ہوئے خوبصورت الفاظ بھی اُس کے غلط رویے کے زیرِ اثر اپنی خوبصورتی کھو دیتے ہیں۔مُضطر صاحب بحیثیت انسان اخلاقِ حَسنہ کے پیکر، خوش مِزاج ،پُر وقار ،دیانتدار ،مہمان نواز بامرَوّت اور باخلوص انسان ہیں۔
موصوف نے اپنی زندگی کا اکثروبیشتر حصہ علم و ادب کے لئے وقف کیا ہے،جس کی ایک نظر زمانے کی رفتا پر اور دوسری نظر قوم کی نبض پہ رہتی ہے۔ ’’شان ِ پیر پنچال ‘‘ فاروق مُضطر صاحب اُس شخصیت کا نام ہے،جس کی زندگی سے ہمیں بے شمار سبق ملتے ہیں۔ایسی ہی عظیم شخصیات کے لئے کسی شاعر نے کہا ہے؎
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
پھر خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
موصوف نے اپنی زندگی کے سفر کا آغاز شعبۂ تعلیم میں سرکاری ملازمت سے کیا۔سُبکدوشی کے بعد پنے ذاتی آرام و سکون کو مُلک و قوم کی خدمت پر قربان کر کے اپنی زندگی کا زیادہ سے زیادہ وقت نئی نسل کی آبیاری کے ساتھ ساتھ علم و ادب کی خدمت میں گزار رہے ہیں۔موصوف پسماندہ ،یتیم ،مسکین بچوں کے لئے کسی مسیحا سے کم نہیں۔اس ادارے کی بدولت کئی بیواؤں ،غریبوں اور مسکینوں کے چولہے جل رہے ہیں۔اللہ پاک مضُطر صاحب کے اس نیک عمل اور ان خدمات کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما کر اجرِ عظیم عطا کرے اور صحت و سلامتی کے ساتھ لمبی عُمر عطا کرے۔ آمین
موصوف کا ہمالین ایجوکیشن مِشن( ایچ ای ایم ) کا اصل مقصد نسلِ نو کی تعلیم و تربیت ہے۔جہاں مُسلم غیر مُسلم سبھی طلباء کے لئے دروازے کھلے ہیں۔یہ علمی و ادبی درسگاہ نئے فِکری رُجحانات کی ایک علامت ہے،ایک تحریک ہے،جہاں نئی نسل کی کردار سازی اور تعمیرِ ملت کا سامان بھی مہیا ہے۔ موصوف نے انسان دوستی کی بنیاد پر قلیل عرصے میں جو کارہائے نمایاں انجام دئے، جو ناموری اور شہرت حاصل کی ہے،اس کے حصول میں بعضوں کو مُدتیں لگ جاتی ہیںاور بعض مُدتیں گزرجانے کے بعد بھی گمنام رہتے ہیں۔
مُضطر صاحب کا قلیل عرصے میں شہرت پانے کی پہلی وجہ تو یہ ہےکہ موصوف ماہرِتعلیم ،ادیب ،شاعر ،تنقید نگارو محقق ہونے سے پہلے ایک اچھے اور مخلص انسان ہیں، جنہوں نے قومی خدمت کو اپنا شعار بنایا۔
مُضطر صاحب کے تاریخی کاموں اور علمی و ادبی کارناموں کا احاطہ کرنا آسان نہیں، اس معتبر نام کو اپنے تاریخی کاموں کی بدولت خطہ ٔ پیر پنچال کے سرسید احمد خان کے نام سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔مُضطر صاحب اکثر اپنی علمی دانش گاہ میں مُلکی سطح کے ادبی پروگرام یعنی سیمینار اور مشاعرے منعقد کرواتے رہتے ہیں،مہمان کے آنے پر اُس کا پُُر تپاک اِسقبال کرنا، خوش آمدید کہنا اور اُس کی خاطر تواضع مُضطر صاحب کا خاص وصف اور شیوہ ہے۔
حقیقت کے ادراک کا دوسرا نام علم ہے۔علم دین کا ہو یا دنیا کا، انسانیت کی بقاء کے لئے کسی تمغے سے کم نہیں۔اسلامی تعلیمات میں علم اور اہلِ علم کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔ کیونکہ علم ہی انسان کو پستی سے بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔ایسے میں یہ کہنا غلط نہ ہو گاکہ جناب فاروق مُضطر صاحب نے خطہ ءٔپیر پنچال کے پسماندہ ،بے سہارا نوجوانوں کو علم کے نور سے بہرہ ور کرنے کے لئے علم و ادب کی جو قندیل روشن کی ہے،وہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک قیمتی سوغات اور سرمایۂ حیات ہے۔جس سے آنے والی نسلیں تادیر فیض یاب ہوتی رہیں گی۔
خطۂ پیر پنچال میں بہت سے پرائیویٹ تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں۔لیکن ہمالین ایجوکیشن مِشن کی انفرادیت یہ ہے کہ اس علمی اور ادبی درسگاہ نے اردو زبان و ادب پر بھی گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔مضطر صاحب کی سرپرستی میں چند ادبی مَجَلّے بھی شایع ہو رہے ہیں جس سے زبان کو وسعت مل رہی ہے۔
فاروق مُضطر صاحب کے تاریخی کاموں کی فہرست بہت طویل ہے۔ تصنیف و تالیف اور مطالعہ مُضطر صاحب کا محبوب مشغلہ ہے،اسی وجہ سے موصوف نے مُلک کے کونے کونے سے آنے والے اُدباء اور شعراء کے لئے ایک پلیٹ فارم مہیا کر رکھا ہے۔معمارِ قوم مُضطر صاحب کے فکرو عمل کے کئی میدان ہیں،جن میں بچوں کی تعلیم و تربیت اور ادب بہت اہمیت کے حامل ہیں۔جن کے خاص نظریات سے ہمالین ایجوکیشن مِشن نے تحریک کی شکل اختیار کی ۔ہمالین ایجوکیشن مِشن کے زیرِ سایہ تین ہائیر سیکنڈری اسکولز ایک ڈگری کالج اور ایک بی ۔ایڈ کالج کام کر رہے ہیں،جہاں ریاست اور بیرونِ ریاست کے سینکڑوں پڑھے لکھے نوجوانوں کو روزگار کے مواقعے فراہم ہوئے ہیں۔اس ادارے میں جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ آئے روز نئی نسل کے لئے تہذیب و تمدن ،ثقافت ،انسانی بھائی چارے کے فروغ کے لئے طرح طرح کے رنگا رنگ پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں۔ان کی ان خدمات کی بدولت انھیں ریاستی اور مُلکی سطح پر کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے،جن کی ایک طویل فہرست ہے۔ اس ادارے سے نکلے سینکڑوں نوجوان مختلف شعبوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔