غلام قادر جیلانی
کشمیر، جو اپنی منفرد تہذیب، تمدن اور ثقافت کی وجہ سے پوری دنیا میں جانا جاتا ہے، آج کل کئی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔ ایک طرف کشمیری عوام پہلے ہی بے روزگاری اور مالی مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں، تو دوسری طرف کھانے پینے کی اشیاء کی غیر معیاری فروخت سے لوگوں کی صحت، ثقافت اور معیشت بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
اس بات کا اندازہ حال ہی میں کشمیر کے مختلف علاقوں میں پائے جانے والے سڑے ہوئے گوشت سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب محکمہ ڈرگ اور فوڈ کنٹرول نے سری نگر میں 1200کلو گرام بوسیدہ گوشت ضبط کر کے ضائع کیا۔ اس کے بعد گلندر پانپور سڑک پر 350کلو، گاندربل میں 250 کلو اور نوگام بائی پاس روڈ کے نزدیک 1000کلو گرام مزید سڑا ہوا گوشت برآمد کیا گیا۔
صحت، ثقافت اور معیشت پر منفی اثرات
1صحت پر خطرہ: یہ سڑا ہوا گوشت ہوٹلوں اور ریستورانوں میں وازوان کی مختلف ڈشیں جیسے رستہ، گشتابہ اور کباب بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ مقامی اور غیر مقامی لوگ بغیر کسی جانچ پڑتال کے اسے شوق سے کھاتے ہیں۔ ہزاروں کلو گرام بوسیدہ گوشت کا استعمال لوگوں کی صحت کو شدید متاثر کر سکتا ہے اور انہیں کئی سنگین بیماریوں کا شکار بنا سکتا ہے۔
2معیشت پر ضرب: اس طرح کے واقعات کشمیر کی معیشت کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔ لوگوں کے ذہنوں میں اب خدشات پیدا ہو گئے ہیں اور وہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانے سے کتراتے ہیں۔ اس سے ان ہزاروں افراد کا روزگار خطرے میں پڑ گیا ہے جن کی روزی روٹی کا انحصار ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کام کرنے پر ہے۔ یہاں یہ کہاوت سچ ثابت ہوتی ہے کہ “ایک گندی مچھلی پورے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے”۔
3ثقافت کی توہین: غیر معیاری گوشت کی فروخت صرف ایک غیر اخلاقی فعل نہیں بلکہ ایک مجرمانہ عمل ہے۔ وازوان صرف ایک کھانا نہیں، یہ ہماری کشمیری ثقافت کا فخر، مہمان نوازی اور روایات کی علامت ہے۔ اسے خراب گوشت سے آلودہ کرنا ایک ناقابلِ معافی جرم ہے جو ہماری ثقافت اور وراثت کی توہین ہے۔
حکام اور عوام کی ذمہ داریاں
اس تشویشناک صورتحال پر قابو پانے کے لیے حکام کو مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔ اس جرم میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، سماج کے ہر فرد کو ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دینا چاہیے، آواز اٹھانی چاہیے، اور اپنے کھانے پینے کی اشیاء میں صفائی و جوابدہی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔آئیے، ہم سب مل کر اپنی صحت، ثقافت اور معیشت کی حفاظت کریں۔
(مضمون نگار استاد، گورنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول زوہامہ ہیں۔)
ای میل۔[email protected]