رئیس یاسین
جموں و کشمیر میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کا بحران حالیہ برسوں میں سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔ سروے ظاہر کرتے ہیں کہ 20 سے 49 سال کی عمر کی تقریباً 27 فیصد خواتین نے شادی ہی نہیں کی ہےجبکہ جموں و کشمیر میں غیر شادی شدہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کی تعداد ملک بھر کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے،یعنی29.1 فیصد ۔جبکہ قومی اوسط 25 فیصد ہے۔ صرف سرینگر ضلع میں ہی این جی اوز، رپورٹس کے مطابق 10 ہزار سے زائد خواتین شادی کی عمر پار کر چکی ہیں اور وادی بھر میں یہ تعداد 50 ہزار سے زیادہ بتائی جاتی ہے۔ یہ صرف ایک عددی حقیقت نہیں بلکہ ایک سماجی المیہ ہے جو گہری غور و فکر کا متقاضی ہے۔
اسلام نے شادی کے بارے میں بالکل واضح اور آسان ہدایات دی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے،کہ ’’جب کوئی ایسا شخص تمہارے پاس رشتہ لے کر آئے ،جس کے دین اور کردار سے تم خوش ہو، تو اُس کی شادی کر دو۔ اگر ایسا نہ کیا تو زمین میں فتنہ اور بڑی خرابی پھیلے گی۔‘‘ (ترمذی) لیکن بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان اصولوں کے برعکس چل رہا ہے۔ دین اور اخلاق کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے اور دولت، حیثیت اور سوشل اسٹیٹس کو اصل معیار بنا دیا گیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ سمجھدار گھرانے بھی مانتے ہیں کہ آج کے دور میں مخلص، تعلیم یافتہ اور دین دار نوجوان لڑکے کم ہی ملتے ہیں، لیکن جب ایسے نوجوان سامنے آتے ہیں تو اکثر اُنہیں رَد کر دیا جاتا ہے۔ وجوہات مختلف ہوتی ہیں،لالچ، غرور، معمولی جھگڑے یا رسم و رواج کی اندھی تقلید، گویاایک خطرناک سوچ پروان چڑھ گئی ہے۔ہم دیانت دار اور نیک سیرت نوجوان پر سرکاری نوکری کو ترجیح تودیتے ہیں لیکن بعد میں جب حقیقت سامنے آتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ دولت اور عہدہ خوشی کی ضمانت نہیں بنتے ہیں۔ کئی نام نہاد’’سیٹلڈ‘‘ مرد بےوفا نکلتے ہیں، کچھ ناجائز تعلقات میں پڑ جاتے ہیں، کچھ نشے کی لعنت میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور نتیجہ یہ کہ معصوم بیٹیوں کی زندگیاں تباہ ہو جاتی ہیں۔ بعض اوقات ہم اپنے قریبی اور جانے پہچانے امیدوار کو معمولی خامیوں کی بنیاد پر رد کر دیتے ہیں اور بعد میں ایسے رشتوں میں پھنس جاتے ہیں، جہاں دھوکہ اور پچھتاوا ہمارا مقدر بنتا ہے۔ ہیرے کو لوہے پر قربان کرنے کی یہ ذہنیت نہ صرف مخلص نوجوانوں کے ساتھ زیادتی ہے بلکہ ہماری بیٹیوں کے مستقبل کو بھی خطرے میں ڈال رہی ہے اور معاشرے کی اخلاقی بنیادوں کو کھوکھلا کر رہی ہے۔تاخیر سے شادی کے نقصانات بہت زیادہ ہیں۔ یہ ذہنی دباؤ، گھریلو ٹوٹ پھوٹ، بڑھتی ہوئی بانجھ پن اور نوجوانوں کو گناہ کی طرف دھکیلنے کا سبب بنتی ہے۔ ماہرین بتاتے ہیں کہ کشمیر میں شادی کی اوسط عمر 30 سال سے اوپر جا چکی ہے اور اس کی بڑی وجہ مالی بوجھ ہے۔ ایک شادی پر 10 لاکھ روپے سے زیادہ کا خرچ، جہیز کی توقعات اور سخت سماجی پابندیاں اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔ ہم نے نکاح کو آسان کرنے کے بجائے بوجھ بنا دیا ہے، حالانکہ رسول اللہؐ نے فرمایا: ’’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جس میں خرچ کم ہو۔‘‘لیکن ان فرمودات کے باوجود ہمارا کشمیری معاشرہ اپنی ذہنی پستی کا مظاہرہ کرتا چلا آرہا ہے۔موجودہ دور کی اِس ہوش رُبا مہنگائی میں بھی ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے معاملات میں جو طرزِ عمل اختیار کیا گیا ہے ،وہ ہمارے ہی معاشرےکی تباہی کا سبب بن رہا ہے۔ظاہر ہے نسل ِ انسانی کی افزائش معاشرے کی بالغ لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان نکاح اور شادی کے ذریعے ہی ہوتی ہے، جسے ایک مقدس رشتہ کہا جاتا ہے،لیکن اس مقدس رشتےکو نبھانے اورآگے بڑھانےکے لئے ہم نے اپنے غلط طریقۂ کار،منفی سوچ ،لالچ ،اَنّاپرستی،دِکھاوے ،اسراف اور کئی دیگر بے جا رسومات ِ بد سے اتنا مشکل اور پیچیدہ بناڈالا ہے کہ آج ہمارےمعاشرے کے ہزاروں بالغ لڑکے اور لڑکیاںبغیر شادی کے زندگی گزاررہے ہیں۔ حالانکہ یہ بحران صرف معاشی حالات کا نتیجہ نہیں ہےبلکہ مختلف پہلوؤں سے یہ تباہی خاندانوں نے اپنے لئے خود ہی پیدا کردی ہے۔ جب ہم مخلص رشتوں کو رد کرتے ہیں، بلاوجہ تاخیر کرتے ہیں اور دولت کو کردار پر ترجیح دیتے ہیں تو ہم صرف اپنی اولاد کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُن ہدایات کے ساتھ بھی خیانت کرتے ہیں جو اُنہوں نے کی اُمت ِ مسلمہ کی آسانی اور حفاظت کے لئے دئیے ہیں۔لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے معاشرہ میں گھٹن، تنگ نظری اور دین سے دوری کا اثر جہاں کافی حد تک گھر کرچکا ہے،وہیںمعاشرتی بگاڑ کا اثر ہمارے رویوں پربھی پڑ چکا ہے۔جس کے نتیجے میں معاشی اونچ نیچ، معاشرتی تفاوت، جھنجلاہٹ، حسد، بغض، کینہ اور غصہ فروغ پارہا ہے۔ انہی معاشرتی بیماریوں نے ہمارے رہن سہن، ہماری روز مرہ زندگی اور ہمارے رویوں کو اس قدر متاثر کردئیے ہیں کہ ہم نے مثبت سوچنا ہی چھوڑ دیا ہےگویا ہمارےمنفی سوچ سے ہمارا معاشرہ دن بہ دن پست اور خست ہوتا چلا جارہا ہے۔ اگرچہ ہر طرف سے یہ آواز ضرور سُنائی دیتی ہے کہ آخر لڑکوں اور لڑکیوںکے والدین ان کی شادی میں تاخیر کیوں کرتے ہیں؟تو ظاہر ہے یا تو وہ معاشرے میں رائج ہوچکی غیر ضروری رسموں کو ادا نہ کرنے وجہ ہوتی ہےیاپھر ان کے پاس ان غیر ضروری رسموں کو ادا کرنے کی قوت نہیں ہوتی ہے۔اس لئےاگراپنے معاشرے کو سنبھالنا ہے تو ہمیں شادیوں میں سادگی اور اخلاص کی طرف لوٹنا ہوگا۔ دین اور کردار کو دوبارہ اصل معیار بنانا ہوگا اور فضول رسم و رواج اور غیر ضروری مطالبات کو ترک کرنا ہوگا۔ اَنّا اور غرور کو ایک طرف رکھنا ہوگا اور اللہ کی روزی پر اعتماد کرنا ہوگا۔ نکاح کوئی مالی بوجھ نہیں بلکہ برکت اور حفاظت کا ذریعہ ہے۔
کشمیر میں غیر شادی شدہ لڑکیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کو محض ایک سماجی رجحان سمجھ کر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ ہماری ترجیحات کے بگڑنے اور اجتماعی ناکامی کا سنگین اشارہ ہے۔ اگر ہم اسی راستے پر چلتے رہے تو نقصان مزید بڑھ جائے گا۔ لیکن اگر ہم نکاح کو آسان بنانے اور تقویٰ و کردار کو دنیاوی سراب پر ترجیح دینے کی نبوی تعلیمات کو زندہ کریں تو ہم اپنی بیٹیوں کو بچا سکتے ہیں، اپنے گھروں کو مضبوط بنا سکتے ہیں اور معاشرے میں توازن بحال کر سکتے ہیں۔