یو این آئی
اقوا م متحدہ// اقوام متحدہ اور آزاد مبصرین کی جانب سے رپورٹ کیا گیا ہے کہ اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں صحافیوں اور میڈیا ورکرز کو ’منظم طریقہ کار‘ کے تحت نشانہ بنایا جارہا ہے۔ مختلف نیوز چینلوں کے تعاون سے رواں ہفتے صحافیوں کو منظم طریقے سے نشانہ بنائے جانے پر رپورٹس کا ایک سلسلہ تیار کیا گیا ہے۔ان رپورٹس میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے کہ کس طرح غزہ میں صحافی اپنی ڈیوٹی انجام دینے کے لیے خطرات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اور انہیں دھمکیاں دی جارہی ہیں۔رپورٹس کے مطابق غزہ میں زندہ بچ جانے والے صحافیوں کو اس بات کا علم ہے کہ ان کی ’پریس جیکٹس‘ ان کا تحفظ نہیں کرسکتیں، بلکہ وہ انہیں مزید بے نقاب کرسکتی ہیں۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مقامی رپورٹرز بھی جانتے ہیں کہ ’وہ تنہائی کا شکار‘ ہیں، کیوں کہ اسرائیلی حکام نے غیر ملکی صحافیوں کے غزہ کی پٹی میں داخلے پر پابندی لگا رکھی ہے۔عرب رپورٹرز فار انویسٹی گیٹو جرنلزم (اے آر آئی جے) کی ایگزیکٹو ایڈیٹر اور غزہ پروجیکٹ کی رکن ہودا عثمان نے کہا کہ جو صحافی اب بھی وہاں موجود ہیں وہ یا تو زخمی ہیں یا پھر حراست میں ہیں، جب کہ وہ اپنے خاندان کو پہلے ہی کھوچکے ہیں، یہاں تک کہ وہ اپنا سامان بھی کھوچکے ہیں اور مزید کام کرنے سے خوفزدہ ہیں۔غزہ پروجیکٹ 13 میڈیا تنظیموں کا تعاون ہے جو ’فاربیڈن اسٹوریز‘ کے ذریعے مربوط ہے، یہ پیرس میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو خطرات سے دوچار صحافیوں کے لیے کام کرتا ہے۔اس پراجیکٹ میں شامل برطانیہ کے اشاعتی ادارے گارڈین نے نوٹ کیا کہ اسرائیلی فوج فلسطینی میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو ’جائز ملٹری اہداف‘ سمجھتے ہیں۔غزہ پروجیکٹ پر 50 صحافیوں نے غزہ میں صحافیوں کے قتل اور مبینہ دھمکیوں اور مغربی کنارے میں ہونے والی گرفتاریوں کی تحقیقات کے لیے مل کر کام کیا۔پراجیکٹ پر کام کرنے والے صحافیوں کو غزہ کی پٹی میں داخل ہونے سے روکا گیا لیکن انہوں نے واقعات کی تاریخ کا تعین کرنے کے لیے جی پی ایس کے ذریعے ہزاروں کھنٹے کی تصاویر اور آواز کا تجزیہ کیا۔اسرائیلی فوج کے ہاتھوں ہلاکت، نقصان کا سامنا کرنے اور گرفتاریوں کے باوجود کچھ صحافیوں نے اس پروجیکٹ پر کام جاری رکھا۔