نہیں سنتا اگرچہ بات یاور
کہاں پہ دن کٹے اور رات یاور
غم و غصہ در و دیوار دیکھو
دکھانے کیا لگیں اوقات یاور
سناتی ہے تمہیں پھرداد و فریاد
وفا بیگانگی کی ذات یاور
اگرچہ دائمی رشتہ نہیں ہے
مگر ٹھہرا حریفِ ذات یاور
لگا ہے زندگی کا میلہ کہنے
ارے ہیہات پہ ہیہات یاور
کُھلے گا دفترِ لوح و قلم آج
درِ غم ہے فقط کچھ ذات یاور
کہاں ہے لذّتِ گویائی یاورؔ
ہے نطقِ گل فشاں ہفوات یاور
یاور حبیب ڈار
بٹہ کوٹ ہندواڑہ ، کشمیر
موبائل نمبر؛6005929160
غمِ دُنیا سے تیرا غم ذرا کم تاب ہو جا ئے
کہ شا ید پھر طلب تیری خسِ گرداب ہو جائے
مرے دل پر گراں ایسے شبِ مہتاب ہو جائے
کہ جیسے مضطرب آتِش زدہ سیماب ہو جائے
نہ نکلے آہ دل سے تو خلِش ناسُور بنتی ہے
نہ چھلکے آنکھ کا پانی تو پھر تیزاب ہو جائے
بِکھر جائے نہ پھر سے خواب کوئی چشمِ نالاں میں
مُناسب ہے کہ ہر اک شب مری بے خواب ہو جائے
رہے پنہاں مری جاں نام تیرا میری غزلوں میں
مرا طرزِ سُخن چاہے کہیں نایاب ہو جائے
مُقرر ہے کتابِ زندگی کا خاتمہ مگر کیسے
جو ہے منسوب تم سے وہ ختم اک باب ہو جائے
سجاد سُلیمان خلشؔ
اسلام آباد کشمیر
موبائل نمبر؛7889506582
کسی کو ایسا نہ غم اے مرے اللہ ملے
جدھر بھی آنکھ اٹھاؤں اُدھر تباہ ملے
الٰہی سب کے سروں پر سجی کلاہ ملے
ہر ایک شخص کے دامن میں مہر و ماہ ملے
خدایا ان سے مری جب کبھی نگاہ ملے
تو اُن کا پیار ملے اور بے پناہ ملے
اداس رہتے ہیں اب باغ کے پرندے بھی
چمن کا باغباں ہر گام رو سیاہ ملے
ہوا ہے قہر زمانے میں ہر طرف نازل
ہر ایک سمت مجھے صرف رزم گاہ ملے
کسے میں اپنا مسیحا کہوں کسے قاتل
جلانے والے تو گھر میرا خیرخواہ ملے
میں کیا بتاؤں کہ کیسا تھا رات کا عالم
چناؤ آیا تو گاؤں میں بس سپاہ ملے
ہمیں تو صرف انا کا لحاظ رکھنا ہے
’’ نگاہ بھی نہ ملاؤں جو بادشاہ ملے ‘‘
مری وفاؤں کا گر کچھ خیال رکھتے سعیدؔ
اسی لئے تو ہمیں درد و غم اتھاہ ملے
سعید قادری
صاحبگنج مظفرپور بہار
موبائل نمبر؛9262934249
نہ یہ اتنے پتے ہوتے نہ میں سوگوار ہوتا
کسی شاخ پر شہر کی میرا بھی شمار ہوتا
کسی شخص کو جو اس میں میرا انتظار ہوتا
یہی ٹوٹا سا مکاں ہی مجھے خوشگوار ہوتا
کہ یہ صحرا ہے اکھڑتا میرے دل کو آج بے حد
یہاں کاغذی گلوں کا ہی کوئی دیار ہوتا
کسی جال میں کہیں پر یہاں قید ہوتا کوئی
کوئی دیتا نا صدا تو یہ حدوں کے پار ہوتا
میں ٹھہر گیا جہاں پر جو وہاں نہیں ٹھہرتا
میرے ارد گرد اتنا نہ کبھی غبار ہوتا
مجھے اصل پھولوں کے جو نہیں ان میں عکس ملتے
مجھے کاغذی گلوں سے نہ کبھی یہ پیار ہوتا
جو مکان گر گیا ہے یہاں بننے سے ہی پہلے
کہیں اس میں کھلکی ہوتی، کہیں پر دوار ہوتا
اسی شکل میں ہی رہتا نہ بدلتا اتنے چہرے
کسی دریا کو جو خود پر یہاں اختیار ہوتا
میری بے گھری ارون ؔاب مجھے ہو گئی اجیرن
یہاں گر مکاں نہیں تو کہیں اک حصار ہوتا
ارون ؔشرما صاحبابادی
پٹیل نگر ،غازی آباد اُتر پردیش
پھر اُس کو تم نے کچھ ایسے پکارا میرے دل
تم اس کے جیسے ہو اور وہ تمہارا میرے دل
شَبِ امید گھٹن سے جو مر گیا مجھ میں
وہی تو تھا تری قربت کا مارا میرے دل
طویل اُداسی نے مجھ کو یوں گھیر رکھا ہے
کہ جیسے دریا کو کوئی کنارہ میرے دل
غَمِ حیات کی لہروں کے بیچ میں اب کے
ہے نا خدا نے مجھے بھی اُتارا میرے دل
شبِ فراق ہوئے گُل چراغ مت پوچھو
وہ وقت کس طرح میں نے گزارا میرے دل
جاذب جہانگیر
سوپور، کشمیر
موبائل نمبر؛7006706987
رد کردے جو لوگوں کا گماں
سچ کہنا نہیں آسان یہاں
وہ جھوٹ جسے مل جائے سَند
کہتے ہیں اسی کو حق کا بیاں
مابعد سچ کا دور ہے اب
جذبات بنے ہیں سچ کا نشاں
دل تیرا اگر آسودہ ہے
پھر تیرا ہے یہ سارا جہاں
وہ جسکاہو اُسے کیا ہے غم؟
کوئی ہو، کہ نہ ہو اسکا یہاں
جینا ہے ہلال ؔتو یوں کرلے
ڈھونڈ فقط کہ دل ہے کہاں
ہلال ؔبخاری
ہردوشورہ کنزر ٹنگمرگ ، بارہمولہ،کشمیر
دردِ فراقِ یار سے رشتہ نہیں رہا
یعنی کہ زندگی میں تماشہ نہیں رہا
زخمِ جگر ہے آج بھی مرحم کا منتظر
میں کیا کروں کہ میرا مسیحا نہیں رہا
دستِ ہنر کو کھا گئی مصروفیت اے دوست!
شہرِ سخن میں اب مرا چرچا نہیں رہا
سب خواب رُل گئے ہیں اناؤں کی جنگ میں
اب زندگی سے کوئی تقاضہ نہیں رہا
رنج و الم نے چھین لی مجھ سے وہ تازگی
آنکھیں نہیں رہیں، حسیں چہرہ نہیں رہا
قاصد کی احتیاج نہیں ، بے جھجھک کہو
اب اپنے درمیاں میں وہ پردہ نہیں رہا
عذرا ؔوہ جس کے ساتھ گزاری تھی اک صدی
وہ شخص تیرا ہو کے بھی تیرا نہیں رہا
عذرا ؔحکاک
گوجوارہ، سرینگر،کشمیر
[email protected]
میرے تمہارے ہے درمیاں میںربط
جیسے ہے زمین و آسماں میں ربط
یہ ہیں متضاد الفاظ سوا اس کے
ہے کیا کوئی سُود و زیاں میں ربط
بیاں اور اُس کے اظہار میں ہے جو
وہی تو ہے زبان و بیاں میں ربط
اتنا آساں ہے کیا اس کو سمجھنا
یہ جو ہے زمان اور مکاں میں ربط
صورتؔ اب کہاں رُکے جو تھا کبھی
ہم تُم میں جیسے دل وجاں میں ربط
صورتؔ سنگھ
رام بن، جموں
موبائل نمبر؛9622304549