اس کا جنت سے کوئی رشتہ ہے
	بے سہاروں کا وہ سہارا ہے
	چاند تاروں میں روشنی ہے بہت
	کیا وہاں آج کوئی میلہ ہے؟
	روز و شب میں بھی دشمنی ہے عجب
	ایک دوجے کے پیچھے رہتا ہے
	عدل پھرتا ہے سر چھپائے ہوئے
	تان کر سینہ ظلم چلتا ہے
	سچ پہ بالکل یقیں نہیں آتا
	جھوٹ کا اتنا بول بالا ہے
	سچ یہاں کون بولتا ہے شمسؔ
	سچ پہ جھوٹوں کا سخت پہرہ ہے
	ڈاکٹر شمس کمال انجم
	صدر شعبۂ عربی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
	موبائل نمبر؛9086180380
	فراوانی ہو کانٹوں کی پریشانی نہیں ہوتی
	یہ جنگل درد کا ہَے اِس میں ویرانی نہیں ہوتی
	ہے جب تک اجنبی جب تک رہے کوئی کِنارے پر
	اُتر جائے تو پھِر گہرائی انجانی نہیں ہوتی
	عیاں اِس سے تو ہے سب کُچھ یہ ہے اخلاق کا شیشہ
	بدن جِس میں ہو بے پردہ وہ عُریانی نہیں ہوتی
	حرارت پیار کی اِس کو گلاتی ہے مہینوں میں
	عداوت برف کی دو دِن میں تو پانی نہیں ہوتی
	مِری آسانیوں میں بھی ہزاروں مشکلیں ضم ہَیں
	جو مشکل ہو تو اُس میں کوئی آسانی نہیں ہوتی
	کہیں بادل محبت کے برس بیٹھے ہَیں شِدّت سے
	وگرنہ آنکھ کے دریا میں طُغیانی نہیں ہوتی
	مَیں اِنساں ہوں تو مجھ سے ہَے خطا بھی آرسیؔ لازم
	مَیں تُجھ سا نہیں ہوں جِس سے نادانی نہیں ہوتی
	دیپک آرسیؔ
	203/A، جانی پور کالونی-180007
	رابطہ؛9858667006
	ترےہی منتظر ہر شام تھے ہم
	مری جاں شہرمیں بدنام تھے ہم
	تری ہی چاہتوں کے زخم تھے بس
	بھری دنیامیں غم کا نام تھے ہم
	بدن توسخت تھا اک سنگ جیسا
	کہیں اندر سے ہی کچھ خام تھے ہم
	ہمیںکیاہے مقدر سے شکایت
	محبت میں تو خود ناکام تھے ہم
	ملی ہم کو سزائے موت جیسے
	کسی کے سر کوئی الزام تھے ہم
	ہمیں شاہی ؔجہاں کے غم ملے پر
	کسی کے ہاتھ کے کب جام تھے ہم
	شاہیؔ شہباز
	وشہ بُک پلوامہ کشمیر
	رابطہ؛7889899025
	پھر سے مہکے بہار آجاؤ
	صاحب مشکبار آجاؤ
	مدتوں بعد آج پھر دل کو 
	آگیا ہے قرار آجاؤ
	ساتھ میرے اُداس بیٹھے ہیں
	سب ہی لیل و نہار آجاؤ
	پھر نئے دکھ تمہیں سنانے ہیں
	اے میرے غمگسار آجاؤ
	کیا خبر کب یہ سانس رُک جائے
	چھا رہا ہے خمار آجاؤ
	آج کس کے لہو کی باری ہے
	کرنے سر کو نثار آجاؤ
	آ رہائی دو قیدِ ہستی سے
	توڑ دو یہ حصار آجاؤ
	ہجر کی تیز آندھیوں سے پھر
	اُڑ رہا ہے غبار آجاؤ
	دل کی ویرانگی تمہیں راشفؔ
	دے رہی ہے پکار آجاؤ
	راشف عزمی
	فون نمبر:۔8825090381
	وہ گزرے پل سہانے ڈھونڈتا ہوں
	میں جینے کے بہانے ڈھونڈتا ہوں
	لگا کر آگ میری تِشنگی کو
	وہ کہتے ہیں دیوانے ڈھونڈتا ہوں
	تیری حسرت بھری آنکھوںمیںہرپل
	تیرے گزرے زمانے ڈھونڈتا ہوں
	بُجھی ہے آگ شاید گلستاں میں
	جو آتے ہیں لگانے،ڈھونڈتا ہوں
	تمہارے شہر میں عاشق ہیں پیاسے
	چلو خود آب و دانے ڈھونڈتا ہوں
	تسلی ہو کہ گھر  کی سرحدوں میں
	مسلسل محل خانے ڈھونڈتا ہوں
	یہ کہتے ہیں کئی ناداں ہوں سیرابؔ
	دِلوں میں آشیانے ڈھونڈتا ہوں
	سیرابؔ کشمیری
	دیور لولاب (کپوارہ)
	فون؛9622911687