ہزاروں آئینے ہیں اور زمانے کی نظر تنہا
	تم اکثر ساتھ رہتے ہو مگر رہتا ہے گھر تنہا
	جسے تم نے اُڑایا ہے وہ مشتِ خاک میری تھی
	کٹے گا کس طرح اب زندگانی کا سفر تنہا
	ہوائیں کس طرف سے آ رہی ہیں زہر آلودہ
	گلوں کے رنگ پھیکے اور یہ بوڑھا شجر تنہا
	مرے دستِ طلب میں اور میری آرزو میں تم
	مجھے لگتا نہیں ہوگا دعاؤں میں اثر تنہا
	ستارے توڑ کر لاؤں تمہاری مانگ تو بھر دوں
	رہے گا کس طرح پھر آسماں پر یہ قمر تنہا
	اگر جاویدؔ ممکن ہو بسا لو پھر نئی دنیا
	مجھے تو خیر ہونا ہے جہاں میں دربدر تنہا
	سردارجاویدخان
	پتہ، مہنڈر ، پونچھ 
	رابطہ؛ 9419175198
	 ہاتھ میں پتّھر نہیں، پکڑو ذرا تم بھی قلم
	 دشمنی تم بھول جاؤ، دوست بن جائیں گے ہم
	 حادثے جو ہو رہے ہیں، ان دنوں اتنے یہاں
	 صبح ہوتے ہی نیا ملتا ہے ہم سب کو الم 
	بات میں تیری نہ آئیں گے دوبارہ دیکھنا 
	چائے بھی تیری ہے ظالم زہر سے جیسے نہ کم 
	خون پی پی کر جسامت بڑھ گئی کتنوں کی ہے
	 ہاتھ میں خنجر لیے ہیں اور لب پر ہے دھرم
	 سیر پر رہتے ہو ہر دم، گھر کی کیا تجھ کو خبر
	 ملک کی بربادیوں کو بڑھ رہے تیرے قدم
	 اب سیاست بھی ہے بسملؔ اک تجارت کی طرح 
	ووٹ دینا نوٹ لے کر اور وطن کا بھرنا دم
	پریم ناتھ بسملؔ
	 مہوا،ویشالی،بہار،رابطہ۔8340505230
	نہ سمجھو یہ کہ دنیا میں خوش و خرم ہر انساں ہے
	یہاں ہیں بیشتر وہ جن کے دل میں درد و حرماں ہے
	جو خود ہی وقت کا چنگیز ہے ظالم حکمراں ہے
	وہی دہشت پسندی کا لگا تاہم پہ بہتان ہے
	خُدایا ظالموں اور غاصبوں کے اس جہاں میں اب
	جو مظلوموں نے تھاما ہے فقط تیرا ہی داماں ہے
	ہٹے گا ظلم تب ہی جب ہٹایا جائے ظالم کو
	فقط اخراج دنداں ہی علاج دردِدنداں ہے
	کرے کیا بیکس و مظلوم بیچارہ کہاں جائے
	کہ اب دنیا میں ہر سو اقتدار چیرہ دستاں ہے
	سنو اے غاصبو! تم کو ملا اس ظلم سے بس یہ
	کہ بدامنی بغاوت کا جہاں میں اب یہ بحراں ہے
	جہاں میں جس بھی خطے میں مسلط آج ہیں غاصب
	سمجھ لو اہل خطہ کا وہ قبرستاں و زنداں ہے
	حماقت ہے سمجھنا موت ہوگی دور ہی ہم سے
	حقیقت میں کہ جب انساں فنا کی زد میں ہرآں ہے
	ہزاروں خواہشیں کیا، لمبی چوڑی آرزوئیں کیوں
	جہاں میں زندگی دائم نہیں بس ایک مہماں ہے
	بشیرؔ اب تک تو ہم نے زندگی کا حال یہ دیکھا
	یہ بیچاری جہاں میں بیشتر اُفتان و خیزاں ہے
	بشیر احمد بشیرؔ (ابن نشاط کشتواڑی)
	 جموں و کشمیر،موبائل؛7006606571
	عمر کٹ گئی حق گزاری میں
	یعنی اوروں کی پاسداری میں
	سرخی چھا گئی ہے سفیدی پر
	خون جاری ہے برفباری میں
	شانوں پر  اٹھایا ہے ابّا نے
	لطف آ رہا ہے سواری میں
	کھیل کھیلو آ کے رقیب سے
	جیت جاؤ گے تو، "تمہاری" میں
	پرکھا میں نے ہر اک چیز کو مگر
	آ گیا مزہ مجھ کو یاری میں
	بات کیا ہے بسملؔ بتاؤ اب
	کیوں ہو مبتلا اشکباری میں
	سید مرتضٰی بسمل
	طالب علم :شعبہ اردو، ساوتھ کیمپس، 
	کشمیر یونیورسٹی،9596411285
	آزمائش کی حکمرانی میں
	 آگ رکھی گئی تھی پانی میں
	حوصلے باخبر کرادیجے 
	 دار انعام ؛ حق بیانی میں
	آبلوں کو بہار حاصل ہے 
	 اک تعلق کی باغبانی میں
	چاند تارے بُجھے نظر آئے 
	 ایک چہرے کی ضوفشانی میں
	خواہشوں کو اُچھال حاصل تھا 
	 زندگانی رہی گرانی میں
	آپ منظورؔ وقت ہی نہ گنیں 
	 جانے کیاکیا ہے رائیگانی میں
	ڈاکٹر احمد منظور
	بارہمولہ ،6005755620
	چرچا جوانی کا تری جو عام ہوگیا
	میں ہی تو سارے شہر میں بدنام ہوگیا
	دنیا کی الجھنوں میں ہی مصروف ہوگئے
	اے اشک ٹپک اب کہ ترا کام ہوگیا 
	ٹوٹا نہیں ہے پھر بھی مسافر کا حوصلہ 
	صحرا نشینی اس کا تو انجام ہوگیا 
	دشتِ جنوں کی خاک جو چھانی تو یوں لگا 
	مجنوں سے منسلک میرا بھی نام ہوگیا 
	ماہیؔ! گری ہے برف مسلسل یوں ہجر کی 
	یخ بستہ دل کا راستہ بھی جام ہوگیا 
	پرویز ماہیؔ
	پتہ:- کوسم باغ 
	رابطہ :- 9622697536
	سن کے نامِ محمدؐ سکوں آ گیا
	میرا ہر درد جیسے دوا پا گیا
	پاس میرے عمل تھی نہ زادِ سفر
	باعثِ عشق طیبہ بلایا گیا
	وہ کرم پر کرم مجھ پہ کرتے رہے
	میں درود و سلام ان پہ پڑھتا گیا
	بس وہی خوش نصیب ہے جہاں میں جسے
	جامِ عشقِ محمد پلایا گیا
	اس نبیؐ کا میں ہوں امتی اے فہیمؔ
	روشنی جو اندھیر میں پھیلا گیا
	فہیمؔ اقبال
	ہلر شاہ آباد ڈورو اننت ناگ
	موبائل نمبر؛7006402556
	وہ تو سب خواب ہوگیا
	جان لیوا عذاب ہوگیا
	تھا وہ کل تک پنکھڑی جیسا
	دیکھتے دیکھتے گلاب ہوگیا
	ہیںحسرتیںبہت ابھی دل میں
	کیوں یہ اوجھل شباب ہوگیا
	پھرتا تھا اب تک سوال بن کر
	خود بہ خود اب جواب ہوگیا
	اُمید تیرے آنے کی ہے باقی
	ہے یقین تُو ماضی کا باب ہوگیا
	اب چلو بچھڑہی جائیں ہم
	بہت یہ حساب و کتاب ہوگیا
	رمیضؔبٹونی
	بٹوینہ گاندربل،9419629933
	نہ جانے زندگی یہ کیا ستم ہے
	لبوں پر ہے ہنسی اور آنکھ نم ہے
	وہ عاشق ہے تو زاہد کیوں نہیں ہے
	اصولِ عاشقی بےحد اہم ہے
	میرا دل چیخ کر کہتا ہے مجھ سے
	مجھے آزاد کر کیوں بےرحم ہے 
	پتنگا جل کے کہتا ہے شمع سے
	تو کیوں روئے تجھے کیسا الم
	ہے عالم سو رہا کس بےحسی میں 
	ہے منزل دور اور جامد قدم ہے
	میرے ہاتھوںمیںہے کیا میرے مولا؟ 
	مٹی تحریر یا ٹوٹا قلم ہے
	تو مصباح ؔہے تیرا جلنا تو طے ہے
	تیرا جلنا بھی رب کا ہی کرم ہے 
	مصباح فاروق
	طالبہ:- شعبہ اُردو کشمیر یونیورسٹی سرینگر