وصل کے خواب کو پلکوں پہ بٹھائے رکھا 
	ہجر کی آنکھ میں ساون کو بُلائے رکھا 
	چشمِ پرنم کو دریچے پہ سجائے رکھا 
	تیری آمد پہ تبسم کو بچائے رکھا
	کتنے شعروں کو زبانوں پہ چڑھائے رکھا 
	ہم نے لوگوں کے ضمیروں کو جگائے رکھا 
	بارشوں کو بھی برسنے کا ہنر دیتا ہے 
	بادلوں کو بھی سمندر سے اٹھائے رکھا 
	تیرگی ہار نہ مانے تو تمہاری قسمت 
	تیز آندھی میں چراغوں کو جلائے رکھا 
	تاکہ اشعار میں تصویر اُتر آئے تری 
	بوجھ پلکوں کا نگاہوں سے اٹھائے رکھا 
	کم کبھی زور ہواؤں کا بھی ہوگا عادل ؔ
	بادبانوں کو سفینے پہ کُھلائے رکھا 
	ؤؤؤؤؤ
	اشرف عادلؔ
	کشمیر یونیورسٹی حضرت بل سرینگر کشمیر 
	رابطہ؛ 9906540315
	درد کے راستوں میں رہتا ہے
	وہ فقط سازشوں میں رہتا ہے
	گھپ اندھیرا گھروں میں رہتا ہے
	بغض جب تک دلوں میں رہتا ہے
	اس کو دنیا نظر میں رکھتی ہے
	وہ سدا آئینوں میں رہتا ہے
	خار جیسے گلوں میں رہتے ہیں
	وہ مرے دوستوں میں رہتا ہے
	ظلم کے بادلوں کے سائے میں
	آدمی جنگلوں میں رہتا ہے
	موج و طوفاں سے اس کو کیا مطلب
	وہ تو بس بزدلوں میں رہتا ہے
	حق کی آواز وہ نہیں سنتا
	کیونکہ وہ حاکموں میں رہتا ہے
	جب سے اس ماہ رخ کو دیکھا ہے
	دل مرا جگنوؤں میں رہتا ہے
	جب تلک ہو ہوا مخالف شمسؔ
	حوصلہ شہپروں میں رہتا ہے
	ؤؤؤؤؤ
	ڈاکٹر شمسؔ کمال انجم
	صدر شعبۂ عربی / اردو/ اسلامک اسٹڈیز، 
	بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری
	موبائل نمبر؛9419103564
	جس عمل میں ثواب ہوتا ہے
	وہ مرا انتخاب ہوتا ہے
	جب بھی آتا ہے سامنے میرے
	رخ پہ اس کے حجاب ہوتا ہے
	زندگی احتیاط سے گزرے
	ہر گھڑی کا حساب ہوتا ہے
	بے وجہ غرق عشق میں رہنا
	اک طرح کا عذاب ہوتا ہے
	کرتا ہوں جب محاسبہ اپنا
	شرم سے دل یہ آب ہوتا ہے
	ختم ہو جاتی ہے حیات مگر
	کوئی پورا نہ خواب ہوتا ہے
	میرے ہر اک سوال پر کاشف ؔ
	نعم اس کا جواب ہوتا ہے
	اظفر کاشف پوکھریروی 
	متعلم :MANUU بی ایڈ کالج بڈگام سرینگر 
	9149833563
	اپنے اندر سے نکل رہا ہوں میں 
	مسئلوں میں پگھل رہا ہوں میں 
	کیسے کرلو گے تم جدا مجھ کو 
	تیری ذات میں گُُھل رہا ہوں میں 
	اک نئی سوچ کے تعاقب میں
	من کے آنگن میں ٹہل رہا ہوں میں 
	یہ ترا بار بار کا شکوہ 
	کب تیری زلف کا  بل رہا ہوں میں 
	کھا گیا مجھ کو ہر کوئی چلتے 
	مسکراہٹ کا پھل رہا ہوں میں 
	کی نگاہ نا کبھی اور کے حق پر 
	اپنے حق پر اٹل رہا ہوں میں 
	زندگی کے سفر میں اے خوشحال ؔ
	تھکا ہارا سہی چل رہا ہوں میں 
	میر خوشحال احمد 
	رابطہ؛کرناہ دلدار،موبائل نمبر؛9622772188
	سُن رہا تھا جسے مثالوں میں
	آج پایا اسے کتابوں میں
	وہ اشاروں میں کہہ گیا کیا کچھ
	میں تو اُلجھا رہا سوالوں میں
	وقتِ آخر سنور گئی قسمت
	موت آئی جو اں کی بانہوں میں
	اپنے دکھ درد بھول جاتا ہوں
	چل دیا جب وفا کی راہوں میں
	موسموں کا بھی کیا بھروسہ ہے
	لُٹ گیا جب چمن بہاروں میں
	کچھ نہیں چاہئے اب اور سعیدؔ
	ان کے پائے نشاں ہیں راہوں میں
	سعید احمد سعیدؔ
	رابطہ؛ احمد نگر، سرینگر
	 موبائل نمبر؛8082405102
	ہنستا کوئی، کوئی روتاہے 
	ہونا ہے جو، وہ ہوتاہے 
	راتیں گزارے کروٹ کروٹ
	شخص وہ دِن بھر جو سوتا ہے
	کیسے بھی حالات ہوں، اُن سے 
	زیست محض اک سمجھوتا ہے
	کِس کو کس کی فکر یہاں ہے 
	ہوتا ہے جو سو ہوتا ہے 
	نہیں گِلہ کچھ کسی سے صورتؔ 
	وہی کٹے گا جو بوتا ہے
	صورت سنگھ
	رام بن ,9419364549
	کون یہ تانے ہوئے تلوار ہیں دونوں طرف
	کس کی شہہ پر برسرِ پیکار ہیں دونوں طرف
	سر پھرے ہی درپے آزار ہیں دونوں طرف
	ورنہ سب ٹکرائو سے بیزار ہیں دونوں طرف
	عام انساں قتلِ ناحق کا بھلا حامی ہو کیوں؟
	خوش فقط گنتی کے کچھ خوں خوار ہیں دونوں طرف
	سرحدوں پر بھیجتے ہیں مارنے مرنے جنہیں
	سب کے سب مجبور ہیں نادار ہیں دونوں طرف
	موت کا یہ رقص کیوں ہے لازمی ان کے لئے؟
	کنِ اصولوں کے علم بردار ہیں دونوں طرف
	آگ میں گھی ڈالنا محبوب اُن کا مشغلہ
	ایک سے سب قوم کے غم خوار ہیں دونوں طرف
	حسن انظرؔ 
	سرینگر،رابطہ۔9419027593
	قیامت کی ذہانت ہے کِسی فن کار کے پیچھے
	کئی کردار ہیں مخفی کِسی کردار کے پیچھے
	کئی باتیں ہیں پوشیدہ کِسی اِظہار کے پیچھے
	کئی راہیں نکلتی ہیں رَہِ پُر خار کے پیچھے
	عبث بد نام کرتا تھا میں غیروں کو زمانے میں 
	میرے اپنے ہی شامل تھے تیرے انکار کے پیچھے
	تسلسل یوں ہی قائم تو نہیں رہتا یہ دُنیا کا 
	کوئی تو کار فرما ہے حسیں سنسار کے پیچھے
	حفاظت کے لئے تعمیر کی تھی شوق سے ہم نے
	کِسے معلوم تھا آفت بھی تھی دیوار کے پیچھے
	فقط خوشبو نہیں سونگھو کبھی تو غور سے سوچو
	دبے ہیں بیج کتنے اِس گُلِ گلزار کے پیچھے
	سفر میں ہی مگن رہنا کبھی پیچھے نہ ہٹنا تم
	ملیں گی منزلیں تم کو رَہِ دشوار کے پیچھے
	عبدالجبّاربٹ
	169،گوجر نگر ،جموں۔9906185501
	جونمایاں ہووہ نشِاں ہوُں میں 
	کون کہتاہے بے زُباں ہوں میں
	اِس پہ بکھری ہیں مُشکلیں کیاکیا
	پھربھی رہ پر رواں دواں ہُوں میں 
	ساری دُنیاکی ہے خبرمجھ کو
	کیاکہوں آپ کوکہاں ہُوں میں 
	اُس کی اوقات کوسمجھتاہوں 
	اِس زمانے کارازداں ہُوں میں 
	زندگی کاوقار تھاجس سے 
	ایسی تہذیب کانِشاں ہوں میں 
	کِس کی ہمت کہ مجھ کوروک سکے 
	ایک طوفان ہوں رواں ہُوں میں 
	میں بڑھاپے کے ہُوں قریب ہتاشؔ
	حق تویہ ہے ابھی جواں ہوں میں
	پیارے ہتاشؔ
	دور درشن گیٹ لین جانی پورہ جموں
	موبائل نمبر؛8493853607
	میرے ہمدم مجھے بُھلا کر، بولو کیا کچھ پایا تُو نے
	میرے جسم کو خاک بنا کر، بولو کیا کچھ پایا تُو نے
	اتنی تھی تقصیر ہماری تجھ کو اپنا بنا کے رکھا 
	کوئی بھلا یہ ہم سے پوچھے، بولو کیا کچھ پایا تو نے
	لمبی کالی ہجر کی راتیں، خون جمانے والی سردی
	تنہا چھوڑ کے ایسے ہم کو، بولو کیا کچھ پایا تونے
	میں بے زر ہوں سچ ہے لیکن دل کا مستغنی جو ٹھہرا
	جوڑ کے زرداروں سے رشتے، بولو کیا کچھ پایا تو نے
	تیرے چہرے کی وہ رونق کہاں گئی؟ معلوم نہیں ہے!
	ہونٹوں کی مسکان بُھلا کر بولو کیا کچھ پایا تو نے
	مجھے بُھلانے کی یہ کوشش مرزاؔ جی ناکام رہے گی
	خود پہ اتنے ستم کئے ہیں، بولو کیا کچھ پایا تو نے
	شارق نبی وانی مرزاؔ
	کشمیر یونیورسٹی 
	رابطہ؛پلوامہ ،موبائل نمبر -6005365751
	حقیقت یا فسانہ ہے 
	مجھے اب آزمانہ ہے 
	محبّت ہے اگر مجھ سے 
	چلے آئو بہانہ ہے 
	یہی تو عمر ہے ہوتی 
	کہ دِل ہوتا دیوانہ ہے 
	بھروسہ زندگی کا کیِا؟
	کہ کتنا آب و دانہ ہے 
	محّبت ہے مجھے تجھ سے 
	منی ؔ گاتا ترانہ ہے 
	  ہریش کمار منیؔ بھدرواہی
	جنون دل کا بہت ثواب ہوا
	اگر چہ دل بہت خراب ہوا
	صبرِ ایوب دل میں پیدا ہوا
	موت میں زندگی کا شباب ہوا
	دشت میں صبا یہ کہنے لگی 
	کیا قیامت ہوئی تو سراب ہوا
	عشق میں تیرے خود فنا ہوا 
	دیکھ ظالم کیسا جواب ہوا
	ستمگر ٹھوکروں میں یہ پیام ملا
	پروانہ نہ رہا شمع آب ہوا
	پیرزادہ منظور احمد منظور
	قاری گام کٹہار اسلام آباد
	فون؛9622849642
	ٹیڑھی میڑھی اُلٹی بات 
	مت کر ایسی ویسی بات 
	سوچ رہا ہوں کچھ دن سے 
	کہہ دوں اب کے من کی بات 
	وصل میں سب کچھ جائز ہے 
	ایسی ویسی گندی بات 
	جب بھی میں نے لب کھولے 
	مُنہ سے نکلی تیری بات 
	کچھ کچھ ہونے لگتاہے 
	مت کر اتنی پیاری بات 
	خالی کاغذ بھیجا ہے 
	خود سمجھے گی میری  بات 
	کیا؟ مجھ سے تم عشق کرو گی 
	عشق نہیں ہے چھوٹی  بات 
	تُو بھی اچھا ہے لیکن 
	اِندرؔکی ہے اور ہی بات
	اِندرؔ سرازی 
	ضلع ڈوڈہ پریم نگر 7006658731;
	کیا فرق پڑے گا،مجھے آزماکے کھوجانے سے
	دنیا رُکتی تو نہیں ہے کسی کے چلے جانے سے
	ہاتھ بڑھایا تھا تم نے مجھ سے دوستی کے لیے
	کیا پتہ تھا دل چیر کے لے گا اس بہانے سے
	تنہا رہنے کی اب تو عادت ہوگئی ہے مجھے
	ضمیر اجازت نہیں دیتا کسی کو منانے سے
	ہم تو بندے ہیں خدا کے اور اُمتی رسولؐ کے
	ہم تو بہکتے نہیں ہیں کسی کے بہکانے سے
	اپنے ہی خیالوں میں ڈوبا ہے ہر کوئی یہاں
	عبرت بھی نہیں ہوتی روز کسی کو دفنانے سے
	سکھایا جس نے ہمیں زندگی جینے کا سلیقہ
	شرم کیوں کرتے ہیں اُن ؐکی سنت اپنانے سے
	زندگی میں بلالؔ کبھی کسی کاعادی مت بننا
	تکلیف بہت ہوتی ہے کسی کے ٹھکرانے سے
	بلال احمد بلالؔ
	وہی پورہ پلوامہ کشمیر،
	موبائل نمبر؛7006566968