میاں ! جیتے رہو خوش رہو ۔ واللہ نیک بخت ہو کہ دن نیند میں گزرتے، راتیں خوابِ خوگوش میں ۔ ایک یہ پھٹیچر کہ بے خواب ہے ، سازِغم کا مضراب ہے، زندگی مانند ِسراب ہے ۔ کس سے کہوں ؎
موت کا ایک دن معین ہے
رات بھر نیند کیوں نہیں آتی
۔۔۔ مابدولت برکاتِ ِصیام کی خوشیاں منائے کہ غزہ پر اسرائیلی قتل و غارت کا ماتم کرے؟اُف مظلومان ِ غزہ! اسرائیل کم بخت نے ناکردہ گناہوں کی بڑی سزا دی، زندگی بے مزہ ہوئی۔ روز وشب کاحال احوال کیا لکھوں، شوپیان وغزہ پر بے اختیار آنسو بہاؤ ، خونِ جگر میں زخم نہلاؤ، قرضے پر کارو بارِ زیست چلاؤ ۔ دنیا مبہوت ، زمانہ دم بخود، انسانیت حیرت زدہ، چشم زدن میں یہودِ بے بہبود کے ہاتھوں نہتوں کاقتل عام ، درجنوں کلمہ گو خونین قبا لئے بے گوروکفن، توپوں سے چھلنی ہزاروں کے روح و بدن ، پنجہ ٔ یہود میں پھنسا عرب تاعجم فساد و فتن، آدمیت انگشت بدنداں ، انصاف رُوبہ زوال ، نتین یاہو صیہونی دجال ، ٹر مپ ہٹلر کا نقال ، مسلم پادشاہ سر تاسر مکار، ننگ ِقوم و ننگ ملت ، اُمت بدعمل وبے عمل ۔وحدہ لاشریک کیوں ہو مائل بہ کرم ؟ظالم ومظلوم کی رزم گاہ میں فلسطین محض شہادتوں کا عزم، کشمیردرد و کرب کی بزم ،ظالم و جابر ہیں کہ حیوانیت پر نادم ہیں نہ بہیمیت پر شر م سار ؎
رکھیو غالب ؔ! مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد ہے میرے دل میں سوا ہوتا ہے
جان من !ان دنوںدنیا ئے ناپائیدار میںکلمہ خوان روزہ دار ، مساجد یادالہیٰ سے پُر بہار ، وضو کے لئے سمندروں کاپانی بھی کم مقدار، خانقاہیں گل و گلزار، نیکیوں کی چہارسُو فصل ِبہار ، بند گانِ خدا دن میں دین دار ، رات کے شب بیدار، غلط بے ڈھنگے کاموں سے توبہ سوبار، خطاوگناہ پر مسلسل استغفار، غلطیوں کی منڈیاں بے کار، لغزشوں کا مندا کاروبار ، بندوں کامزاج انکسار طبیعت خوش گوار، ہر کس وناکس جنت کا خریدار۔۔۔ مگر داروغہ ٔ سرکار بے کار ، پتھردل ہیں دوکاندار، مہنگائی کے مرض میں تاعمرگرفتار، گرم ہے ملاوٹی بازار،، دفاتر راشیوں کے دربار، ہڑتالیں سموار تا ایتوار ع
اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے ، غالب ؔ
خدا جھوٹ نہ بلوائے ،یہ خانہ خراب اَزل سے سیہ کار، روزہ خور ی پر ہمیشہ تیار بہ تیار ، کام چوری میں نام دار، نماز کا پابند نہ تقوے کا دعوے دار، نیک عملی میں کنگال نفس ِا مارہ کی برائیوںمیں گرفتار، ناونوش میں محو اچھائیوں سے بیزار۔۔ ۔ پھر بھی خدائے غفار کے رحم وغفران سے یہ خطاکار اُمیدوار لیکن ڈنکے کی چوٹ پر کہا ہے ؎
جانتا ہوں ثوابِ طاعت وزہد
پر طبیعت اِدھر نہیں آتی
بندہ پرور! نہیں جانتا اب کی بار خاطی کو روزے کا بار اُٹھانے کا شوق کیوں چرایا ؟ شاید عمر بڑھنے سے اللہ کی یاد آئی ، شاید قبر کے خوف نے عقل ٹھکانے لائی ، کچھ بھی ہو عاصی کے لئے روزہ عیدکا بگل ہے ۔ کسی نے کہا ہے ؎
عید ملنے کا اک بہانہ ہو ا
کاٹ کر جیب وہ روانہ ہوا
نہیں کہہ سکتا جہنم کے ڈر نے یاجنت کی کشش نے شیطان ِ نفس کویک ماہی سہ طلاق شرعی د لوادی ، شکر ہے منچلی طبیعت بھی طاعت و زہد کی جانب کھنچ گئی۔ آج ہی روزوں کے نام سے فاقے کی بسم اللہ کی ۔ سوچا چلو عمل نہیں ،بھوک پیاس سے ہی مالک ِدوجہاں کے نام لیوا ہوجائیں ، گناہوں سے معافی تلافی کرائیں، حور وقصور پر اپنا موروثی حق جتلائیں ، پکانہ بھی سہی اگرکشمیر کے مردِمومن جیسا کچا مسلمان ہی کہلائیں تو بھی غنیمت ۔۔۔ اب دیکھئے کیا حال بنایا اپنا ، ہونٹ سوکھے سوکھے ، زبان خشک وتر، دل بہت کم مائل بہ اطاعت، جگر پر حالات وحوادث کی چوٹیں ۔۔۔ میں بھی کیسامتلون المزاج ہوں ، سحری کے بعد حقہ پانی بند ہوا کہ دن چڑھے تارے نظر آئے، اب بے چارا غالب کیاکرے ؟ افطار تک کا قیامت خیز انتظار یاروزہ توڑنے پر سوچ بچار؟ ع
نہ بھاگنے کی گوں نہ اقامت کی تاب ہے
اپنا حال قطبین کا خیالی اتحاد کرنے والے افلاطون جیسا ہوا، جو اپنے جوڑے ہوئے قیاسی رشتے کو توڑتا تو خسارے میں رہتا، نہ توڑتا تو بھی نقصان اُٹھاتا ۔ یہ بندہ ٔبے قرار اسی پیچ وتاب میں تھا روزہ توڑوں یا نہ توڑوں، اِدھر جاؤں یا اُدھر جاؤں؟ مرہم سے یاری کروں یا زخموں کا سنسار بسالوں ؟ گومگو کی اسی حالت میں اپنی ہر من پسند عادت نے بندے کو نفسانیت کی آسان راہِ فرار سجھائی۔ ایک عادت شریفہ نے چیخ کر کہا :مرزا ! یہاں پارسا ہے کون ؟ سب رند ہیں رند ، دورنگے دوغلے دوچہرے ، اُجالے میں ہم کیا چاہتے ،اندھیرے میں رقیب کے ساتھ سانٹھ گانٹھ۔ عافیت اسی میں ہے چوری چھپے کھا پی کر شکم سیر ہو جاؤ، مونچھوں پر تاؤ دئے باہر آؤ،روزوں کے حقیقی پیغام یعنی پر ہیزگاری پر دھواں دار تقریر جھاڑدو، واہ واہ نہ بٹوری ، مرحبانہ شاباشی نہ ملی تو کہنا ۔
ایک دوسرے پاپ و عیب نے تیکھے انداز میں مخاطب کیا:نوشہ! کتنے بھولے ہو ، جانتے ہو یہاں کرسی کے پشتینی غلام پہلے قتل عام کرواتے ہیں پھر فارغ وقت میں بڑ بولے بنے امریکہ جاتے ہیں امن کا بھاشن دینے ؟کسی دل جلے نے دیار غیر میںاُن سے پوچھا : خیریہ تو بتاؤ اتنا ظلم وتشدد کر کے تم لوگوں کو رات نیند کیسے آتی ہے؟ کوئی جواب نہ بن پڑا؟ تاریخ کھول کے دیکھیو ، ایک پہنچے ہوئے قائد نے سٹیج پر سورہ الرحمن کی تلاوت کر کر کے عوام کالانعام سے دین داری کی سند وصولی ، پھرپیٹھ پیچھے قوم کو کھوٹے سکوں کے عوض بیچ کھایا۔
ایک اور پسندیدہ جرم کو مجھ پر طعنہ زنی کا خوب موقع ملا : ارے عقل کے دشمن، دوٹکے کے شاعر! یہاں کے مظلوموں کوافسپا مودی نے دیا ؟ پوٹا ککہ پرے نے عطاکیا؟ پی ایس اے کس کی ایجاد ہے ؟ کون تھا جس نے دلی کی مکھن ماری کا صلہ پانے کے لئے جینوا جاکر کشمیری مقتولین کا کفن نیلام کیا ؟قاتلوں کی بر سر بازار حمایت کا پہلا سبق کس نے پڑھایا ؟ کیاآسیہ اور نیلوفر کے قتل وعزت ریزی کی وکالت کسی لال سنگھ نے کی ؟
اپنے اندر کے ان تلخ وتند سوالوںکا مشق ِ ستم ٹالنے کے لئے میں نے ضمیرؔ جعفری کی قوالی شروع کی ؎
مجھ سے مت یار کرکچھ گفتار، میں روزے سے ہوں
ہو نہ جائے تجھ سے بھی تکرار ، میں روزے سے ہوں
ہر اک شئے سے کرب کا اظہار، میں روزے سے ہوں
دو کسی اخبار کو اشتہار، میں روزے سے ہوں
میرا روزہ ہے اک بڑا احسان ہے لوگوں کے سر
مجھ کو ڈالو موتیوں کے ہار، میں روزے سے ہوں
اے مری بیوی مرے رستے سے کچھ کتراکے چل
اے میرے بچو ذرا ہوشیار، میں روزے سے ہوں
یار جانی ! ناچیز اپنے اُجاڑگھر میں بیٹھااسی مخمصے میں مبتلائے فکر تھا ، فیصلہ ہی نہ ہو پایا کیا کیا جائے ، آیا روزے سے عارضی الحاق کا بندھن توڑ دوں؟ دنیا ومافیہا کی حقیقتوں سے بے خبر آزادی برائے لیڈری کا جھنڈا لہراؤں ؟ قرارادادی پرچم ہاتھ میں لئے اپنوں کے لئے دوسروں سے قربانیاں مانگوں؟ رائے شماری کی آوارہ گرد راگ بھیروی اَلاپوں ؟ ایکارڈ کا چوردروازہ ڈ ھونڈ کر لذت یاب کرسی کا لالچی پیٹ بھردوں؟ ابھی کوئی حتمی فتویٰ نہ ملاتھا کہ خادم خاص بھولا خان اندر آدھمکا ۔ حسب ِعادت بلا توقف بولا: حضرت! لاحول ولا قوۃ، غضب ہواغضب، قہر ہے قہر ، مانئے یہی قیامت کا آخری پہر ، بپا ہر جامحشر ، باہرگلیاں سنسان کوچے ویران، انسان تو انسان چو پائے بھی زینت ِزندان ، زمین اشک بار آسمان پریشان ۔ میں نے پوچھا: بھولے میاں! کچھ بولو گے بھی کہ یونہی ہانکتے رہناہے ، آخر ہواکیا؟بولا: حضور! بندہ افطاری کا سودا سلف خریدنے بازارگیا، بیگم صاحبہ نے قرضے پر مرچ مسالے ساگ سبزی دال آٹے کی فہرست ہاتھ میں تھمادی ۔ باہر آیا تو سڑکیں سسنان ملیں، دوکانیں بند پائیں ، بستی میں چہل پہل نہ بازار میں رونقیں ، ڈل جھیل افسردہ دیکھی ، چشمہ شاہی مایوس پایا، کوئی تانگہ بان دِکھا نہ پیادہ نظر آیا، ہر طرف آدم زاد نابود ، صرف تیر وتلوارلئے لشکر جوق درجوق موجود۔ گھبراہٹ کے عالم میں خیا ل آیا ہونہ ہو یہ شوپیان کی جھڑپ ، پلوامہ کے معرکہ ، کولگام کے پتھراؤ ، سری نگر کے احتجاج ،اسلام آباد کے مظاہرے ، بارہمولہ کے جلسے جلوس، کپوارہ کی چیخ و پکار کی گھسی پٹی صدائے بازگشت ہے۔ ایک تنہا تنہا ڈرے سہمے شخص کو دیکھا ، منتیں کیں، پاؤں پکڑے، سرگوشی کے انداز میں سناٹے کی وجہ پوچھی،پتہ چلا شاہ ِ ہند مودی کی آمد بہشت پر حریت کی ہمہ گیر ہڑتال ہے۔ پورا شہر سُونا سُونا، ساری فضا سوگوار، زندگی ٹھپ ، معمولاتِ حیات درہم برہم۔ بھولے خان کی زبانی حالات ِحاضرہ سنے تو جان ہی نکل گئی۔ کیوں نہ نکلتی ایک تو پہلا ہی روزہ دشمن ِجان افسپا کی طرح سر پر سوار تھا، ننھی سی جان بھوک پیاس کے زیر عتاب تھی، خانہ خراب سر تاپا نڈھال تھا،اوپر سے حریتی ہڑتال سے اب افطار فاقہ سے ہی کرنے کی مجبوری تھی۔ یاالہٰی یہ ماجرا کیا ہے۔خادمِ خاص نے میری حالت ِزار تاڑ لی، بولا گھبرایئے نہیں مرزا صاحب! کچھ نہ کچھ انتظام ہوگا ۔ اللہ بڑا مہربان ہے، یہ ما ہِ رمضان ہے ، اس کی بڑی شان ہے ، جنگ بندی کا نقلی اعلان ہے،ا ٓدمیت کے لئے خیالی اَ مان ہے، قلم دوات اور کنول کا شاہی فرمان ہے ۔ دنیا اُمید پر قائم ہے ، پھر سے بازار جاتا ہوں ۔ تھوڑا سا یہ ظلم سہنا ہوگا کہ جو دوکان دار صیام کاا ستقبال گراں بازاری سے کر نے کے پشت در پشت عادی ہیں،اُنہی کے پاؤں پکڑکے قرضے پر کچھ سامان ِ زیست لا ؤں گا۔ قسم چھپن انچ چھاتی والے مودی کے اچھے دنوں کی، سوگندھ نواز شریف جیسے امین وصادق کے فراقِ اقتدار میں بہے آنسوؤں کی ، بھولا خان ساتویں تنخواہ کمیشن گرو رکھ کر کچھ نہ کچھ لاکر ہی دم لے گا ع
بہاریں ساتھ لاؤں گا جو لوٹا میں بیاباں سے
اُدھربھولا خان اپنی تلاش وکشمکش کی راہ چل پڑا، اِ دھرمیں دست بدعا ہوا:ـ اے اللہ ! میری بھوک پیاس اور تمہارے روزے کے درمیان اندرونی جنگ چھڑی ہے ،اس جنگ کی بندش کا اعلان بھی فرمادے ، میری آنکھوں پر خوابیدہؔ کشمیری جیسی میٹھی نیند کاغلبہ ڈال کہ افطار نہیں عید تک بیدار ہونے کے گناہ ِ عظیم سے بچ جاؤں۔ آمین۔۔۔ اسی دم انور مرزا پوری کی نظم یاد آئی ؎
کسی صورت بھی نیند نہیںآتی میں کیسے سوجاؤں
کوئی شئے دل کو بہلا تی نہیں میں کیسے سوجاؤں
تمہیں تو ہو شب ِ غم میں جو میرا ساتھ دیتے ہو
ستارو تم کو نیند نہیں آتی میں کیسے سوجاؤں
جسے اپنا سمجھنا تھاوہ آنکھ اب اپنی دشمن ہے
کہ یہ رونے سے باز آتی نہیںمیں کیسے سوجاؤں
یہی نظم گنگناتے ہوئے نیند نما بھوک کا اتنا غلبہ ہو گیا کہ پتہ نہیں چلا صیام کب رخصت ہو ا،عید کب آئی، جنگ بندی کا فرمان کب کب بے جان ہو ا، کتنے نئے قبرستان بن گئے ، غزہ کو کون سی نئی سز املی ، کرناٹک میں یدی رپا کا سنگھاسن کتنی بولیاں دے کر اپنے اچھے دنوں کا مہمان ہوا ۔ جب آدھی ادھوری آنکھ کھل گئی تو پھرسے دعا کی: مولا مجھے از سر نو میٹھی نیند کی آغوش میں لے۔
میٹھی نیند کا طالب
غالب