اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ماہِ صیام و قیام کی سالانہ تزکیاتی مشق اپنے اختتام کو پہنچ گئی اوراختتامی لمحات پر ہر نگاہ اُفق آسمان پر ٹکٹکی باندھے ہلال ِعید کی منتظر رہی ،ہر آنکھ میںا شتیاق اور ہر دید سے کرب و اضطراب و کرب چھلکتا رہا ۔ ذرا یاد کیجئے وہ ایام جب ہمارے اقبال مندی کا زمانہ چل رہاتھا ،جب ہلال عید بہ صد احتشام ہمارے عروج و سربلندی کا ولو لہ انگیز پیام جاں فزا ء اپنے ہمراہ لے آتا تھا ، جب اس کی نمود ہمارے عزو وقار میں اضافہ در اضافہ کا موجب بنتا تھاکہ دنیا اس بلندیٔ بخت پر ہمیں رشک کے ساتھ داد و تحسین دے رہی تھی ۔ آہ ! آج حال یہ ہے کہ یہ مہ نو خود ہماری حالت زار و زبوں پر نوحہ کناں ہے ۔ البتہ اس کا استقبال رونے دھونے تک محدود نہیں بلکہ یہ آج بھی ہمارے حال کو ہمارے تاب ناک ماضی سے جوڑنے کے لئے ،ہمیں اپنے اسلاف کے درخشاں سیرت و کردار سے آگاہ کرنے کے لئے ،دنیا میں ہماری حکمرانی کے دنوں کی یاد تازہ کرنے کے لئے اور پھر اُسی منبع و محور سے ہمیں جڑنے کی تلقین کرنے کے لئے جس سے مربوط رہنے کی بناء پر ہم چہار دانگ عالم پر صدیوں چھائے رہے۔ ہلال عید پھر سے جلوہ فگن ہے مگر ملت کے کھوئے ہوؤں کی جستجو کے لئے اور ہمیں یہ بتانے کے لئے ع
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں ہے جہاں کے لئے
واحسرتا! آج ہم پر ذلت و ادبار کی گھٹائیں چھا ئی ہو ئی ہیںاور ہمارا کوئی پُرسان حال نہیں ،ہم بس اپنے ماضی کے ایامِ کو یاد کرکے جی رہے ہیں ، جب کہ حال ہمیں ڈس رہا ہے اور مستقبل تاریکیوں کا آئینہ دکھا رہا ہے۔واقعی ماضی ٔ بعید کے وہ دن بھی کیا تھے کہ جدھر دیکھو ہم ہی ہم نظر آرہے تھے اور یہ بھی کیا دور ہے کہ ایک ارب کی تعداد کا آنکڑا بھی پار کرچکنے کے باوجود ہم خس و خاشاک سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتے۔دنیا میں ہماری رائے اور بات کا کوئی وزن نہیں ،ہمیں مغرب کی دہلیز کی کاسۂ لیسی پر مجبور نہیں کیا جارہا ہے بلکہ بخوشی وہاں کی خاک کو ہم سر مہ بصیرت و بصارت بنانے پر آمادہ و رضا مند ہیں ۔غور فرمایئے یہ دل خراش عمل عالم وجو د میں آیا ہی کیوں؟ تہ در تہ جانے کی ضرورت ہے اور نہ زیادہ دماغ سوزی کی حاجت ۔ امر وقع یہ ہے کہ جب تک ہمارے نفوس پر آسمان و زمین و عرش و فرش کے مولا کی حکمرانی تھی ،دنیا کی حکمرانی ہمارے گھر کی لونڈی تھی اور جب ہم ان ہی نفوس کے غلامِ بے دام بن گئے تو ایامِ ادبار نے ہمارا تعاقب شروع کیا۔نفوس ، نفس کی جمع ہے جس کے معنیٰ ہیں ’’ذات شخص ،روح اور خیرو شر کے محر کات (Incentives)کا منبع اور ان رجحانات کے رد وقبول کرنے کی قابلیت ۔ قرآن حکیم نے اسے کئی مقامات پر عقل و قلب اور فواد سے بھی موسوم کیا ہے ۔نفس کا یہ منہ زور گھوڑا قابو میں ہے تو ہمارے وارے نیارے ہیں ،یہ بدھک گیا تو اعلیٰ ترین تن و توش کا سوار لڑھک کر زمین پر آجا تا ہے ۔اس لئے کائنات کے سب سے بڑے رہنما و رہبر صلی ا للہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا جائزہ لیجئے تو جہاں اپنے خطبات کے آغاز میں ہی فریب ِنفس اور شرور نفس سے پناہ مانگتے، وہیں بار گاہ ِربانی میں دست ِرحمت دراز کرکے بہ صد خشوع فریاد ی ہیں :’’اے اللہ!مجھے تیری رحمت پر یقین ہے ،سو مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی میرے نفس کے سپرد نہ کر‘‘ (ابو داؤد )اسی بارگاہ میں بصد رقت وگدازیہ دعا مانگتے ہیں :’’اے اللہ ! میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا کر اور اسے پاک فرماکیونکہ تو ہی نفس کو بہترین پاکیزگی عطا کرنے والا ہے ،تو اس کا ولی و کارساز ہے ،اے اللہ ! میںایسے علم سے جو نفع نہ دے اور ایسے قلب سے جس میں تیرے لئے عاجزی نہ ہو اور ایسے (حریص)نفس سے جو کبھی سیر نہ ہو اور ایسی دُعا سے جو قبول نہ ہو ،تیری عافیت کا طلب گار ہوں۔‘‘(مسلم)۔
خیرو شر اور حق و باطل کی اصل رز م گاہ یہی نفس ِامارہ ہے ،یہیں کینہ و بغض ،حرص و آز اور جرائم و کبائر گناہ کے جراثیم پرورش پاتے ہیں اور یہیں سے ہی اُن منفی تقاضوں اور مطالبات کا آغاز ہوتا ہے جو انسانوں کی دنیا کو تہہ و بالا کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اس پر شریعت کی حکمرانی قائم ہوئی تو پھر نفس ِمطمنہ کی صورت میں ہر صبح صبحِ راحت اور ہر شام شامِ مسرت بنتی ہے ۔ یہی تاریخ کا بے غبار سچ بھی ہے ۔نفس ِامارہ نے بغاوت اور خود سری چھوڑ کر دربارِ خداوندی میں خود سپردگی کی تو پھر انسان رفعتوں اور عظمتوں کے عروج کو چھو لیتا ہے ۔ کبر و غرور کا شکار ہوا تو پھر قرآن کے الفاظ میں آدمی اسفل السافلین کے قعر مذلت میں لڑھک کر رہ جاتا ہے۔شیطان کا سب سے بڑا کارخانہ اور اہم نشانہ یہی نفس ہے ،اس کھیتی میں اُس کا بلا روک ٹوک آنا جانا رہے تو سمجھ لیجئے کہ بات اس حد تک بگڑ گئی کہ اگر فوراً نہ سنبھلا جائے اور اس کھیتی کو خالق کون ومکان کے سپرد نہ کیا تو پھر خسارہ و گھاٹے کے سوا کچھ ہاتھ آنے والا نہیں۔ہاں! یہ شیطان اسی نفس امارہ کے تقاضوں کو اس حد تک بڑھا دیتا ہے کہ وہ عملی دنیا میں الٰہی اختیارات لینے پر تلا رہتا ہے ۔وہ مُصر رہتا ہے کہ اس کی ہر بات بلا چوں و چرا مان لی جائے ،اُس کے ہر حکم پر سر تسلیم خم کیا جائے ،بھلے ہی وہ ہماری اُخروی دنیا کااُ جاڑ نے اور بنجر بنانے کا باعث بنے ۔۔۔۔یہی بات خالق نے اس نفس کے حوالے سے سورۃ الجاثیہ میں یوں بیان فرمائی ہے :’’کیا آپ نے اُس شخص کو نہیں دیکھ لیا ،جس نے اپنی خواہش کو اپنا معبود بنالیا اور اللہ تعالیٰ نے علم کے باوجود اُسے گمراہ کردیا اور اُس کے کان اور دل پر مہر لگادی اور اُ س کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا ،پس اللہ کے بعد اُسے کون ہدایت دے سکتا ہے ،تو کیا تم نصیحت قبول نہیں کرتے‘‘۔ قرآن و احادیث میں متعدد مقامات پر بطور خاص یہی نفس موضوع بنا یا گیا ہے ، جس سے یہی عیاں ہوتا ہے کہ نفس کی یہ کھیتی کسی شیطانی دست برد سے محفوظ رہی تو پھر اللہ کی رحمتوں کا نزول اور ہر آن اُس کی نصرت کی آمد شروع ہوتی ہے ۔سامری کو کون سی بیماری لے ڈوبی ؟چنگیز و ہٹلر کس بیماری کے شکار رہے؟ دنیا میں قابیل نے جرم اول کا ارتکاب کیوں کیا ؟یہ سب اتباعِ نفس کی فتنہ سامانی کا ہی مظہر ہے ۔
آج بھی ہم اجتماعی اور انفرادی زندگی میں فریب و ہوائے نفس کے نفسیاتی روگ کے بُری طرح شکار ہیں ۔ہم اپنی انانیت کے خول سے باہر آہی نہیں پا رہے ہیں ، ہم اپنی ہر بات اور ہر خیال کو دُرست اور دوسرے کی ہر صحیح بات غلط اور جھوٹ سمجھنے کی بیمار ذہنی کے شکار ہیں ، ہم اپنی پارسائی کا دم صبح و شام یہ جانتے ہوئے بھرتے ہیں، حا لانکہ خلوت میں ہی نہیں بلکہ جلوت میں بھی اس بھرم کو اپنے ہاتھوں پاش پاش کرکے پھرتے ہیں ، سچ ہے کہ ہماری یہ جلوتیں بھی اس بات کی سلطانی گواہ بنتی ہیں کہ ہم کردار کے کم اور گفتار کے بہت نامی گرامی غازی ہیں۔حق و صداقت اور عدل وامانت کے تعلق سے ہمارے بلند بانگ دعوے اکثر وبیش تر حقائق کا روپ دھارن ہی نہیں کرتے اور یہ دوعملی اور فسادِ قلب و نظر تب تک قائم رہے گا جب تک نہ دل و دماغ کا مل طور مالک کی بندگی قبول نہیں کرتا اور ہر خوف پر بس اُسی کا خوف غالب ہو،جسے قرآن کی زبان میں تقویٰ کہا جاتا ہے اور جسے روزوں کے سالانہ مشق کی روح جتلایا گیا ہے ۔حضرت انسان کامل صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک آدمی کا گزر ہوا ،آپ ؐ نے اپنی خدمت میں بیٹھے ہوئے ایک صحابی ؓسے سوال فرمایا : اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے؟صحابیؓ برجستہ بولا : اس آدمی کا شمار تو بڑے صاحبان ِ عزو وقار میں ہوتا ہے، اللہ کے قسم یہ اس بات کا حق دار ہے کہ شادی کا پیغام دے تو اس کی شادی ہوجائے اور کسی کی سفارش کرے تو قبول کی جائے ۔اللہ کے آخری رسول ؐنے جواب سنا تو خاموش رہے۔پھر معاً دوسرے شخص کا گذر ہوا ،تو آپؐ نے اسی صحابیؓ سے یہی سوال دہرایا کہ اب اس شخص کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے ؟وہ فوراً بول اُٹھے : اے اللہ کے رسولؐ!اس کا شمار تو مسلمانوں کے فقیروں میں ہوتا ہے ۔اس بات کا مستحق ہے کہ کسی کو پیغام نکاح دے تو اس کی شادی نہ ہو ،اگر کسی کی سفارش کرے تو قبول نہ کی جائے اور کوئی بات کہے تو کوئی کان نہ دھرے۔آپ ؐ نے یہ سنا تو زبان ِرسالت ماب گویا ہوئی :’’اللہ کے نزدیک یہ محتاج شخص اس مال دار شخص سے زمین پر بہتر ہے۔(بخاری۔کتاب الرقاق)
اب بتایئے وہ کونسا آلہ و پیمانہ ہے جو انسان کو ہمدوش تریا بھی کرلیتا ہے اور کون سا میٹر ہے جو اُسے ذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں بھی ڈبو تا ہے ۔اصل میں یہی’’تقویٰ‘‘ہے جو سرخ روئی ،بلند بختی اور عزو وقار کا سب سے بڑا پیمانہ اور اہم ترین دلیل ہے ۔یہی بات سیدنا امیر المومنین فاروق اعظم ؓ نے اُ س وقت بیان فرمائی جب وہ ملک شام کی جانب محو سفر تھے ،کیچڑ نما سمندری راستہ تھا ،گھوڑے سے اُترے اور جوتے نکال کر مبارک کندھے پرر کھے ،ابو عبیدہ بن جراح ؓکو یہ عمل ناگوار گذرا ۔بولے :’’ یا امیر المومنین ،مجھے یہ عمل اچھا نہیں لگ رہا ہے ۔آپ کو تو ملک شام کے لوگوں کا سامنا کرنا ہے‘‘۔ظاہر ہے مدعا بس یہ تھا کہ یہ صاحبانِ دنیا آں جناب کے بارے میں کیا سوچیں گے اور کون سی رائے آپؓ ( حضرت عمرؓ) کے اور ہمارے بارے میں قائم کریں گے ۔سیدنا عمرؓ کا اپنے ساتھی کے تاثرات کا سننا تھا تو فرمایا:’’آہ اے ابو عبیدہ!اگر آپ کے علاوہ کسی اور نے ایسا کہا ہوتا تو میں اسے اُمت ِمحمدیہ کے لئے نشانِ عبرت بنا دیتا ،ہم ذلیل و خوار لوگ تھے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ عزت و وقار سے نوازا ۔ اب اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور ذریعہ سے عزت و شان کے متلاشی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ پھر ہمیں خوار کریںگے(مستد رک حاکم)۔ یہی وہ پتے کی بات ہے جو سیدنا عمرؓ نے بیان فرما ئی کہ ہم تھے ہی کیا مگر اسلام سے نگاہ و دِل جڑ گئے تو کائنات کی بقا ء و ترقی کا سرنامہ بن گئے ۔ یہ خدو خشم اور جاہ و حشم عظمت و بزرگی کا کوئی نشان ہے نہ معیار بلکہ رفعت و شوکت دہلیز پر ڈیرہ ڈال دے گی اگر رمضان کی روح تقویٰ کو سمجھ کر اسے دل میں بسانے اور نفس پر حکمرانی کرنے کے قابل بن گئے ۔اسی پیام سرمد ی سے دوری کے عبرت ناک نتائج ہیں کہ آج شرق و غرب میں ہم مسلمانوں پر ذلت و ادبار کے کوڑے برس رہے ہیں۔ فلسطین ،شام اور یمن لہولہاں ہیں، عراق جھلس رہاہے ،لیبیا ومصر امن وامان کے لئے ترس رہے ہیں، مشرق وسطیٰ اور جنوبی ایشیا کی خون آشامیوں پر انسانیت شرم سار ہے۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق قلق و اضطراب کی بدترین شکار ہے۔اُدھر دیار ِہند کے نام لیوا یانِ اسلام کا قافیہ حیات بندکرنے کا ہر سامان کیا جارہا ہے ،انہیں نفسیاتی طور تو معتو ب و مجبور بنانے کا ہر غلیظ وپلید نسخہ آزمایا جارہا ہے اور اِدھر ہم اہل کاشمر ہیںجوجورو ظلم کی چکی میں پِسے جارہے ہیں ،ہر روز قتل وخون، مظالم ، محاصرے ،گرفتاریاں کے جھکڑ چل رہے ہیں ،گولیوں کی گن گرج ہے ، بارود کی بدبُو ئیں ہیں ۔ ایک یاودسرے بہانے نوجوانوں کے روز اٹھتے جنازے قلب ناتواں پر آرے چلارہے ہیں،انصاف و عدل کی اصطلاحیں بس قانون کی ضخیم کتابوں میں مدفون ہیں ، ناگفتہ بہ قہر سامانیوں کی تاویلیں ہورہی ہیں اور انسانی ڈھال بنانے تک کے مکروہ عمل کو سند جوازبخشا جارہا ہے ۔ اب حال یہ ہے کہ ہماری عزتوں پر بھی سر راہ دست آزمائیاں ہورہی ہیں ۔افسوس صد افسوس! ہمارے جسم تو کر م فرماؤں نے ستر سال سے مقید کر کے رکھے ہی ہیں، لیکن اب ان کا اصل ہدف ہمارے عقیدہ اور ہمارے فکر پر شب خون مارنا بناہواہے ، نئے حالات میں انہی کو مسخر کرنا یا مسخ کر کے چھوڑنا ان کااصل مقصود بنا ہواہے ۔واللہ یہ بفضل باری ہماری کوئی رگِ حمیت ہے جو حرارت ِایمانی سے پھڑک رہی ہے ،اسے کہیں سلانے اور کہیں دبانے کا عمل قبیحہ بڑے پیمانے پر جاری ہے ۔اس بارے میں اغیار کے مکروہ خاکوں میں رنگ بھرنے کے لئے ہمارے کچھ نئے کچھ پرانے پاپی اپنا خاص الخاص کردار نبھا تے جارہے ہیں۔ یہی وجہ ہے صبح و شام ہم پر نت نئے کرب و ابتلا ؤںکا نزول ہورہاہے جن میںقید وبند کی سختیاں اور انسانی حقوق کی پامالیاں بھی شامل ہیں۔ ایسے میں رمضان سعید کی سحر خیزیاں ، روزہ داریاں،شب بیداریاں ،تراویح و تسابیح کا یک ماہی عمل( رب جلیل قبول فرمائے) اختتام پر ہورہاہے اور عیدالفطر کا نوربرس رہاہے۔ اس موقع پر ہمیں اپنے روزوں کی لاج رکھتے ہوئے انفرادی سطح پر بھی اوراجتماعی سطح پر بھی ہمہ وقت احتساب کر نا ہوگا، اپنے ایمان کی تجدید کا عہد بھی باندھ لینا ہوگا ، اپنے گردونواح میں سائلین ومحرومین کی فوج کے جوحقوق ہم پر واجب ہیں ا نہیں ادا کر نے کی سعی ٔجمیلہ بھی کر نا ہوگی ، دین دکھیوں کا سہارا بھی بننا ہوگا، قرابت داروں کا حق بھی ادا کر نا ہوگا ، بے سہارامریضوں ، قیدیوں، بیواؤں اور یتیموں کی دل جوئی کا سامان بھی بننا ہوگا۔ یہ سب ہواتو اس اُمت کو پھر سے عظمت ِرفتہ حاصل ہو گی لیکن یہ بات ہم اپنی گرہ میں باندھیں کہ یہ کااسی وقت ممکن ہے جب ہم نے اپنے نفس کو قرآن وسنت کا مطیع فرمان بنایا ہو ۔ بہر صورت آج پھر ہلال عید جلوہ گر ہوا ہمیںاپنے درخشندہ ماضی کی یاد دلانے اور بے بال و پر حال پر نوحہ کناں ہونے کے لئے لیکن ساتھ ساتھ یہ ہمیں اسلام سے جڑے رہنے کی شرط پر ایک شاندار مستقبل کی نوید بھی دے چکاہے ۔ علامہ اقبالؒ کے غرہ شوال والے اشعار سے زیادہ دل کی ترجمانی بھلا کیسے ہوگی ۔قارئین اُس نظمِ اقبال کو ضرور ایک بار بلکہ بار بار پڑھئے،اس کا حرف حرف اور لفظ لفظ حساس دِلوں کا ترجما ن بھی ہے اورخوش خبری بھی ۔ شاعرا سلام نے ہلال عید سے مخاطب ہو کر کہا کہ تمہارے ساتھ ہمارے رشتٔہ قلب کس قدر گہرا اور اَٹوٹ ہے تو ہمارے عرو ج کا گواہ عادِل بھی ہے اور زوال وادبار کا شاہد بھی۔۔۔۔جس دور سے بھی ہم گذرے ،تُو ہمارے ساتھ ساتھ رہا ۔۔۔۔۔اور جب بھی تُو رمضان کے آخری دن جلوہ گر ہوتا ہے تو تمہاری یہی ررفا قت قلب ِناتواں سے کہلواتی ہے ؎
اے مہِ نو ہم کو تجھ سے الفتِ دیرینہ ہے
رابطہ9419080306